PDA

View Full Version : Shakeeb Jalali's Collection



intelligent086
08-04-2014, 10:22 PM
Page Reserved 4 introduction of Poet

intelligent086
08-04-2014, 10:23 PM
----------------------------------------------

intelligent086
08-04-2014, 10:24 PM
سمجھ سکو تو یہ تشنہ لبی سمندر ہے
بقدرِ ظرف ہر اک آدمی سمندر ہے

ابھر کے ڈوب گئی کشتیِ خانل کہںہ
یہ چاند ایک بھنور، چاندنی سمندر ہے

جو داستاں نہ بنے دردِ بکرداں ہے وہی
جو آنکھ ہی میں رہے وہ نمی سمندر ہے

نہ سوچیے تو بہت مختصر ہے سلِہ حاہت
جو سوچئے تو ییخ زندگی سمندر ہے

تو اس مں ڈوب کے شاید ابھر سکے نہ کبھی
مرے حببں مری خامشی سمندر ہے

intelligent086
08-04-2014, 10:24 PM
حسنِ فردا غمِ امروز سے ضَو پائے گا
چاند ڈوبا ہے تو سورج بھی اُبھر آئے گا

آندھیوں میں بھی فروزاں ہے چراغِ امّید
خاک ڈالے سے یہ شعلہ کہیں بجھ جائے گا

کو بہ کو دام بچھے ہوں کہ کڑکتی ہو کماں
طائرِ دل پرِ پرواز تو پھیلائے گا

توڑ کے حلقۂ شب، ڈال کے تاروں پہ کمند
آدمی عرصۂ آفاق پہ چھا جائے گا

ہم بھی دو چار قدم چل کے اگر بیٹھ گئے
کون پھر وقت کی رفتار کو ٹھہرائے گا

راہ میں جس کی دیا خونِ دل و جاں ہم نے
وہ حسیں دور بھی آئے گا، ضرور آئے گا

intelligent086
08-04-2014, 10:25 PM
اب یہ ویران دن کیسے ہوگا بسر
رات تو کٹ گئی درد کی سیج پر

بس یہیں ختم ہے پیار کی رہگزر
دوست اگلا قدم کچھ سمجھ سوچ کر

اس کی آوازِ پا تو بڑی بات ہے
ایک پتّہ بھی کھڑکا نہیں رات بھر

گھر میں طوفان آئے زمانہ ہوا
اب بھی کانوں میں بجتی ہے زنجیرِ در

اپنا دامن بھی اب تو میسّر نہیں
کتنے ارزاں ہوئے آنسوؤں کے گہر

یہ شکستہ قدم بھی ترے ساتھ تھے
اے زمانے ٹھہر، اے زمانے ٹھہر

اپنے غم پر تبسّم کا پردہ نہ ڈال
دوست، ہم ہیں سوار ایک ہی ناؤ پر

intelligent086
08-04-2014, 10:25 PM
روشن ہں دل کے داغ نہ آنکھوں کے شب چراغ
کوشں شام ہی سے بجھ گئے محفل کے سب چراغ

وہ دن نہںں کرن سے کرن مںآ لگے جو آگ
وہ شب کہاں چراغ سے جلتے تھے جب چراغ

تر ہ ہے خاکداں، تو فلک بے نجوم ہے
لائے کہاں سے مانگ کے دست طلب چراغ

روشن ضمرں آج بھی ظلمت نصبے ہں
تم نے دیے ہں پوچھ کے نام و نسب چراغ

وہ تر گی ہے دشتِ وفا مں کہ الاماں
چمکے جو موجِ ریگ تو پائے لقب چراغ

دن ہو اگر تو رات سےتعبری کوےں کریں
سورج کو اہلِ ہوش دکھاتے ہں کب چراغ

اے بادِ تند وضع کے پابند ہم بھی ہںہ
پتھر کی اوٹ لے کے جلائں گے اب چراغ

intelligent086
08-04-2014, 10:26 PM
ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا
لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں
پہونچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا
یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگِ گل سے کٹ گیا
بانہوں میں آ سکا نہ حویلی کا اک ستون
پُتلی میں میری آنکھ کی صحرا سمٹ گیا
اب کون جائے کوئے ملامت کو چھوڑ کر
قدموں سے آ کے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا
گنبد کا کیا قصور اسے کیوں کہوں بُرا
آیا جدھر سے تیر، اُدھر ہی پلٹ گیا
رکھتا ہے خود سے کون حریفانہ کشمکش
مںھ تھا کہ رات اپنے مقابل ہی ڈٹ گا
جس کی اماں مںن ہوں وہ ہی اکتا گار نہ ہو
بوندیں یہ کویں برستی ہںت، بادل تو چھٹ گا
وہ لمحۂ شعور جسے جانکنی کہںو
چہرے سے زندگی کے نقابںس الٹ گای
ٹھوکر سے مرعا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور
رستے مں جو کھڑا تھا وہ کہسار ہٹ گا
اک حشر سا بپا تھا مرے دل مںر اے شکبؔ
کھولںر جو کھڑکاھں تو ذرا شور گھٹ گا

intelligent086
08-04-2014, 10:26 PM
آتا ہے ہر چڑھائی کے بعد اک اُتار بھی؟
پستی سے ہم کنار ملے کوہسار بھی؟

دل کیوں دھڑکنے لگتا ہے اُبھرے جو کوئی چاپ
اب تو نہیں کسی کا مجھے انتظار بھی!

جب بھی سکوتِ شام میں آیا ترا خیال
کچھ دیر کو ٹھہر سا گیا آبشار بھی

کچھ ہو گیا ہے دھوپ سے خاکستری بدن
کچھ جم گیا ہے راہ کا مجھ پر غبار بھی

اس فاصلوں کے دشت میں رہبر وہی بنے
جس کی نگاہ دیکھ لے صدیوں کے پار بھی

اے دوست، پہلے قرب کا نشّہ عجیب تھا
میں سُن سکا نہ اپنے بدن کی پُکار بھی

رستہ بھی واپسی کا کہیں بن میں کھو گیا
اوجھل ہوئی نگاہ سے ہرنوں کی ڈار بھی

کچھ عقل بھی ہے باعثِ توقیر اے شکیبؔ
کچھ آ گئے ہیں بالوں میں چاندی کے تار بھی

intelligent086
08-04-2014, 10:26 PM
پردۂ شب کی اوٹ مںت زہرہ جمال کھو گئے
دل کا کنول بجھا تو شہر ترٹہ و تار ہو گئے

ایک ہمںھ ہی اے سحر نندا نہ آئی رات بھر
زانوئے شب پہ رکھ کر سر، سارے چراغ سو گئے

راہ مں تھے ببول بھی رودِ شرر بھی دھول بھی
جانا ہمںی ضرور تھا گل کے طواف کو گئے

دیدہ ورو بتائںھ کاا تم کو یںم نہ آئے گا
چہرے تھے جن کے چاند سے سنےا مں داغ بو گئے

داغِ شکست دوستو دیکھو کسے نصبک ہو
بٹھے ہوئے ہںس تزک رو سست خرام تو گئے

اہلِ جنوں کے دل شکبؔے نرم تھے موم کی طرح
تۂلِ یاس جب چلا تودۂ سنگ ہو گئے

intelligent086
08-04-2014, 10:27 PM
مرجھا کے کالی جھل مںک گرتے ہوئے بھی دیکھ
سورج ہوں، مرؔا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ

ہر چند راکھ ہو کے بکھرنا ہے راہ مںھ
جلتے ہوئے پروں سے اڑا ہوں مجھے بھی دیکھ

عالم مںئ جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ

تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

بچھتی تھںھ جس کی راہ مں پھولوں کی چادریں
اب اس کی خاک گھاس کے پریوں تلے بھی دیکھ

کا شاخ با ثمر ہے جو تکتا ہے فرش کو
نظریں اٹھا شکبؔ کبھی سامنے بھی دیکھ

intelligent086
08-04-2014, 10:27 PM
مٹھے چشموں سے خکب چھاؤں سے دور
زخم کھلتے ہںچ ترے گاؤں سے دور

