PDA

View Full Version : دھرنے , حکومت و اپوزیشن کوئی حل تلاش کرنے می&#



intelligent086
09-18-2014, 07:58 AM
دھرنے , حکومت و اپوزیشن کوئی حل تلاش کرنے میں ناکام
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x10550_38219121.jpg.pagespeed.ic.q4UNoJSTAO .jpg

سیدظفرہاشمی
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے تو بدستور وفاقی دارلحکومت میں جاری ہیں جنھوں نے بڑی حد تک وفاقی حکومت کو مفلوج کر رکھا ہے ۔ جب تک یہ دھرنے آبپارہ کے علاقے میں موجود رہے ‘حکومت کو ان سے کوئی پریشانی نہیں تھی لیکن ڈی چوک اور شاہراہِ دستور پر ان کی آمد کے بعد سے حکومت کا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ۔ کئی روز تک تو سرکاری ملازمین کے لیے اپنے دفاتر تک جانا ممکن نہیں ہو سکا کیوں کہ وفاقی حکومت کے تقریباً تمام بڑے دفاتر جن میں پاک سیکرٹریٹ کے علاوہ کیبنٹ بلاک ، ایوان صدر ، ایوان وزیر اعظم ، پارلیمنٹ ہاوس ، وزیر اعظم ہاوس ، ایف بی آر ، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سمیت بعض دیگر دفاتر شامل ہیں‘ اسی شاہراہ دستور پر واقع ہیں جہاں پر ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنے کی صورت میں ’’قبضہ ‘‘کر لیا تھا ۔ ڈی چوک اور شاہراہ دستور پر پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے اس طرح کنٹینرز کھڑے کیے گئے تھے کہ دشمن کی فوج یلغار کرنے والی ہو، چناں چہ سرکاری ملازمین نے ان حالات سے جی بھر کے مزہ اٹھایا اور خوب چھٹیاں انجوائے کیں۔بہرحال سپریم کورٹ نے اس صورتِ حال کا نوٹس لیا اور دھرنے والوں کو کچھ نہ کچھ راستہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا جس سے سرکاری دفاتر میں کام کا آغاز ممکن ہو سکا ۔ لیکن اب بھی حالات یہ ہیں کہ تمام دفاتر میں سو فیصد کام شروع نہیںہو سکا ۔اس عرصہ کے دوران ملک نے کتنا نقصان اٹھایا؟ اس کا حقیقی معنوں میں اندازہ لگانا مشکل ہے ۔موجودہ سیاسی صورتِ حال کے پیشِ نظر ایسی کوئی بھی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کہ یہ دھرنے اگلے کتنے روز تک جاری رہتے ہیں ؟ دھرنے ختم نہ ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حکومت کو سیلاب کی صورت میں ایک اور بحران سے دو چار کر دیا ۔ اب حکومت دھرنے والوں سے نمٹے یا سیلاب سے ۔اگرچہ اس وقت سیلاب کا پانی پنجاب سے نکل کر سندھ میں داخل ہو چکا ہے لیکن اس نے پنجاب کو جس نقصان سے دوچار کیا‘ اس کے اثرات سے اگلے کئی برسوںتک نہیں نمٹا جا سکے گا ۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اب بھی حکمران فرائض کی ادائیگی میںغفلت اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ جاری رکھیں گے ، جیسا کہ انہوں نے فلڈ کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد نہ کر کے کیا کہ یہ رپورٹ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے تیار کی گئی تھی لیکن حکومت نے فلڈ کمیشن کی رپورٹ کو کھول کر پڑھنا تک گوارہ نہیں کیاجس کے باعث سیلاب کی صورت میں ایک بڑی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ اسے اگر نااہل طرز ِحکمرانی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے ؟ لیکن المیہ تو یہ ہے کہ اس میں کسی ایک حکومت کا قصور نہیں،ماضی کی حکومتوں کی پالیسیاں بھی کچھ مختلف نہیں رہیں اورموجودہ حکومت بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے کہ فلڈ کمیشن کی رپورٹ پر عمل نہیں ہوا،کوئی بات نہیں۔نئے ڈیم نہیں بنائے گئے، کیا فرق پڑتا ہے؟ تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے بھی اسی قسم کے مؤقف کا اعادہ کیا گیاہے‘ ملک کو درپیش مسئلہ صرف الیکشن میں دھاندلی کا نہیں ہے بلکہ دھاندلی کی تحقیقا ت کے نعرے سے شروع ہونے والی اس تحریک نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور اب عمران خان نظام کی تبدیلی کی بات کر رہے ہیں۔ اگر عمران خان اپنی تھوڑی سی اصلاح اور کرلیں اور دوسرے سیاست دانوں کے حوالے سے اپنے لب و لہجے کو درست کر لیں جس میں تضحیک کا پہلو نہ ہو تو وہ مزید بہتر مقرر قرار پا سکتے ہیں ۔ انھوں نے بدھ کے روز اپنے خطاب میں حکومت کو دھرنے سے نجات کی ایک نئی راہ دکھائی اور کہا کہ اگر نواز شریف اپنے تمام اثاثے ظاہر کر دیں تو وہ اپنا دھرنا ختم کر دیں گے ۔ یہ ان کا وزیر اعظم کی طرف ایک اور بائونسر ہے ۔عمران خان کا خیال ہے کہ شاید مذاکرات سے اس مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا کیوں کہ مذاکرات سے تو حکومت راہ فرار اختیار کر چکی ہے ۔ جب تک مذاکرات کا عمل جاری تھا توامید تھی کہ شاید مسئلے کا کوئی حل نکل آئے۔ حکومت وزیراعظم کے مستعفی ہونے پر ڈٹی رہی اور بعدازاںانتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے طریقہ ٔکار پر بھی پی ٹی آئی کے ساتھ متفق نہ ہو سکی جس کے باعث مذاکرات کا اختتام ہو گیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کچھ دو اور کچھ لو کے فارمولے کے تحت نہیں بلکہ ’’کچھ لو اور کچھ لو‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے مذاکرات کر رہی تھی ۔ پی ٹی آئی کے ذرائع کہتے ہیں کہ حکومت کا مؤقف تھا کہ دھاندلی کی تحقیقات ہوں لیکن اس حوالے سے کوئی ریکارڈ تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سامنے پیش نہ کیا جائے جب کہ پی ٹی آئی کا یہ کہنا تھا کہ جب تک کمیشن ریکارڈ کا جائزہ نہیں لے گا‘ا س وقت تک دھاندلی کو کس طرح ثابت کیا جا سکتا ہے ؟ چناں چہ ڈیڈلاک توڑنے کے لیے شروع ہونے والے مذاکرات کا اختتام ایک بار پھر ڈیڈلاک پر ہو گیاجس کے باعث اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ یہ بحران بات چیت کے ذریعے پر امن طریقے سے حل ہوتا نظر نہیں آتا ۔ دوسری جانب حکومت کی درخواست پر دھرنوں کی قیادت کے خلاف درجنوں مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اس سارے تنازع میں حکومت کچھ بھی کھونے پر تیار نہیں ۔ مذاکرات میں گارنٹر کا کرداراہم ہوتا ہے جو اس کہانی میں موجود نہیں ہے جس میں حکومت کی اپنی نااہلی کا عمل دخل ہے‘اگرچہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ایک جرگے نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی سربراہی میں اس حوالے سے سرگرم اور موثر کردارادا کرنے کی کوشش کی لیکن یہ جرگہ بے اختیار تھا، چناں چہ دونوں فریقوںکو کسی متفقہ نتیجے پر لانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔کچھ ایسی ہی صورتِ حال پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی تھی جو بے نتیجہ ختم ہوگئے ۔ ایک طرف دھرنے والے ہیں جو اٹھنے پر تیار نہیں اوردوسری جانب حکومت ہے جوکچھ ماننے پر تیار نہیں ۔ان حالات میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کی جانب سے ریڈ زون میں شیلنگ اور فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں پر وزیر اعظم نواز شریف ، وزیر اعلیٰ پنجاب اور تین وزرا ء سمیت گیار ہ شخصیات کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد یہ دوسرا مقدمہ ہے جو شریف برادران کے خلاف ان کے اپنے ہی دور میںدرج ہوا ہے۔ادھر عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری جو روزانہ اپنی شعلہ بیانی سے کارکنوں کے خون کو گرماتے اور جلد خوشخبری کی نوید سناتے ہیں‘ انہوںنے کرنسی نوٹوں پر ’’گو نواز گو‘‘ کی اپنی کال واپس لے کر ایس ایم ایس ، فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے یہ مہم چلانے کی ہدایت کر دی ۔ دیکھتے ہیں کہ ان کی یہ مہم آنے والے دنوں میں کتنی مقبولیت حاصل کرتی ہے ۔ ٭…٭…٭

Admin
09-18-2014, 08:37 AM
no doubt

Thanks For Sharing Sir