PDA

View Full Version : دکھی لفظوں کی اک نظم



intelligent086
09-18-2014, 09:11 PM
دکھی لفظوں کی اک نظم

کھلے دریچوں کے پاس بیلوں پہ شام اتری تو اس نے سوچا
کبھی دسمبر کی دھوپ جیسا وہ مہرباں جو کہیں نہیں ہے
ہوا کے ہونٹوں پہ گیت لکھتا تو بالکونی میں پھول کھلتے
جو لوگ آنکھوں کے خواب لے کر سمندروں میں اتر گئے تھے
وہ جانتے تھے کہ ریگ ساحل محبتوں کی امیں نہیں ہے
جو لوگ رستوں میں پھر نہ ملنے کا عہد کر کے بچھڑ گئے تھے
کسے خبر ہے کہ وہ ہواؤں کے گیت بن کر، تھکے پرندوں،
بکھرتے پتوں کے میت بن کر اداس راہوں میں گونجتے ہیں
انہی خیالوں میں گم وہ کمرے سے آئی باہر تو اس نے دیکھا
ہوا کے جھونکے برآمدے میں ستوں بن کر کھڑے تھے لیکن
دکھوں کی بیلا نے ان کے اوپر عجیب لفظوں میں لکھ دئے تھے
گئی رتوں کے سوالنامے جنہیں وہ پڑھ کے بہت ہی روئی۔
٭٭٭