سنگ منزل نے لہو اگلا ہے
دور ہم بادیہ پماٹؤں سے دور

کتنی شمںاہ ہںگ اسرد فانوس
کتنے یوسف ہںں زلخا ؤں سے دور

کشتِ امد سلگتی ہی رہی
ابر برسا بھی تو صحراؤں سے دور

جور حالات بھلا ہو تر ا
چنر ملتا ہے شناساؤں سے دور

جنت فکر بلاتی ہے چلو
دیر و کعبہ سے کلسا ؤں سے دور

رقصِ آشفتہ سراں دیںھچ گے
دور ان انجمن آراؤں سے دور

جستجو ہے در یکتا کی شکبر
ساتج ں چنتے ہں دریاؤں سے دور

intelligent086
08-04-2014, 10:28 PM
اس خاکداں میں اب تک باقی ہیں کچھ شرر سے

دامن بچا کے گزرو یادوں کی رہگزر سے



ہر ہر قدم پہ آنکھیں تھیں فرشِ راہ لیکن

وہ روشنی کا ہالا اُترا نہ بام پر سے



کیوں جادۂ وفا پر مشعل بکف کھڑے ہو

اِس سیلِ تیرگی میں نکلے گا کون گھر سے



کس دشت کی صدا ہو، اتنا مجھے بتا دو

ہر سو بچھے ہیں رستے، آؤں تو میں کدھر سے



اجڑا ہوا مکاں ہے یہ دل، جہاں پہ ہر شب

پرچھائیاں لپٹ کر روتی ہیں بام و در سے

intelligent086
08-04-2014, 10:29 PM
اب میسّر نہیں فرصت کے وہ دن رات ہمیں

لے اُڑی جانے کہاں صرصرِ حالات ہمیں



آج وہ یوں نگہِ شوق سے بچ کر گزرے

جیسے یاد آئے کوئی بھولی ہوئی بات ہمیں



کیسے اڑتے ہوئے لمحوں کا تعاقب کیجے

دوستو اب تو یہی فکر ہے دن رات ہمیں



نہ سہی کوئی، ہجومِ گل و لالہ نہ سہی

دشت سے کم بھی نہیں کنجِ خیالات ہمیں



وہ اگر غیر نہ سمجھے تو کوئی بات کریں

دلِ ناداں سے بہت سی ہیں شکایات ہمیں



دھوپ کی لہر ہے تُو، سایۂ دیوار ہیں ہم

آج بھی ایک تعلّق ہے ترے سات ہمیں



رنگ و مستی کے جزیروں میں لیے پھرتے ہیں

اس کی پائل سے چُرائے ہوئے نغمات ہمیں

intelligent086
08-04-2014, 10:29 PM
ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر

بہتر ہے خال ڈالیے ایسی اُڑان پر

آ کر گرا تھا ایک پرندہ لہو میں تر

تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

پوچھو سمندروں سے کبھی خاک کا پتہ

دیکھو ہوا کا نقش کبھی بادبان پر

یارو میں اس نظر کی بلندی کو کیا کروں

سایہ بھی اپنا دیکھتا ہوں آسمان پر

کتنے ہی زخم ہی مرے اک زخم میں چھپے

کتنے ہی تیر آنے لگے اِک نشان پر

جل تھل ہوئی تمام زمیں آس پاس کی

پانی کی بوند بھی نہ گری سائبان پر

ملبوس خوشنما ہیں مگر جسم کھوکھلے

چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر

سایہ نہیں تھا نیند کا آنکھوں میں دور تک

بکھرے تھے روشنی کے نگیں آسمان پر

حق بات آ کے رک سی گئی تھی کبھی شکیبؔ

چھالے پڑے ہوئے ہیں ابھی تک زبان پر

intelligent086
08-04-2014, 10:30 PM
جس قدر خود کو وہ چھپاتے ہیں

لوگ گرویدہ ہوتے جاتے ہیں



جو بھی ہمدرد بن کے آتے ہیں

غم کا احساس ہی جگاتے ہیں



عہدِ ماضی کے زر فِشاں لمحے

شِدّتِ غم میں مسکراتے ہیں



خود کو بدنام کر رہا ہوں میں

ان پہ الزام آئے جاتے ہیں



اجنبی بن کے جی رہا ہوں میں

لوگ مانوس ہوتے جاتے ہیں

intelligent086
08-04-2014, 10:30 PM
آئینۂ جذباتِ نہاں ہیں تری آنکھیں

اک کار گہِ شیشہ گراں ہیں تری آنکھیں



سر چشمۂ افکار جواں ہیں تری آنکھیں

تابندہ خیالات کی جاں ہیں تری آنکھیں



اندازِ خموشی میں ہے گفتار کا پہلو

گویا نہ سہی، چپ بھی کہاں ہیں تری آنکھیں



جاؤں گا کہاں توڑ کے زنجیرِ وفا کو

ہر سو مری جانب نگراں ہیں تری آنکھیں



کہنا ہے وہی جس کی توقع ہے تجھے بھی

مت پوچھ مرے دل کی زباں ہیں تری آنکھیں



پلکوں کے جھروکوں سے سبو جھانک رہے ہیں

امید گہِ تشنہ لباں ہیں تری آنکھیں



یوں ہی تو نہیں امڈی چلی آتی ہیں غزلیں

پہلو میں مرے، زمزمہ خواں ہیں تری آنکھیں

intelligent086
08-04-2014, 10:30 PM
موجِ صبا رواں ہوئی، رقصِ جنوں بھی چاہئے

خیمۂ گُل کے پاس ہی دجلۂ خوں بھی چاہئے



کشمکشِ حیات ہے، سادہ دلوں کی بات ہے

خواہشِ مرگ بھی نہیں، زہرِ سکوں بھی چاہئے



ضربِ خیال سے کہاں ٹوٹ سکیں گی بیڑیاں

فکرِ چمن کے ہم رکاب جوشِ جنوں بھی چاہئے



نغمۂ شوق خوب تھا، ایک کمی ہے مطربہ

شعلۂ لب کی خیر ہو، سوزِ دروں بھی چاہئے



اتنا کم تو کیجیے، بجھتا کنول نہ دیجیے

زخمِ جگر کے ساتھ ہی دردِ فزوں بھی چاہئے



دیکھیے ہم کو غور سے، پوچھیے اہلِ جور سے

روحِ جمیل کے لیے حالِ زبوں بھی چاہئے

intelligent086
08-04-2014, 10:31 PM
خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں

