PDA

View Full Version : پیغامِ غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا



intelligent086
09-14-2014, 11:35 PM
پیغامِ غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا

نالہ مرا چمن کی دیوار تک نہ پہنچا



اس آئنے کے مانند زنگار جس کو کھاوے
کام اپنا اُس کے غم میں دیدار تک نہ پہنچا

جوں نقش پا ہے غربت حیرانِ کار اس کی
آوارہ ہو وطن سے جو یار تک نہ پہنچا

لبریزِ شکوہ تھے ہم لیکن حضور تیرے
کارِ شکایت اپنا گفتار تک نہ پہنچا

بے چشم نم رسیدہ پانی چوانے کوئی
وقتِ اخیر اس کے بیمار تک نہ پہنچا

یہ بخت سبزہ دیکھو باغِ زمانہ میں سے
پژمردہ گل بھی اپنی دستار تک نہ پہنچا

(ق)

مستوری خوب روئی دونوں نہ جمع ہوویں
خوبی کا کام کس کے اظہار تک نہ پہنچا

یوسف سے لے کے تا گُل پھر گُل سے لے کے تا شمع
یہ حسن کس کو لے کر بازار تک نہ پہنچا

افسوس میرؔ وے جو ہونے شہید آئے
پھر کام اُن کا اُس کی تلوار تک نہ پہنچا

Dr Danish
09-20-2015, 09:47 PM
Umda Intekhab
sharing ka shukariya:)

intelligent086
09-21-2015, 11:02 AM
پسندیدگی کا شکریہ