PDA

View Full Version : porani tehzeeb



Dr Maqsood Hasni
08-07-2014, 09:54 PM
 
 
(5)
 
آرین کی برصغیر میں آمد کے حوالہ سے مختلف باتیں پڑھنے سننے کو ملتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق وہ ٣٢٠٠ سے ٣٥٠٠ سال پہلے برصغیر میں داخل ہوءے۔ وہ ایک ہی نشت میں یہاں نہیں آءے۔ وہ کئ نشتوں میں یہاں آءے۔ چارہ اور سبزیات ہمیشہ سے انسان کی ضرورت رہی ہے۔ اس علاقے سے بڑھ کر اس حوالہ سے کوئ ولایت نہیں رہی۔ ان کی آمد سے مقامی آبادیاں متاثر ہوتی رہی ہیں۔ ۔پہلے آرین یہاں سٹ ہو پاتے تو دوسرے چلے آتے اس طرح مقامی اور مہاجر مقامی بھی متاثر ہوتے۔ خون ریزی کا بازار گرم ہوتا۔ املاک تباہ وبرباد ہو جاتیں۔ رہاءیش گاہیں مسمار کر دی جاتیں۔ جو بچ جاتے مہاجرت اختیار کر جاتے۔ اس طرح کسی دوسرے علاقوں میں نئ آبادیاں وجود میں آ جاتیں۔
اب یہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے کہ آرینز نے پچیس ہزار سال پہلے آنا شروع کیا اور ایک لمبے عرصے تک برہما ورت یعنی پنجاب کو اپنا ٹھکانا بناءے رکھا۔ (١٠) ان کی آبادی کا گڑھ بیاس کنارہ رہا ہے۔ وہ جگہ کاٹتے نہیں تھے بلکہ جگہ صاف کرکے رہایش اختیار کر لیتے تھے۔ گویا وہ وقفے وقفے سے یہاں آتے رہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کا تعلق خشک علاقے سے رہا ہو گا۔ بارانی اور خشک علاقے میں آبادیوں کا بہت کم رجحان رہا ہے۔ یہاں پانی اور ہریالی کی آج کے سوا کبھی کمی نہیں رہی۔ ہم ہمیشہ اگلی کتاب لکھنے کے لیے پرانی کتابوں سے ناصرف استفادہ کرتے آءے ہیں بلکہ کٹ پیسٹ کی بیماری بھی ہمیں لاحق رہی ہے۔ حرام ہے جو کسی نے موقع پر جا کر دیکھا بھی ہو۔ اگر ہم موقع پر جا کر دیکھنے کی زحمت اٹھاءیں تو شاید نتاءج برعکس یا بہتر ہاتھ آ سکیں گے۔ دن بدن آثار ختم ہو رہے ہیں اس لیے اس معاملہ میں تساہل کسی بھی حوالہ سے درست نہیں۔
 
سندھ سات دریاؤں کی دھرتی سمجھا جاتا تھا اور اس حوالہ سے دنیا کی بہترین ولاءتوں میں سے ایک ولایت تھی۔ ان سات دریاؤں میں ایک بیاس بھی تھا۔ بیاس یا ویاس دراصل Vipasha کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ ویپسا ویپشا وریکا اسی دریا کے نام رہے ہیں۔ اس دریا کے حوالہ سے بےشمار کہانیاں تاریخ میں موجود ہیں۔ یہ دریا بربادیاں لاتا رہا ہے۔ بیسیوں بار اس نے اپنے مکینوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اس کے باوجود لوگوں نے اس سے بےوفائ نہیں کی۔ بار بار اس کے کناروں کو اپنا مسکن بنایا۔ اصل حقیقت یہ رہی ہے کہ اس کا پانی فصلوں کے حوالہ سے اپنا بدل نہیں رکھتا تھا دوسرا اس کا پانی کھارا نہیں میٹھا اور صحت مند تھا۔
 
اس حوالہ سے بیاسی خطے کی قدیم تہذیب کو سندھی تہذیب سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں ملنے والی قدیم تہذیب کے بہت سے آثار یہاں بھی باآسانی تلاشے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اس خطے کے اثرات وہاں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اس بیان کو صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تہذیب پچیس ہزار سال پرانی ہے۔ کھدائ میں ساڑھے تین سے چار فٹ بعد زمانہ ہی بدل جاتا ہے تاہم ان زمانوں میں کچھ مماثلتوں کا مل جانا حیرت کی بات نہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ پہلی آبادی کی باقیات رہی ہوں۔ پہلوں کے ساتھ نءے لوگوں کی اکثریت بھی موجود رہی ہے۔
 