کبھی چراغ بھی چلتا ہے اس حویلی میں

یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے

گزر ہوا ہے مرا کس اجاڑ بستی میں

جھکی چٹان پھسلتی گرفت جھولتا جسم

میں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میں

زمانے بھر سے نرالی ہے آپ کی منطق

ندی کو پار کیا کس نے الٹی کشتی میں

جلائے کیوں اگر اتنے ہی قیمتی تھے خطوط

کریدتے ہو عبث راکھ اب انگیٹھی میں

عجب نہیں جو اگیں یاں درخت پانی کے

کہ اشک بوئے ہیں شب بھر کسی نہ دھرتی میں

مری گرفت میں آ کر نکل گئی تتلی

پروں کے رنگ مگر رہ گئے ہیں مٹھی میں

چلو گے ساتھ مرے آگہی کی سرحد تک؟

یہ رہ گزر اترتی ہے گہرے پانی میں

میں اپنی بے خبری سے شکیب واقف ہوں

بتاؤ پیچ ہیں کتنے تمہاری پگڑی میں

intelligent086
08-04-2014, 10:31 PM
وہ سامنے تھا پھر بھی کہاں سامنا ہوا

رہتا ہے اپنے نور میں سورج چھپا ہوا



اے روشنی کی لہر کبھی تو پلٹ کے آ

تجھ کو بلا رہا ہے دریچہ کھلا ہوا



سیراب کس طرح ہو زمیں دور دور کی

ساحل نے ہے ندی کو مقیّد کیا ہوا



اے دوست چشمِ شوق نے دیکھا ہے بارہا

بجلی سے تیرا نام گھٹا پر لکھا ہوا



پہچانتے نہیں اسے محفل میں دوست بھی

چہرہ ہو جس کا گردِ الم سے اٹا ہوا



اس دور میں خلوص کا کیا کام اے شکیبؔ

کیوں کر چلے بساط پر مہرا پِٹا ہوا

intelligent086
08-04-2014, 10:32 PM
کنار آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی

گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی

ہوا نے توڑ کے پتہ زمیں پہ پھینکا ہے

کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی

بٹا سکے ہیں پڑوسی کسی کا درد کبھی

یہی بہت ہے کہ چہرے سے آشنا ہے کوئی

درخت راہ بتائیں ہلا ہلا کر ہاتھ

کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ہے کوئی

چھڑا کے ہاتھ بہت دور بہہ گیا چاند

کسی کے ساتھ سمندر میں ڈوبتا ہے کوئی

یہ آسمان سے ٹوٹا ہوا ستارہ ہے

کہ دشتِ شب میں بھٹکتی ہوئی صدا ہے کوئی

مکان اور نہیں ہے بدل گیا ہے مکیں

افق وہ ہی ہے مگر چاند دوسرا ہے کوئی

فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

شکیبؔ دیپ سے لہرا رہے ہیں پلکوں پر

دیارِ چشم میں کیا آج رت جگا ہے کوئی

intelligent086
08-04-2014, 10:32 PM
کون جانے کہاں ہے شہرِ سکوں

قریہ قریہ بھٹک رہا ہے جنوں



نورِ منزل مجھے نصیب کہاں

میں ابھی حلقۂ غبار میں ہوں



یہ ہے تاکید سننے والوں کی

واقعہ خوشگوار ہو تو کہوں



کن اندھیروں میں کھو گئی ہے سحر

چاند تاروں پہ مار کر شب خوں



تم جسے نورِ صبح کہتے ہو

میں اسےگردِ شام بھی نہ کہوں



اب تو خونِ جگر بھی ختم ہوا

میں کہاں تک خلا میں رنگ بھروں



جی میں آتا ہے اے رہِ ظلمت

کہکشاں کو مروڑ کر رکھ دوں

intelligent086
08-04-2014, 10:35 PM
کہاں رکیں گے مسافر نئے زمانوں کے

بدل رہا ہے جنوں زاوئے اُڑانوں کے



یہ دل کا زخم ہے اک روز بھر ہی جائے گا

شگاف پُر نہیں ہوتے فقط چٹانوں کے



چھلک چھلک کے بڑھا میری سمت نیند کا جام

پگھل پگھل کے گرے قفل قید خانوں کے



ہوا کے دشت میں تنہائی کا گزر ہی نہیں

مرے رفیق ہیں مُطرِب گئے زمانوں کے



کبھی ہمارے نقوشِ قدم کو ترسیں گے

وہی جو آج ستارے ہیں آسمانوں کے

intelligent086
08-04-2014, 10:35 PM
میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں

مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں

سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح

دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

صحرا کی بود باش ہے اچھی نہ کیوں لگے

سوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں

چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے

مصروف ہوں ابھی عملِ انعکاس میں

دھوکے سے اس حسیں کو اگر چوم بھی لیا

پاؤ گے دل کا زہر لبوں کی مٹھاس میں

تارہ کوئی ردائے شبِ ابر میں نہ تھا

بیٹھا تھا میں اداس بیابان یاس میں

جوئے روانِ دشت! ابھی سوکھنا نہیں

ساون ہے دور، اور وہی شدّت کی پیاس ہے

رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا

پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں

کانٹوں کی باڑھ پھاند گیا تھا مگر شکیبؔ

رستہ نہ مل سکا مجھے پھولوں کی باس میں

intelligent086
08-04-2014, 10:36 PM
تارے ہیں نہ ماہتاب یارو

کچھ اس کا بھی سدِّ باب یارو



آنکھوں میں چتائیں جل رہی ہیں

ہونٹوں پہ ہے آب آب یارو



تا حدِّ خیال ریگ صحرا

تا حدِّ نظر سراب یارو



رہبر ہی نہیں ہے ساتھ اپنے

رہزن بھی ہے ہم رکاب یارو



شعلے سے جہاں لپک رہے ہیں

برسے گا وہیں سحاب یارو

intelligent086
08-04-2014, 10:36 PM
وہی جھکی ہوئی بیلیں، وہی دریچا تھا

مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا

میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے

وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا

قریب تیر رہا تھا بطوں کا ایک جوڑا

میں آب جو کے کنارے اداس بیٹھا تھا

شب سفر تھی قبا تیرگی کی پہنے ہوئے

کہیں کہیں پہ کوئی روشنی کا دھبا تھا

بنی نہیں جو کہیں پر، کلی کی تربت تھی

سنا نہیں جو کسی نے، ہوا کا نوحہ تھا

یہ آڑھی ترچھی لکیریں بنا گیا ہے کون

میں کیا کہوں مرے دل کا ورق تو سادا تھا

میں خاکداں سے نکل کر بھی کیا ہوا آزاد

ہر اک طرف سے مجھے آسماں نے گھیرا تھا

اُتر گیا ترے دل میں تو شعر کہلایا

میں اپنی گونج تھا اور گنبدوں میں رہتا تھا

اِدھر سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی

کہ زیرِ سنگ خُنُک پانیوں کا چشما تھا

وہ اس کا عکس بدن تھا کہ چاندنی کا کنول

وہ نیلی جھیل تھی یا آسماں کا ٹکڑا تھا

میں ساحلوں میں اترا کر شکیبؔ کیا لیتا

ازل سے نام مرا پانیوں پہ لکھا تھا

intelligent086
08-04-2014, 10:36 PM
اتریں عجیب روشنیاں رات خواب میں

کیا کیا نہ عکس تیر رہے تھے سراب میں

کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئی

وہ پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکھا کتاب میں

پانی نہیں کہ اپنے ہی چہرے کو دیکھ لوں

منظر زمیں کے ڈھونڈتا ہوں ماہتاب میں

پھر تیرگی کے خواب سے چونکا ہے راستہ

پھر روشنی سی دوڑ گئی ہے سحاب میں

کب تک رہے گا روح پہ پیراہنِ بدن

کب تک ہوا اسیر رہے گی حباب میں

یوں آئنہ بدست ملی پربتوں کی برف

شرما کے دھوپ لوٹ آ گئی آفتاب میں

جینے کے ساتھ موت کا ہے ڈر لگا ہوا

خشکی دکھائی دی ہے سمندر کو خواب میں

گزری ہے بار بار مرے سر سے موجِ خشک

اُبھرا ہوا ہوں ڈوب کے تصویرِ آب میں

اک یاد ہے کہ چھین رہی ہے لبوں سے جام

اک عکس ہے کہ کانپ رہا ہے شراب میں

چوما ہے میرا نام لبِ سُرخ سے شکیبؔ

یا پھول رکھ دیا ہے کسی نے کتاب میں

intelligent086
08-04-2014, 10:37 PM
تمہیں بھی علم ہو اہل وفا پہ کیا گزری

تم اپنے خون جگر سے کبھی وضو تو کرو



نہیں ہے ریشم و کمخواب کی قبا نہ سہی

ہمارے دامن صد چاک کو رفو تو کرو



نگار صبح گریزاں کی تابشوں کو کبھی

ہمارے خانہ ظلمت کے رو برو تو کرو



طلوع مہر درخشاں ابھی کہاں یارو

سیاہیوں کے افق کو لہو لہو تو کرو

intelligent086
08-04-2014, 10:37 PM
شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی

یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اگلنے لگی

اسی لئے تو ہوا رو پڑی درختوں میں

ابھی میں کھل نہ سکا تھا کہ رت بدلنے لگی

اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا

زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی

کسی کا جسم اگر چھو لیا خیال میں بھی

تو پور پور مری مثل شمع جلنے لگی

مری نگاہ میں خواہش کا شائبہ بھی نہ تھا

یہ برف سی ترے چہرے پہ کیوں پگھلنے لگی

ہوا چلی سرِ صحرا تو یوں لگا جیسے

ردائے شام مرے دوش سے پھسلنے لگی

کہیں پڑا نہ ہو پرتَو بہارِ رفتہ کا

یہ سبز بوند سی پلکوں پہ کیا مچلنے لگی

نہ جانے کیا کہا اس نے بہت ہی آہستہ

فضا کی ٹھہری ہوئی سانس پھر سے چلنے لگی

جو دل کا زہر تھا، کاغذ پہ سب بکھیر دیا

پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی

جہاں شجر پہ لگا تھا تبر کا زخم شکیبؔ

وہیں پہ دیکھ لے، کونپل نئی نکلنے لگی

intelligent086
08-04-2014, 10:37 PM
ساحل سے دور جب بھی کوئی خواب دیکھتے

جلتے ہوئے چراغ تہِ آب دیکھتے



ہم نے فضول چھیڑ دی زخمِ نہاں کی بات

چپ چاپ رنگِ خندۂ احباب دیکھتے



غم کی بس ایک موج نے جن کو ڈبو دیا

اے کاش وہ بھی حلقۂ گرداب دیکھتے



بیتے دنوں کے زخم کریدے ہیں رات بھر

آئی نہ جن کو نیند وہ کیا خواب دیکھتے



کشکولِ شعرِ تر لیے پھرتے نہ ہم شکیبؔ

اس ریشمیں بدن پہ جو کمخواب دیکھتے

intelligent086
08-04-2014, 10:38 PM
رعنائیِ نگاہ کو قالب میں ڈھالیے

پتھر کے پیرہن سے سراپا نکالیے

گزرا ہے دل سے جو رمِ آہو سا اک خیال

لازم ہے اس کے پاؤں میں زنجیر ڈالئیے

دل میں پرائے درد کی اک ٹیس بھی نہیں

تخلیق کی لگن ہے تو زخموں کو پالیے

یہ کہر کا ہجوم درِ دل پہ تابہ کے

بامِ یقیں سے ایک نظر اس پہ ڈالیے

احساس میں رچائیے قوسِ قزح کے رنگ

ادراک کی کمند ستاروں پہ ڈالیے

ہاں کوزہ ہائے گل پہ ہے تنقید کیا ضرور

گرہو سکے تو خاک سے خورشید ڈھالیے

امید کی کرن ہو کہیں حسرتوں کے داغ

ہر دم نگار خانۂ دل کو اجالیے

شاید کہ ان کی سمت بڑھے کوئی دستِ شوق

روندے ہوئے گلاب فضا میں اچھالیے

ہاں کوہِ شب کو کاٹ کے لانا ہے جوئے نور

ہاں بڑھ کے آفتاب کا تیشہ سنبھالیے

وجدان کی ترنگ کا مصرف بھی ہو شکیبؔ

شاعر کی عظمتوں کو ہنسی میں نہ ٹالیے

intelligent086
08-04-2014, 10:38 PM
پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو

بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو



رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں

اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو



اشکوں کی ایک نہر تھی جو خشک ہو گئی

کیوں کر مٹاؤں دل سےترے غم کی چھاپ کو



کتنا ہی بے کنار سمندر ہو پھر بھی دوست

رہتا ہے بے قرار ندی کے ملاپ کو



پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں

پھر آئنے میں چوم لیا اپنے آپ کو



تعریف کیا ہو قامت دلدار کی شکیبؔ

تجسیم کر دیا ہے کسی نے الاپ کو

intelligent086
08-04-2014, 10:39 PM
گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا

ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا



ستارے سسکیاں بھرتے تھے اوس روتی تھی

فسانۂ جگرِ لخت لخت ایسا تھا



ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے

چٹخ کے ٹوٹ گیا، دل کا سخت ایسا تھا



یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک

کوئی نہ سہہ سکے، لہجہ کرخت ایسا تھا



کہاں کی سیس نہ کی توسنِ تخیّل پر

ہمیں تو یہ بھی سلیماں کے تخت ایسا تھا



ادھر سے گزرا تھا ملکِ سخن کا شہزادہ

کوئی نہ جان سکا ساز و رخت ایسا تھا

intelligent086
08-04-2014, 10:39 PM
مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا

میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا



ٹھہرو ٹھہرو مرے اصنامِ خیالی ٹھہرو

میرا دل گوشۂ تنہائی میں گھبرائے گا



لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دلاسے مجھ کو

زخم گہرا ہی سہی، زخم ہے، بھر جائے گا



عزم پختہ ہی سہی ترکِ وفا کا لیکن

منتظر ہوں کوئی آ کر مجھے سمجھائے گا



آنکھ جھپکے نہ کہیں، راہ اندھیری ہی سہی

آگے چل کر وہ کسی موڑ پہ مل جائے گا



دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ

جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا

intelligent086
08-04-2014, 10:39 PM
ملا نہیں اذان رقص جن کو ،کبھی تو وہ بھی شرار دیکھو

