PDA

View Full Version : تاریخ سے باہر ایک آدمی



intelligent086
09-18-2014, 08:42 PM
دنوں کے گرد آلودہ جھروکے سے
میں اس کو دیکھتا ہوں
چھت کے اوپر
تار پر پھیلے ہوئے کپڑوں کے پیچھے

بے صدا پرچھائیوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے
اور نیچے، اجنبی گلیوں میں
قدموں سے لپٹتی دھول ہے
تاریخ چلتی ہے
دھمک سے کہنہ دیواریں لرزتی ہیں
گزرتا وقت سنگ و خشت سے آنکھیں رگڑتا ہے
دنوں کے گرد آلودہ جھروکے سے
کوئی لمحہ، پلستر کا کوئی ٹکڑا اکھڑتا ہے
بدک کر اسپ شاہی بھاگ اٹھتا ہے
دریچوں اور دیواروں کی درزوں سے
کئی چیخیں نکلتی ہیں
منڈیریں کانپ جاتی ہیں
دنوں کے گرد آلودہ جھروکے سے
میں اس کو دیکھتا ہوں
سر جھکائے بے خبر چلتے ہوئے
لشکر کے بیچوں بیچ
بوسیدہ قبا پہنے
غلاموں کے ہجوم نا مشخص میں ۔
دنوں کے گرد آلودہ جھروکے سے
میں اس کو دیکھتا ہوں
تارکولی راستوں پر
دھوپ سے بچنے کی خاطر
ٹین کے چھجوں کے نیچے
یا کبھی شاموں کے کم گہرے اندھیرے میں
کتابوں کی دکانوں پر
٭٭٭