PDA

View Full Version : UT Urdu Adab Compt September 2014



Mamin Mirza
08-24-2014, 01:03 PM
اسلام و علیکم


امیدِ واثق ہے کہ آپ سب اللہ کریم کی مہربانی سے ہشاش بشاش ہونگے


اردو تہذیب کے گوشہ ءِ ادب کے ماہانہ مقابلے کے اعلان کے ساتھ حاضر ہوں۔







اس ماہ آپ سب نے جو اقتباس شئیر کرنا ہے وہ یادوں کے حوالے سے ہو




مقابلے کے قوانین درج ذیل ہیں


١:ایک رکن ایک ہی بار حصہ لے سکتا ہے،آئی ڈی بدل بدل کر نہیں


٢:اگر نیٹ سے تلاش کر شئیرنگ کی جائے تو اس پر کسی دوسری ویب سائٹ کا اڈریس نہ ہو۔


٣:اردو اور رومن دونوں میں شئیرنگ کی جاسکتی ہیں۔


٤:اخلاقیات کا خیال رکھیں۔


٥:کوشش کریں اغلاط یعنی غلطیاں کم سے کم ہوں۔


٦: کتاب اور مصںف کا نام ضرور تحریر کریں۔

٧:اقتباس صرف نثر پر مبنی ہو،نظم یعنی شاعری کی صورت ہرگز نہیں۔





مقابلے کی آخری تاریخ ٢٠ستمبر٢٠١٤ہے


دھیان رہے تمام شئیرنگ اسی تھریڈ میں ہونگی۔


غیر ضروری گفتگو اور کمنٹس کرنا منع ہیں

tricky temi
09-03-2014, 10:07 AM
Umera ahmad k novel Eman,Umeed aur Muhabbat se iqtabas

"wo jane se pehle aik din hostel mein phirti rahi thi. Wahan ki her cheez k sath us ki yaadein wabasta thin. Aisi yadein jnhein wo bhula dena chahti thi...

Sardion ki wo ratein jab us ne apni zindagi ko barzakh bante dekha tha.....
......Garmion ki wo ratein jab us ka jism barf ka toda ban jata tha....

Us k aansoo, Us k khawab us ki khawishein,,, sub ki qabrein yehin thin.....
Use yun lagta tha jese wo in qabron ki majwar ban chuki ho....
Is qabristan ne us k wajood ko kha lia tha...
Ab jab wo bahir nikalne ki koshish ker rahi thi to us ka poora wajood kat raha tha...."
"Agar aik baat kehne k liye lafz na mil rahe hun to apni us baat ya jazbay per aik baar phir se ghour zaror kerna chahye..."
Wo in ka munh dekh ker reh gaya..."Wo meri zindagi ka hissa ban chuki hai, us k baghair mein apni zindagi ka tassawur nahin ker sakta."

"Insan sirf KHUDA k baghair nahin reh sakta, baqi her cheez k baghair raha ja sakta hai... chahe bohat thori dair k liye he sahi."

Wo qail nahin huwa magar sir jhuka ker khamosh raha...

"Jab tak insan ko pani nahin milta usey yunhi lagta hai k wo pyas se mar jaye ga...Magar pani ka ghoont bharte he wo doosri cheezon k baare mein sochne lagta hai phir usey yeh khayal bhi nahin aata k wo pyas se mar sakta tha."
Us ne sir utha ker Dr. Khursheed ko dekha...

"Magar log pyas se mar bhi jate hain"

"Nahin, pyas se nahin marte, marte to wo apne waqt pe hain or issi tarah jis tarah KHUDA chahta ha...magar dunia mein itni cheezein humari pyas ban jati hain k phir humein zinda rehte hueye bhi baar baar mout k tajarubay se guzarna parhta hai."

