در پئے آزار کچھ احباب کچھ اغیار تھے
اِن میں بھی جو سخت تھے وہ دوستوں کے وار تھےگرز جو ہم پر اُٹھا اپنے نشانے پر لگاتِیر چلّے پر چڑھے جتنے، جگر کے پار تھےجان لیوا خامشی اُس کی تھی اور جو بول تھےسب کے سب شاخِ سماعت پر تبر کی دھار تھےکھو کے اُس چنچل کی چاہت میں یہی ہم پر کھُلااِک ذرا سا لطف، پھر آزار ہی آزار تھےکیا سے کیا اُس شوخ کے ہاتھوں نہ سہنے پڑ گئےجس قدر بھی جبر کے آداب تھے اطوار تھے