اگر ہو اہلِ نگاہ یارو، چٹان کے آر پار دیکھو



یہ جان لینا وہاں بھی کوئی کسی کی آمد کا منتظر تھا

کسی مکاں کے جو بام و در پر بجھے دیوں کی قطار دیکھو



اگر چہ بے خانماں ہیں لیکن ہمارا ملنا نہیں ہے مشکل

اُدھر ہی صحرا میں دوڑ پڑنا، جدھر سے اٹھتا غبار دیکھو



عجب نہیں ہے پہاڑیوں پر شفق کا سونا پگھل رہا ہو

مکانِ تیرہ کے روزنوں میں یہ نور کے آبشار دیکھو



جو ابر ِ رحمت سے ہو نہ پایا کیا ہے وہ کام آندھیوں نے

نہیں ہے خار و گیاہ باقی، چمک اٹھا رہگزر دیکھو



وہ راگ خاموش ہو چکا ہے سنانے والا بھی سو چکا ہے

لرز رہے ہیں مگر ابھی تک شکستہ بربط کے تار دیکھو



اک آہ بھرنا شکیبؔ ہم سے خزاں نصیبوں کو یاد کر کے

کلائیوں میں جو ٹہنیوں کی مہکتی کلیوں کے ہار دیکھو

intelligent086
08-04-2014, 10:40 PM
منظر تھا اک اجاڑ نگاہوں کے سامنے

کیا کیا نہ رنگ بھر دئیے افسوس شام نے



اس حادثے کی نخوتِ ساقی کو کیا خبر

بادہ پیا کہ زہر پیا تشنہ کام نے



چہرے سے اجنبی تھا وہ میرے لئے مگر

سب راز اس کے کہہ دئے طرز خرام نے



نکلا نہیں ہوں آج بھی اپنے حصار سے

حدِّ نگاہ آج بھی ہے میرے سامنے



تھے حادثوں کے وار تو کاری مگر مجھے

مرنے نہیں دیا خلشِ انتقام نے



اک سانس کی طناب جو ٹوٹی تو اے شکیبؔ

دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامنے

intelligent086
08-04-2014, 10:40 PM
اب آپ رہِ دل جو کشادہ نہیں رکھتے

ہم بھی سفرِ جاں کا ارادہ نہیں رکھتے



پینا ہو تو اک جرعۂ زہراب بہت ہے

ہم تشنہ دہن تہمتِ بادہ نہیں رکھتے



اشکوں سے چراغإں ہے شبِ زیست، سو وہ بھی

کوتاہیِ مژگاں سے زیادہ نہیں رکھتے



یہ گردِ رہِ شوق ہی جم جائے بدن پر

رسوا ہیں کہ ہم کوئی لبادہ نہیں رکھتے



ہر گام پہ جگنو سا چمکتا ہے جو دل میں

ہم اس کے سوا مشعلِ جادہ نہیں رکھتے



سرخی نہیں پھولوں کی تو زخموں کی شفق ہے

دامانِ طلب ہم کبھی سادہ نہیں رکھتے

intelligent086
08-04-2014, 10:41 PM
آگ کے درمیان سے نکلا

میں بھی کس امتحان سے نکلا



پھر ہوا سے سلگ اٹھے پتے

پھر دھواں گلستان سے نکلا



جب بھی نکلا ستارۂ امید

کہر کے درمیان سے نکلا



چاندنی جھانکتی ہے گلیوں میں

کوئی سایہ مکان سے نکلا



ایک شعلہ پھر اک دھوئیں کی لکیر

اور کیا خاکدان سے نکلا



چاند جس آسمان میں ڈوبا

کب اسی آسمان سے نکلا



یہ گہر جس کو آفتاب کہیں

کس اندھیرے کی کان سے نکلا



شکر ہے اس نے بے وفائی کی

میں کڑے امتحان سے نکلا



لوگ دشمن ہوئے اسی کے شکیبؔ

کام جس مہربان سے نکلا

intelligent086
08-04-2014, 10:41 PM
ہوائے شب سے نہ بجھتے ہیں اور نہ جلتے ہیں

کسی کی یاد کے جگنو دھواں اگلتے ہیں



شب بہار میں مہتاب کے حسیں سائے

اداس پا کے ہمیں، اور بھی مچلتے ہیں



اسیر دام جنوں ہیں، ہمیں رہائی کہاں

یہ رنگ و بو کے قفس اپنے ساتھ چلتے ہیں



یہ دل وہ کار گہ مرگ و زیست ہے کہ جہاں

ستارے ڈوبتے ہیں، آفتاب ڈھلتے ہیں



خود اپنی آگ سے شاید گزار ہو جائیں

پرائی آگ سے کب سنگ دل پگھلتے ہیں

intelligent086
08-04-2014, 10:41 PM
چوٹ ہر گام پہ کھا کر جانا

قُربِ منزل کے لئے مر جانا

ہم بھی کیا سادہ نظر رکھتے تھے

سنگ ریزوں کو جواہر جانا

مشعلِ درد جو روشن دیکھی

خانۂ دل کو منّور جانا

رشتۂ غم کو غمِ جاں سمجھے

زخمِ خنداں کو گلِ تر جانا

یہ بھی ہے کارِ نسیمِ سحری

پتّی پتّی کو جدا کر جانا

اپنے حق میں وہی تلوار بنا

جسے اک پھول سا پیکر جانا

دشمنوں پر کبھی تکیہ کرنا

اپنے سائے سے کبھی ڈر جانا

کاسۂ سر کو نہ دی زخم کی بھیک

ہم کو مجنوں سے بھی کم تر جانا

اس لیے اور بھی خاموش تھے ہم

اہلِ محفل نے سخن ور جانا

intelligent086
08-04-2014, 10:42 PM
عشق پیشہ نہ رہے داد کے حق دار یہاں

پیش آتے ہیں رعونت سے جفا کار یہاں



سر پٹک کر درِ زنداں پہ صبا نے یہ کہا

ہے دریچہ نہ کوئی روزنِ دیوار یہاں



عہد و پیمانِ وفا، پیار کے نازک بندھن

توڑ دیتی ہے زر و سیم کی جھنکار یہاں



ننگ و ناموس کے بکتے ہوئے انمول رتن

لب و رخسار کے سجتے ہوئے بازار یہاں



سرخیِ دامنِ گُل کس کو میسّر آئی

اپنے ہی خوں میں نہائے لب و رخسار یہاں

intelligent086
08-04-2014, 10:42 PM
اس بت کدے میں تو جو حسیں تر لگا مجھے

اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے

جب تک رہی جگر میں لہو کی ذرا سی بوند

مٹھی میں اپنی بند سمندر لگا مجھے

مرجھا گیا جو دل میں اجالے کا سُرخ پھول

تاروں بھرا یہ کھیت بھی بنجر لگا مجھے

اب یہ بتا کہ روح کے شعلے کا کیا ہے رنگ

مَرمَر کا یہ لباس تو سندر لگا مجھے

کیا جانیے کہ اتنی اداسی تھی رات کیوں

مہتاب اپنی قبر کا پتھّر لگا مجھے

آنکھوں کو بند کر کے بڑی روشنی ملی

مدھّم تھا جو بھی نقش، اُجاگر لگا مجھے

یہ کیا کہ دل کے دیپ کی لَو ہی تراش لی

سورج اگر ہے، کرنوں کی جھالر لگا مجھے

صدیوں میں طے ہوا تھا بیاباں کا راستہ

گلشن کو لَوٹتے ہوئے پل بھر لگا مجھے

میں نے اسے شریکِ سفر کر لیا شکیبؔ

اپنی طرح سے چاند جو بے گھر لگا مجھے

intelligent086
08-04-2014, 10:43 PM
کشتیِ زیست سلامت ہے نہ پتوار یہاں

موج در موج ہیں سو رنگ کے منجدھار یہاں



ہم سفر چھوٹ گئے، راہنما روٹھ گئے

یوں بھی آسان ہوئی منزلِ دشوار یہاں



تیرگی ٹوٹ پڑی، دور سے بادل گرجا

بجھ گئی سہم کے قندیلِ رخِ یار یہاں



کتنے طوفان اٹھے، کتنے ستارے ٹوٹے

پھر بھی ڈوبا نہیں اب تک دلِ بیدار یہاں



میرے زخمِ کفِ پا چومنے آئے گی بہار

میں اگر مر بھی گیا وادیِ پُر خار یہاں

intelligent086
08-04-2014, 10:44 PM
درد کے موسم کا کیا ہوگا اثر انجان پر

دوستو پانی کبھی رکتا نہیں ڈھلوان پر



آج تک اس کے تعاقب میں بگولے ہیں رواں

ابر کا ٹکڑا کبھی برسا تھا ریگستان پر



میں جو پربت پر چڑھا، وہ اور اونچا ہو گیا

آسماں جھکتا نظر آیا مجھے میدان پر



کمرے خالی ہو گئے سایوں سے آنگن بھر گیا

ڈوبتے سورج کی کرنیں جب پڑیں دالان پر



اب یہاں کوئی نہیں ہے کس سے باتیں کیجیے

یہ مگر چپ چاپ سی تصویر آتش دان پر



آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے

تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر



بس چلے تو اپنی عریانی کو اس سے ڈھانپ لوں

نیلی چادر سی تنی ہے جو کھلے میدان پر



وہ خموشی انگلیاں چٹخا رہی تھی اے شکیبؔ

یا کہ بوندیں بج رہی تھیں رات روشندان پر

intelligent086
08-04-2014, 10:44 PM
تو نے کیا کیا نہ اے زندگی، دشت و در میں پھِرایا مجھے