Mrs.Qaisar
09-05-2014, 03:48 PM
​http://www.friendskorner.com/forum/photopost/data/500/yadiain1.GIF

Pari
09-08-2014, 01:26 PM
شوکت تھانوی کی کتاب " کچھ یادیں کچھ باتیں "سے اقتباس​

" میری زندگی کا آغاز ایک عجیب ہنگامہ سے ہوا بلکہ میں تو اسے ہنگامہ سے زیادہ شامت ہی کہوں گا ۔جس طرح شامت بغیر کسی اطلاع کے آجاتی ہے اسی طرح مجھ پر یہ سانحہ گذرا کہ میں بیٹھے بٹھائے شاعر بن گیا حالانکہ مجھ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ والد محترم میرا نالائق نکل جانا اور شاعر بن جانا یکساں قسم کی بات سمجھیں گے اس لیے کہ میں ایک چچا زاد بھائی کے متعلق ان کی اس رائے سے پوری طرح واقف تھا جو ان کے شاعر نکل جانے کے بعد والد محترم نے قائم کر رکھی تھی مگر ان بھائی جان کی شاعرانہ عظمت کا میں کچھ ایسا قائل تھا کہ خود اپنے کو بھی شاعر بنائے بغیر نہ رہ سکا شروع شروع میں تو شاعری کچھ ایسی 'پرائیویٹ پریکٹس ' کرتا رہا ۔جس میں چوری اور سینہ زوری دونوں کو دخل تھا کہ انہی بھائی جان کا کلام نقل کر کے اپنے دوستوں میں لے جاتا تھا اور ان کے تخلص کی جگہ اپنا تخلص فٹ کر کے ووستوں کو وہ کلام لہک لہک کر سناتا تھا ۔​
اس سے قبل کہ میں کچھ اور عرض کروں میں چاہتا ہوں کہ میرے تخلص والی بات نہ رہ جائے کہ میں نے شوکت کیوں رکھا ۔بات یہ کہ جس زمانے میں مٰن نے شاعر بن رہا تھا علی برادران اور مہاتما گاندھی کا بڑا نام تھا اب یا تو میں اپنا تخلص گاندھی رکھ سکتا تھا ا ور نہ علی برادران میں سے کسی کا نام تخلص کے لیے منتخب کر سکتا تھا ، مولانا محمد علی کے دونوں اجزا مجھے تخلص کے لیے مناسب نہیں معلوم ہوئے ، البتہ مولانا شوکت علی کا شوکت میرے دل میں اتر گیا پھر اس تخلص کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ بھائی جان کا تخلص ارشد ہٹا کر اس شوکت کو نہایت آسانی سے فٹ کیا جاسکتا تھا لہٰذا میں نے اس اعتبار سے اس تخلص کو اپنے لیے مناسب سمجھا اور بھائی جان کے مقطعوں میں اسی کو رکھ رکلھ کر اپنے دوستوں کو سناتا رہا مگر ایک دن ناگاہ ایک غزل مجھ سے سرزد ہو گئی اور کچھ نہ پوچھئیے میری خوشی کا عالم جب میں نے اپنی پہلی غزل مکمل کرکے احباب سے داد حاصل کی مگر چونک یہ چوری کی غزل نہ تھی لہٰذا بے ساختہ جی چاہنے لگا کہ یہ غزل میرے نام سے کہیں نہ کہیں چھپ جائے میں نے اس غزل کی کئی نقلیں کیں اور اپنے گھر آنے والے تمام ادبی رسالوں کے پتہ پر ایک ایک نقل اس اپیل کے ساتھ روانہ کردی کہ ​
ع بہرِ خدا ہمیں بھی کوئی چھاپ دیجئیے ​
جس شامت کا میں نے ذکر کیا ہے وہ یوں آئی کہ ایک دن ڈاک میں مجھ کو اپنے نام آیا ہوا ایک رسالہ ملا میرے نام ایک رسالہ کا آنا میرے لیے کیا کم اہم تھا کہ اب جو اسے کھول کر دیکھتا ہوں تو اس میں میری وہی غزل ' رنگ تغزل ' کے زیر عنوان چھپی ہوئی تھی اور عنوان کے نیچے میرا نام بھی نہایت نمایاں حروف میںدرج تھا ۔' نتیجہ فکر شیخ محمد عمر صاحب شوکت تھانوی ' کاش آپ کو یقین آجائے کہ مجھ کو اپنی نگاہوں پر اعتبار نہ آسکا بار بار آنکھوں کو ملتا اور شروع سے آخر تک اس غزل کو پڑھتا تھا۔