بیاس کی 470 کلو میٹر یعنی 290 میل لمبائ تھی ۔ اس کے قرب وجوار میں سیکڑوں چھوٹی بڑی بستیاں آباد تھیں۔ ہر آبادی کا اپنا مکھیا ہوا کرتا تھا جسے راجہ مہاراج بادشاہ وغیرہ کا درجہ حاصل ہوتا تھا۔ تکڑا بادشاہ دوسری بستیوں پر قبضہ جما کر اپنی سلطنت میں اضافہ کر لیتا تھا۔ ہر ریاست یعنی بستی کے اپنے اصول طور انداز اور نام ہوتے تھے لہذا اس عہد کے حساب سے ساری ولاءتوں کو قصور کا نام نہیں دیا جا سکتا گو کہ وہ آج قصور کا حصہ ہیں۔ آج کی زبان میں اور آسانی کے لیے اسے قصور کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس بات کا تعلق ہزاروں سال سے نہیں بلکہ سیکڑوں سال سے جڑی ہوئ تاریخ سے بھی ہے۔ ابچیترا ناتک از گرو گوبند سنگھ کے مطابق قصور کشا بن شری رام نے بنایا جبکہ لاہور لاوا (لوہ) بن شری رام نے بنایا۔ یہ اس ایریا کی الگ الگ دو ولاءتیں تھیں ناکہ پورا ایریا۔ یہ دونوں بڑے زبردست یودھا تھے۔ انھوں نے اور بعد میں ان کی اولادوں نے دور نزدیک کے ممالک پر تسلط حاصل کر لیا۔ اس حوالہ سے انھیں بھی قصور یا لاہور کہا جانے لگا۔ بعد ازاں قصور کے راجے نے لاہور پر قبضہ جما لیا اور لاہور قصور کا حصہ قرار پایا۔ ہیون سانگ (٦٤٦) بیاس تک آیا اور اس کے ہاں ملک قصور کا ذکر آتا ہے لاہور کا ذکر نہیں ملتا کیونکہ لاہور اس کا محض ایک علاقہ تھا۔ ہیون سانگ سیاح نہیں بدھ مت کا پرچارک تھا۔ میری اس بات کا ثبوت اس کی یادداشت جسے سفرنامہ قرار دیا جاتا ہے‘ میں مل جاءے گا۔
 
نمرود کے گودام میں ذرخیز ترین علاقہ ہونے کے سبب بیاسی علاقے (قصور) کا غلہ سب سے زیادہ جاتا تھا۔ 1798 ق م میں حضرت سلیمان (ع) کشمیر تشریف لاءے۔ تین شہزادے ہشک‘ کنشک اور زشک بھی تھے۔ ان کا تعلق ترکستان سے تھا۔ ان میں سے ایک کے حصہ میں بیاسی علاقہ آیا۔ اس میں موجودہ قصور بھی شامل تھا۔ حضرت زرتشت اور حضرت مہا آتما بدھ کے پرچارک اس علاقہ میں آءے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ یہاں کی معقول ترین اقلیت تھے۔ یہ صورت محمد بن قاسم کے حملے تک رہی۔ محمد بن قاسم کے حملے تک سندھ تہذیب اور اس کا ایریا موجودہ جہلم سے آگے تک تھا اور اس ایریا کا حاکم راجہ داہر تھا۔
ایران کے بادشاہ کرش کی حکومت بیاس تک رہی۔ اس میں موجودہ قصور بھی شامل تھا۔ حضرت بدھ کی پیدایش سے پہلے علاقہ بیاس میں
university Takshashila
موجود تھی۔ یہاں مذہبی تعلیم کا انتظام واہتمام بھی موجود تھا۔ حضرت بدھ کی تعلیم کا مرکز بھی یہاں رہا۔ لفظ سہجرہ جو اب قصور کے باڈر کا شہر نما قصبہ ہے۔ کسی زمانے میں یہ بیاس کی بہت بڑی ولایت تھی اور تعلیم کا اہتمام تھا۔ یہاں بلند آواز میں تعلیم دینے کے تین مرکز رہے ہوں گے۔
ق م 326
میں سکندر اعظم کو دریاءے بیاس پر بڑی مشکل پیش آئ۔ وہ تین دن اپنے خیمے میں بند رہا اس کے باوجود اس کی فوج نے اپنا ارادہ نہ بدلا۔ اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے صاف انکار کر دیا اسے واپس جانا پڑا۔ اس علاقے کے لوگ بڑے شہ زور بڑے ہنر مند یودھا اور مشکل سے مشکل حالات سے گزرنے کے عادی تھے اور آج بھی ہیں‘ عین ممکن ہے اس نے یہاں زخم کھایا ہو اور یہی زخم اس کی موت کا سبب بن گیا ہو۔
 
آقا کریم کے صحابی دنیا کےچپے چپے پر گءے۔ کاشغر اور گلبرگہ میں ان کی یاد گاریں موجود ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی گنجان آباد آبادی ان کی نظر عطا سے محروم رہی ہو۔ یہاں اس ضمن میں صرف اور صرف حضرت عطا محمد المعروف بہ پیر بولنا 480 ہجری تا 550 ہجری کے نشان ملتے ہیں۔ پاک پتن قصور کی قریبی ولایت تھی وہاں حضرت عزیز مکی تشریف لاءے۔ کہا جاتا ہے ان کی عمر چھ سو سال تھی۔ ان کی قبر چھبیس فٹ لمبی ہے جو ان کے مقام و مرتبہ کو واضح کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح لاہور میں پیر مکی کی قبر ہے۔

Ria
08-10-2014, 05:35 PM
Thanks for sharing Baba jani..

Dr Maqsood Hasni
08-11-2014, 07:56 PM
tovajo ke liay mamnoon hoon Allah aap ko shad o shadab rakhe