کہیں صحرا کہیں سُوکھے شجر اچھے نہیں لگتے
کہیں صحرا کہیں سُوکھے شجر اچھے نہیں لگتے
مجھے اب خواب زاروں کے سفر اچھے نہیں لگتے۔
جوابی خط میں یوں اُس نے میرے بارے میں لکھا تھا
بُرا بھی کہ نہیں سکتے مگر اچھے نہیں لگتے
نہیں مصرف میں اتنا کہ گھر کا راستہ بُھولوں
کوئی جب منتظر نہ ہو تو گھر اچھے نہیں لگتے
سمندر تیرتی لاشوں سے یہ کہتا رہا شب بھر
مُجھے بھی ڈوبنے والو ،،،! بھنور اچھے نہیں لگتے
نہیں ایسا کہ پرواز کی طاقت نہیں باقی
میری اُمید کے پنچھی کو پر اچھے نہیں لگتے
Re: کہیں صحرا کہیں سُوکھے شجر اچھے نہیں لگتے
Re: کہیں صحرا کہیں سُوکھے شجر اچھے نہیں لگتے