ہر چند کہ کسی طرح سیری نہ ہوتی تھی مگر اب جی چاہنے لگا تھا کہ گھر کے دوسرے افراد بھی اس غزل کو دیکھیں اور اندازہ کریں کہ اس میں ایک ایسا جوہر قابل بھی موجود ہے ۔ جو ایک ستارہ بن کر طلوع ہوا جس کو آفتاب بن کر نصف النہار پر پہنچنا ہے طنانچہ میں نے ایک چھوٹی سی میز ایک ایسے کمرے کے وسط میں رکھ دی جہاں سے سبھی کا گذر ہوتا رہتا تھا اور اس میز پر اس رسالے کا وہی غزل والا صفحہ کھول کر رکھ دیا کہ اس کی زیارت سے ہر اہل بصیرت مشرف ہو سکے ​
سب سے پہلی نظر جس اہل بصیرت کی اس رسالہ پر پڑی وہ والد صاحب قبلہ ہی تھے پہلے تو یونہی سرسری نظر سے اس رسالے کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئے مگر پھر ٹھٹکے واپس لوٹے ،رسالہ اٹھایا اور چشمہ لگا کر پوری توجہ سے اس کو دیکھتے رہے کہ اس کے بعد رسالہ کے باقی صفحات پر بھی جستہ جستہ نظر ڈالی اور آخر اس رسالے کو لے کر اپنے کمرے میں چلے گئے جہاں سے والدہ محترمہ کو آواز دی ' میں نے کہا ، کھاں ہیں آپ ،ذرا تشریف لائیے ' اس قسم کی آواز ان مواقع پر دیا کرتے تھے جب ان کو والدہ محترمہ سے کسی کی شکایت کرنا ہوتی تھی ورنہ عام حالات میں تشریف لانے کا ذکر نہ ہوتا تھا صرف اتنا ہی کافی ہوتا تھا کہ ' ارے بھئی ! میں نے کہا ، سنتی ہو ' لہٰذا ایک نوا شناس کی حیثیت سے والدہ محترمہ فوراً سمجھ گئیں کہ کسی نے کوئی گل کھلایا ہے اور اس کی جواب دہی ان کو کرنا پڑے گی وہ اس جواب دہ کے لیے تیار ہوتی ہوئی ان کے کمرے میں پہنچیں تو والد صاحب نے ان کو دیکھتے ہی کہا ۔؂،' ٓپ کے صاحبزادے بلند اقبال فرماتے ہیں کہ ​
ہمیشہ غیر کی عزت تری محفل میں ہوتی ہے ​
ترے کوچے میں ہم جا کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں ​
میں پوچھتا ہوں کہ یہ اس نامعقول کوچے میں جاتے ہی کیوں ہیں '۔ والدہ بیچاری نے نہایت معصومیت سے فرمایا ،'مجھے تو خبر نہیں کہاں جاتا ہے اور کیوں جاتا ہے '۔ والد صاحب نے فرمایا ،' اور سنیں فرماتے ہیں آپ کے فرزند ارجمند کہ ​
انہیں جانبر ہوتے ہوئے کبھی دیکھا نہیں شوکت​
جو عشق مرض مہلک کے کبھی بیمار ہوتے ہیں ​
مرض بھی ہوا تو وہ جس کی کمزوری وجہ سے مرض کی ' ر ' تک متحرک نہیں بلکہ ساکن ہے مرض کی ' ر ' کو ساکن سمجھنے والا اگر شاعر ہو سکتا ہے تو تف ہے اس کی شاعری پر اور جس رسالے نے اس خرافت کو شائع کیا ہے اس کو تو میں کیا کہوں ،ذرا اس رسالے کا اسم مبارک ملاحظہ ہو ' ترچھی نطر ' ، لاحول ولا قوۃ ۔ اب یہ ادبی رسالوں کے نام ہونے لگے ہیں ۔ترچھی نظر ، بانک ے نسوریا ، رنگیلے بالم ۔ کچھ پلے بھی پڑا کہ واقعہ کیا ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ بلند اقبال چشم بددور شاعر ہو گئے ہیں ۔شوکت تخلص فرماتے ہیں اور اس بکواس کو غزل کہتے ہیں ۔ پڑھے نہ لکھے ،نام محمد فاضل۔ نہ صاحبزادے کا املا درست ہے نہ انشا ہے اور چلے ہیں شاعری کرنے اب نہ لھنے کے رہیں گے نہ پڑھنے کے،صرف شاعری کریں گے اور ترچھی نظر میں اپنا کلام چھپواتے رہیں گے ان سے کہہ دیجئیے کہ آئندہ میں نہ سنوں کہ یہ شاعر ھیں اور آئندہ میں نہ دیکھوں ان کی غزل کسی ترچھی نظر یا پتلی کمر میں" ​

