PDA

View Full Version : ایک نظم



intelligent086
09-11-2014, 11:45 PM
مجھے معلوم ہے سب کچھ
کہ وہ حرفِ وفا سے اجنبی ہے

وہ اپنی ذات سے ہٹ کر
بہت کم سوچتی ہے
وہ جب بھی آئینہ دیکھے
تو بس اپنے ہی خال و خد کے
تیور دیکھتی ہے
اسے اپنے بدن کے زاویے ،قوسیں ، مثلث ، مستطیلیں
بازوؤں کی دسترس میں رقص کرتی خواہشوں کی سب اڑانیں
قیمتی لگتی ہیں سیم و زر کے پوشیدہ خزانوں سے
زمینوں آسمانوں میں رواں روشن زمانوں سے
وہ لمحہ لمحہ اپنے ہی تراشیدہ کروں میں
گھومتی ہے
وہ بارش میں نہائی دھوپ کے آنگن میں
کھلتی کھلتی ہنستی ہری بیلوں کی شہ رگ سے
نچڑتی ناچتی بوندوں کو پی کر
جھومتی ہے
اسے اپنے سوا دنیا کی ہر صورت، ہر اک تصویر
بے ترتیب لگتی ہے
مجھے معلوم ہے سب کچھ
کہ وہ رنگوں بھرے منظر،دھنک کے ذائقے
اجلی فضا کی خوشبوئیں ،جھلمل شعاعیں
اپنی بینائی کے حلقوں میں مقید کر کے اپنی مسکراہٹ
کے دریچے کھولتی ہے
کہ وہ اقرار کے لمحوں میں کم کم بولتی ہے
مجھے معلوم ہے سب کچھ
مگر معلوم ہی سب کچھ نہیں ہے
کہ اس معلوم کی سرحد کے اس جانب
فشارِ آگہی کا آسماں ہے
خود فراموشی خموشی کی سر زمیں ہے
جہاں ظاہر کی آنکھوں سے ابھی معدوم ہے سب کچھ
مجھے معلوم ہے سب کچھ
مگر معلوم ہی سب کچھ نہیں ہے ۔