اب تو اپنے در و بام بھی جانتے ہیں پرایا مجھے



اور بھی کچھ بھڑکنے لگا میرے سینے کا آتش کدہ

راس تجھ بن نہ آیا کبھی سبز پیڑوں کا سایا مجھے



ان نئی کونپلوں سے مرا کیا کوئی بھی تعلّق نہ تھا؟

شاخ سے توڑ کر، اے صبا!، خاک میں کیوں ملایا مجھے



درد کا دیپ جلتا رہا، دل کا سونا پگھلتا رہا

ایک ڈوبے ہوئے چاند نے رات بھر خوں رلایا مجھے



اب مرے راستے میں کہیں خوفِ صحرا بھی حائل نہیں

خشک پتّے نے آوارگی کا سلیقہ سکھایا مجھے



مدّتوں روئے گُل کی جھلک کو ترستا رہا میں شکیبؔ

ان جو آئی بہار اس نے صحنِ چمن میں نہ پایا مجھے

intelligent086
08-04-2014, 10:44 PM
جاتی ہے دھوپ اُجلے پروں کو سمیٹ کے

زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے



میں ہاتھ کی لکیریں مٹانے پہ ہوں بضِد

گو جانتا ہوں نقش نہیں یہ سلیٹ کے



دنیا کو کچھ خبر نہیں کیا حادثہ ہوا

پھینکا تھا اس نے سنگ گلوں میں لپیٹ کے



فوّارے کی طرح نہ اُگل دے ہر ایک بات

کم کم وہ بولتے ہیں جو گہرے ہیں پیٹ کے



اک نقرئی کھنک کے سوا کیا ملا شکیبؔ

ٹکڑے یہ مجھ سے کہتے ہیں ٹوٹی پلیٹ کے

intelligent086
08-04-2014, 10:45 PM
آ کے پتھّر تو مرے صحن میں دو چار گرے

جتنے اُس پیڑ کے پھل تھے، پسِ دیوار گِرے

ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی

آنکھ جھپکی بھی نہیں، ہاتھ سے پتوار گِرے

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں پہ گروں

جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گِرے

تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط

یہ ستراے مرے گھر ٹوٹ کے بیکار گِرے

کیا ہَوا ہاتھ میں تلوار لئے پھرتی ہے

کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گِرے

دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں

میرے ہمسائے میں جب بھی کوئی دیوار گِرے

وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے

کس گھڑی سر پہ لٹکتی ہوئی تلوار گِرے

ہم سے ٹکرا گئی خود بڑھ کے اندھیرے کی چٹان

ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے، ناچار گِرے

کیا کہوں دیدۂ تر، یہ تو مرا چہرہ ہے

سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گِرے

ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا

ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گِرے

وہ تجلّی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے تیر

آئینے ٹوٹ گئے، آئینہ بردار گِرے

دیکھتے کیوں ہو شکیبؔ اتنی بلندی کی طرف

نہ اٹھایا کرو سو کو کہ یہ دستار گِرے

intelligent086
08-04-2014, 10:45 PM
پاداش



کبھی اس سبک روندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو

تمہیں کیا خبر ہے

وہاں ان گنت کھر درے پتھروں کو

سجل پانیوں نے

ملائم رسلیے مدھر گیت گا کر

امٹ چکنی گولائیوں کو ادا سونپ دی ہے

وہ پتھر نہیں تھا

جسے تم نے بے ڈول ان گھڑ سمجھ کر

پرانی چٹانو سے ٹکرا کے توڑا

اب اس کے سلگتے تراشے

اگر پاؤں میں چبھ گئے ہیں

تو کیوں چیختے ہو؟

intelligent086
08-04-2014, 10:45 PM
انفرادیت پرست



ایک انساں کی حقیقت کیا ہے

زندگی سے اسے نسبت کیا ہے

آندھی اٹھے تو اڑا لے جائے

موج بِپھرے تو بہا لے جائے

ایک انساں کی حقیقت کیا ہے

ڈگمگائے تو سہارا نہ ملے

سامنے ہو، پہ کنارا نہ ملے

ایک انساں کی حقیقت کیا ہے

کُند تلوار قلم کر ڈالے

سرد شعلہ ہی بھسَم کر ڈالے

زندگی سے اسے نسبت کیا ہے

ایک انساں کی حقیقت کیا ہے

intelligent086
08-04-2014, 10:46 PM
اندمال



شام کی سیڑھیاں کتنی کرنوں کا مقتل بنیں

بادِ مسموم نے توڑ کر کتنے پتے سپردِ خزاں کر دئیے

بہہ کے مشکیزۂ ابر سے کتنی بوندیں زمیں کی غذا بن گئیں

غیر ممکن تھا ان کا شمار

تھک گئیں گننے والے ہر اک ہاتھ کی انگلیاں

’ان گنت‘ کہہ کے آگے بڑھا وقت کا کارواں

ان گنت تھے مرے زخم دل

ٹوٹی کرنوں، بکھرتے ہوئے زرد پتوں، برستی ہوئی بوندیوں کی طرح

اور مرہم بھی ناپید تھا

لیکن اس روز دیکھا جو اک طفل نو زاد کا خندۂ زیر لب

زخمِ دل مندمل ہو گئے سب کے سب

intelligent086
08-04-2014, 10:46 PM
لرز تا دیپ



دودِ شب کا سرد ہاتھ

آسماں کے خیمۂ زنگار کی

آخری قندیل گُل کرنے بڑھا

اور کومل چاندنی

ایک دربستہ گھروندے سے پرے

مضمحل پیڑوں پہ گر کر بجھ گئی

بے نشاں سائے کی دھیمی چاپ پر

اونگھتے رستے کے ہر ذرے نے پل بھر کیلئے

اپنی پلکوں کی بجھی درزوں سے جھانکا

اور آنکھیں موند لیں

اس سمے طاق شکستہ پر لرزتے دیپ سے

میں نے پوچھا

ہم نفس

اب ترے بجھنے میں کتنی دیر ہے؟

intelligent086
08-04-2014, 10:47 PM
گریز پا



دھیرے دھیرے گر رہی تھیں نخلِ شب سے چاندنی کی پتّیاں

بہتے بہتے ابر کا ٹکڑا کہیں سے آ گیا تھا درمیاں

ملتے ملتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزے پہ دو پرچھائیاں

جس طرح پینے کے جھولے سے کوئی اندھے کنویں میں جا گِرے

ناگہاں کجلا گئے تھے شرمگیں آنکھوں کے نورانی دئے

جس طرح شورِ جرس سے کوئی واماندہ مسافر چونک اُٹھے

یک بیک گھبرا کے وہ نکلی تھی میرے بازوؤں کی قید سے

لب سلگتے رہ گئے تھے، چھن گیا تھا جام بھی

اور میری بے بسی پر ہنس پڑی تھی چاندنی

آج تک احساس کی چلمن سے الجھا ہے یہ مبہم سا سوال

اس نے آخر کیوں بُنا تھا بہکی نظروں سے حسیں چاہت کا جال

intelligent086
08-04-2014, 10:48 PM
خزاں رسیدہ

خزاں رسدوہ چمن ہوں کہ ریت کے ٹیلے
قدم قدم پہ شگوفے کھلا کے دم لے گی
ازل سے سۂہ ویراں ہے منتظر جس کا
نفس نفس وہی خوشبو رچا کے دم لے گی

intelligent086
08-04-2014, 10:48 PM
دلاسہ



ہم ملے کب تھے

جدائی پر جو ہوں ویراں نگاہ و غم بجاں

ہات میں ہو نرم ہات

لب ہوں لب پر مہرباں

اس پہ کیا موقوف ہے ربطِ بہم کی داستاں



رہگزارِ خاک پر

دور سے دو رویہ پیڑوں کی قطاریں

لاکھ آتی ہوں نظر

اپنے سر جوڑے ہوئے

درمیاں ان کے مگر

کب نہ حائل تھا غبارِ رہگزر

ہم ملے کب تھے

جدائی پر جو ہوں ویراں نگاہ و چشمِ تر

intelligent086
08-04-2014, 10:49 PM
چھت کی تلاش





یہاں درخت کے اوپر اُگا ہوا ہے درخت

زمین تنگ ہے (جیسے کبھی فراخ نہ تھی)