Arosa Hya
09-08-2014, 07:59 PM
ہم انسان سب کچھ بھلا دیتے ہیں ، رشتے ناتے ، دوستیاں ، دشمنیاں ، مذہب اور حتی کہ اپنے خدا کو بھی ، تو پھر صرف ایک محبّت کی یاد کو اپنے دل سے مٹا کیوں نہیں پاتے - کاش یہ مقدر انسان کو اور کوئی اختیار نہ دیتا ، صرف یادیں بھلانے کا مختار کر دیتا !


ہاشم ندیم کے ناول " پری زاد " سے اقتباس

illusionist
09-10-2014, 11:39 AM
http://www.friendskorner.com/forum/photopost/data/500/iktibas-Yadein.gif

intelligent086
09-15-2014, 10:58 PM
وعلیکم اسلام

بعض یادیں اپنے اندر احساس کا پراسرار اور متنوع جہان سمیٹے ہوئے ہوتی ہیں۔اذیت کا سبب ہونے کے باوجود اس میں ایک سرخوشی،جوش،اور کیف پوشیدہ ہوتا ہے اور انسان خود بھی اپنی کیفیات کا کوئی صحیح رخ متعین کرنے پر قادر نہیں رہتا۔ شجرِجاں کی ہری کونپلوں پر ٹھہرے،لرزتے ہوئے یادوں کے شبنمی قطرے بیک وقت دل کے سیپ کا گہر بھی ہوٹھہرتے ہیں اور آنکھوں کا آشوب بھی۔انسان خوش ہوتے ہوئے بھی غمگین ہوتا ہے اور دکھی ہونے کے باوجود سرشار ہوتا ہے۔یادیں صندل کی لکڑی جیسی ہوتی ہیں۔جلتی ہیں تو مہکنے لگتی ہیں یادوں کو کوئی کیا نام دے ،روگ یاسرمایہ حیات۔"

اماوس کا چاند
از
بشریٰ سعید

Admin
09-16-2014, 06:47 PM
"yaadie'n bhi kabhi humaray sath kitnay ajeeb jhel khelti hain, yeh humay woh sab soch ker hansnay per majboor ker deti hain jab hum kabhi kisi k sath mil ker roye thay....aur kabhi yeh soch ker ronay per majboor ker deti hain k hum kabhi kisi k sath mil ker hansay thay




Yeh baarishie'n bhi kitni ajeeb hoti hain, kabhi to sari umer bher mosla dhar barsti rahy, tab bhi insaan ka ander nahi bgho paati, aur kabhi her pal humary mann ko jalthal kiye rkhti hain lakin bahir walo ko is ki khber nahi hoti...."

KhUsHi
09-19-2014, 03:15 PM
یہ بارش کا موسم آتا ہے تو اپنے ساتھ ڈھیروں یادیں لاتا ہے ۔ اپنوں کی یادیں ۔ ان لوگوں کی یادیں جو نگاہوں سے دور ہوتے ہیں مگر دل سے قریب ہوتے ہیں ۔ جن کی دوری اداسی بن کر چہرے سے لپٹ جاتی اور ان کی جدائی آنسو بن کر آنکھوں سے بہنے لگتی ہے ۔

" اقرا صغیر احمد " کے ناول " تم میری زیست کا حاصل ہو " سے

~KAYRA~
09-19-2014, 06:03 PM
http://www.urdunovelsonline.com/wp-content/uploads/2014/01/11.jpg