PDA

View Full Version : نگارِ گل تجھے وہ دن بھی یاد ہوں شاید



intelligent086
09-17-2014, 01:01 PM
نگارِ گل تجھے وہ دن بھی یاد ہوں شاید

کہ جن کے ذکر سے اب دل پہ تازیانہ لگے
تری طلب میں وہ دار و رسن کے ہنگامے
کہ جن کی بات کریں بھی تو اب فسانہ لگے
بقدرِ ذوق جلاتے رہے لہو کے چراغ
کہ تُو جب آئے تو یہ گھر نگار خانہ لگے
اِسی خیال سے ہر زخم اپنے دل پہ سہا
کہ تجھ کو گردشِ ایّام کی ہوا نہ لگے
مگر جو گزری ہے ہم پر ترے حصول کے بعد
وہ حالِ غم بھی کہیں ، گر تجھے بُرا نہ لگے

نگارِ گُل وہ ہمیں تھے ترے تمنائی
کہ جن کے خوں سے ترے رنگ تابناک ہوئے
ہمیں ہیں جن سے قبا تیری لالہ رنگ ہوئی
ہمیں ہیں وہ جو تری رہگزر میں خاک ہوئے
خزاں تو خیر ستم کیشیوں کی رُت تھی مگر
بہار میں بھی ہمارے جگر ہی چاک ہوئے
ہمیں منارۂ کسریٰ کو توڑنے والے
ترے حریم میں آ کر ہمیں ہلاک ہوئے

نگارِ گُل یہ تقاضا مگر وفا کا ہے
کہ اب بھی ہم ترے وعدوں کا اعتبار کریں
گزر گئی جو گزرنی تھی سخت جانوں پر
پھر آج تیری جفاؤں کا کیا شمار کریں
الم گزیدہ سہی پیرہن دریدہ سہی
مگر لبوں پہ غمِ دل نہ آشکار کریں
یہی اصول رہا ہے وفا پرستوں کا
ہر ایک حال میں توصیفِ حسنِ یار کریں
جبیں سے دھو کے ہر اک نقش نامرادی کا
نگارِ گُل ترے جلووں کا انتظار کریں
٭٭٭