ہوا کا کال پڑا ہے (نمی بھی عام نہیں)

سمندروں کو بِلو کر، فضاؤں کو مَتھ کر

جنم دئے ہیں اگر چند ابر کے ٹکڑے

جھپٹ لیا ہے انھیں یوں دراز شاخوں نے

کہ نیم جان تنے کو ذرا خبر نہ ہوئی

جڑیں بھی خاک تلے ایک ہی لگن میں رواں

نہ تیرگی سے مفر ہے، نہ روشنی کا سوال

زمیں میں پاؤں دھنسے ہیں، فضا میں ہات بلد

نئی جہت کا لگے اب درخت میں پیوند

intelligent086
08-04-2014, 10:50 PM
سفیر



میں روشنی کا مُغنّی کرن کرن کا سفیر

وہ سیلِ مہ سے کہ رودِ شرار سے آئے

وہ جامِ مے سے کہ چشمِ نگار سے آئے

وہ موجِ باد سے یا آبشار سے آئے

وہ دستِ گل سے کہ پائے فگار سے آئے

وہ لوحِ جاں سے کہ طاقِ مزار سے آئے

وہ قصرِ خواب سے یا خاک زار سے آئے

وہ برگِ سبز سے یا چوبِ دار سے آئے



جہاں کہیں ہو دلِ داغ دار کی تنویر

وہیں کھلیں مری بانہیں، وہیں کٹے زنجیر

intelligent086
08-04-2014, 10:50 PM
شہرِ گُل







کچھ نہ تھا شوخیِ رفتارِ صبا کا حاصل

نکہتِ گل کی پھواروں پہ کڑے پہرے تھے

چپمپئ بیل کے سیال نمو پر قدغن

سرو و سوسن کی قطاروں پہ کڑے پہرے تھے

حلقۂ برق میں ارباب گلستاں محبوس

دم بخود راہ گزاروں پہ کڑے پہرے تھے

دفعتاً شور ہوا ٹوٹ گئیں زنجیریں

زمزمہ ریز ہوئیں مہر بلب تصویریں

دو گھڑی کیلئے گھر گھر میں چراغاں سا ہوا

جیسے ضو کاریِ انجم پہ کوئی قید نہیں

بند کلیوں نے تراشیدہ لبوں کو کھولا

پھول سمجھے کہ تبسّم پہ کوئی قید نہیں

گھنگریاں باندھ کے پیروں میں صبا اٹھلائی

جیسے اندازِ ترنّم پہ کوئی قید نہیں

یہ فقط خواب تھا اس خواب کی تعبیر بھی ہے

شہرِ گل میں کوئی ہنستی ہوئی تصویر بھی ہے

intelligent086
08-04-2014, 10:50 PM
دعوتِ فکر







کس طرح ریت کے سمندر میں

کشتیِ زیست ہے رواں، سوچو

سن کے بادِ صبا کی سرگوشی

کیوں لرزتی ہیں پتیاں۔۔، سوچو

پتھروں کی پناہ میں کیوں ہے

آئینہ ساز کی دوکاں، سوچو

اصل سر چشمۂ وفا کیا ہے

وجہِ بے مہریِ بتاں سوچو

ذوقِ رعمیر کیوں نہیں مٹتا

کیوں اُجڑتی ہیں بستیاں سوچو

فکر سقراط ہے کہ زہر کا گھونٹ

باعثِ عمرِ جاوداں سوچو

لوگ معنی تلاش ہی لیں گے

کوئی بت ربط داستاں سوچو

intelligent086
08-04-2014, 10:51 PM
نئی کرن





جہاں پناہ سسکنے لگی چراغ کی لو

شعاعِ تازہ سے چھلنی ہے سینۂ ظلمات

بلند بام ہراسان ہیں رہ نشینوں سے

اک ایسے موڑ پہ آئی ہے گردشِ حالات

جسے بھی دیکھیے لب پر سجائے پھرتا ہے

نرالے دور کا قصہ، اچھوتے دور کی بات

جنہیں تھا حکمِ خموشی وہی پکار اٹھے

ہمیں بھی اذنِ تبسم ہمیں بھی اذنِ حیات

طلب ہوئی ہے جنہیں بے کراں اجالوں کی

سرابِ نجم و قمر سے بہل نہیں سکتے

نئی کرن سے اندھیروں میں برہمی ہی سہی

نئی کرن کو اندھیرے نگل نہیں سکتے

جہاں پناہ جمال سحر کی جوئے رواں

افق افق کو درخشاں بنا کے دم لے گی

پلک پلک سے مٹائے گی داغ اشکوں کے

نظر نظر کو تبسم سکھا کے دم لے گی

خزاں رسیدہ چمن ہوں کہ ریت کے ٹیلے

قدم قدم پہ شگوفے کھِلا کے دم لے گی

ازل سے سینۂ ویراں ہے منتظر جس کا

نفس نفس وہی خوسشبو رچا کے دم لے گی

intelligent086
08-04-2014, 10:51 PM
عکس اور میں



آبِ جو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی

دہکے عارض۔۔۔آئینے میں تیز شعلوں کی ضیا

احمریں لب۔۔۔۔زخمِ تازہ موجِ خوں سے آشنا

تیکھے ابرو۔۔۔کالی راتوں کا ملائم ڈھیر سا

بہتی افشاں۔۔۔۔جگمگاتی مشعلوں کا قافلہ

گہری آنکھیں۔۔۔۔دور تک منظر سہانے خواب کا

آب جو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی

نقرئی پانی کے جو آنچل میں جھلمل کر رہی تھی، کون تھی

حور تھی تخئیل کے رمنوں کی یا وہ جل پری تھی، کون تھی۔۔۔؟

اس پہیلی کی گرہ کھلنے سے پہلے ہی نگاہوں پر مری

ریشمیں قدموں کی آہٹ سے خلا کی سبز چلمن آ گری

آب جو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی

یا کفِ ساحل پہ میرے نقش پا تھے اور بس

intelligent086
08-04-2014, 10:51 PM
خداوندان جمہورسے





عروسِ صبح سے آفاق ہمکنارسہی

شکستِ سلسلۂ قیدِ انتظار سہی

نگاہِ مہرِ جہاں تاب کیوں ہے شرمندہ

شفق کا رنگ شہیدوں کی یاد گار سہی

بکھرتے خواب کی کڑیوں کو آپ چن دیجے

کیا تھا عہد جو ہم نے وہ پائیدار سہی

ہجومِ لالہ و ریحاں سے داد چاہتے ہیں

یہ چاک چاک گریباں گلے کا ہار سہی

گنے جو زخم رگ جاں، شریک جشن حیات

پیے جو ساغرِ زہراب بادہ خوار سہی

چمن میں رنگ طرب کی کوئی کمی نہ رہے

ہمارا خون جگر غازۂ بہار سہی

intelligent086
08-04-2014, 10:52 PM
لہو ترنگ



جنگ آزادی کے شہیدوں کی یاد میں
پہلی آواز



ہمیں قبول نہیں زندگی اسیری کی

ہم آج طوق و سلال کو توڑ ڈالیں گے

ہمارے دیس پہ اغیار حکمراں کیوں ہوں

ہم اپنے ہاتھ میں لوح و فلم سنبھالیں گے

فضا مہیب سہی، مرحلے کٹھن ہی سہی

سفینہ حلقۂ طوفاں سے ہم نکالیں گے

نقوشِ راہ اگر تیرگی میں ڈوب گئے

ہم اپنے خوں سے ہزاروں دیے جلا لیں گے
دوسری آواز



جو لوگ لے کے اٹھے ہیں علم بغاوت کا

انھیں خود اپنی ہلاکت پہ نوحہ خواں کر دو

بجھاؤ گرم سلاخوں کو ان کی آنکھوں میں

زبانیں کھینچ لو گُدّی سے، بے زباں کر دو

ہدف بناؤ دلوں کو سلگتے تیروں کا

سِناں سے خیموں کو چھیدو، شکستہ جاں کر دو

محل سرا کی حدوں تک کوئی پہونچ نہ سکے

ہر ایک گام پی ایستادہ سولیاں کر دو

intelligent086
08-04-2014, 10:53 PM
لہو ترنگ



جنگ آزادی کے شہیدوں کی یاد میں
پہلی آواز



ہمیں قبول نہیں زندگی اسیری کی

ہم آج طوق و سلال کو توڑ ڈالیں گے

ہمارے دیس پہ اغیار حکمراں کیوں ہوں

ہم اپنے ہاتھ میں لوح و فلم سنبھالیں گے

فضا مہیب سہی، مرحلے کٹھن ہی سہی

سفینہ حلقۂ طوفاں سے ہم نکالیں گے

نقوشِ راہ اگر تیرگی میں ڈوب گئے

ہم اپنے خوں سے ہزاروں دیے جلا لیں گے
دوسری آواز



جو لوگ لے کے اٹھے ہیں علم بغاوت کا

انھیں خود اپنی ہلاکت پہ نوحہ خواں کر دو

بجھاؤ گرم سلاخوں کو ان کی آنکھوں میں

زبانیں کھینچ لو گُدّی سے، بے زباں کر دو

ہدف بناؤ دلوں کو سلگتے تیروں کا

سِناں سے خیموں کو چھیدو، شکستہ جاں کر دو

محل سرا کی حدوں تک کوئی پہونچ نہ سکے

ہر ایک گام پی ایستادہ سولیاں کر دو

intelligent086
08-04-2014, 10:53 PM
پہلی آواز



یہ غم نہیں کہ سرِ دار آئے جاتے ہیں

ہمیں خوشی ہے وطن کو جگائے جاتے ہیں

ہمارے بعد سہی، رات ڈھل تو جائے گی

دلوں میں شمعِ جنوں تو جلائے جاتے ہیں

ہمارے نقشِ قدم دیں گے منزلوں کا سُراغ

ہمیں شکست نہ ہوگی بتائے جاتے ہیں

جواں رہیں گی ہمارے لہو کی تحریریں

سدا بہار شگوفے کھِلائے جاتے ہیں

intelligent086
08-04-2014, 10:53 PM
زاویے





رات تھی میں تھا اور اک میری سوچ کا جال

پاس سے گزرے تین مسافر دھیمی چال

پہلا بولا مت پوچھو اس کا احوال

دیکھ لو تن پر خون کی فرغل، خون کی شال

دوسرا بولا۔۔۔۔اور ہی کچھ ہے میرا خیال

یہ تو خزاں کا چاند ہے گھائل غم سے نڈھال

تیسرا بولا۔۔۔بس یوں سمجھو اس کی مثال

اندھیارے کے بن میں جیسے شب کا غزال

ان کی روح تھی خود کالی پیلی اور لال

میرا وجود ہے ورنہ اب تک ایک سوال

intelligent086
08-04-2014, 10:54 PM
جاگتی آنکھیں



کس کو گماں تھا اک نقطے کی آغوش اتنی کشادہ ہوگی

جس میں انت سرے تک رنگ بھری پہنائی

گھل مل کر رہ جائے گی



کس کو خبر تھی، انجانے پن کی گرد لبادہ ہوگی

جس کے صدیوں کی سر بستہ دانائی

اپنی چھب دکھلائے گی



کس کو یقیں تھا، دور کے لمس کی تاثیر اتنی زیادہ ہوگی

جس سے سنگیں پیکر میں جامِد رعنائی

روح کی ندرت پائے گی



ایسی انہونی باتوں میں سچ کی کرنیں ٹانک چکا ہوں

میں ان جاگتی آنکھوں کے گمبھیر طلسم میں جھانک چکا ہوں

intelligent086
08-04-2014, 10:55 PM
یاد

رات اک لڑکھڑاتے جھونکے سے
ناگہاں سنگ سرخ کی سل پر
آئنہا گر کے پاش پاش ہوا
اور نی س نکیش کرچوں کی
ایک بوچھاڑ دل کو چری گئی

intelligent086
08-04-2014, 10:55 PM
یاد

رات اک لڑکھڑاتے جھونکے سے
ناگہاں سنگ سرخ کی سل پر
آئنہا گر کے پاش پاش ہوا
اور نی س نکیش کرچوں کی
ایک بوچھاڑ دل کو چری گئی

intelligent086
08-04-2014, 10:56 PM
جشنِ عید









سبھی نے عید منائی مرے گلستاں میں

کسی نے پھول پروئے، کسی نے خار چُنے

بنامِ اذنِ تکلّم، بنامِ جبرِ سکوت

کسی نے ہونٹ چبائے، کسی نے گیت بُنے



بڑے غضب کا گلستاں میں جشنِ عید ہوا

کہیں تو بجلیاں کوندیں، کہیں چِنار جلے

کہیں کہیں کوئی فانوس بھی نظر آیا

بطورِ خاص مگر قلبِ داغدار جلے



عجب تھی عیدِ خمستاں، عجب تھا رنگِ نشاط

کسی نے بادہ و ساغر، کسی نے اشک پئے

کسی نے اطلس و کمخواب کی قبا پہنی

کسی نے چاکِ گریباں، کسی نے زخم سئے



ہمارے ذوقِ نظارہ کو عید کے دن بھی

کہیں پہ سایۂ ظلمت کہیں پہ نور ملا

کسی نے دیدہ و دل کے کنول کھِلے پائے

کسی کو ساغرِ احساس چکنا چور ملا



بہ فیضِ عید بھی پیدا ہوئی نہ یک رنگی

کوئی ملول، کوئی غم سے بے نیاز رہا

بڑا غضب ہے خداوندِ کوثر و تسنیم

کہ روزِ عید بھی طبقوں کا امتیاز رہا

intelligent086
08-04-2014, 10:57 PM
فسانۂ جگرِ لخت لخت ایسا تھا









ہر شاخ سے گہنے چھین لیے، ہر دال سے موتی بین لیے

اب کھیت سنہرے کھیت نہیں، ویرانے ہی ویرانے ہیں



کسی کا قرب اگر قربِٕ عارضی ہے شکیبؔ

فراقِ یار کی لذّت ہی پائیدار رہے



ہوا جو صحنِ گلستاں میں راج کانٹوں کا

صبا بھی پوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا

ہم اپنے چاکِ قبا کو رفو تو کر لیتے

مگر وہی ہے ابھی تک مزاج کانٹوں کا



خاموشی کے دکھ جھیلو گے ہنستے بولتے شہروں میں

نغموں کی خیرات نہ بانٹو جنم جنم کے بہروں میں



بھاگتے سایوں کی چیخیں، ٹوٹے تاروں کا شور

میں ہوں اور اک محشرِ بے خواب آدھی رات کو



ہمیں جیب و آستیں پر اگر اختیار ہوتا

یہ شگفتِ گل کا موسم بڑا خوش گوار ہوتا



دیکھ زخمی ہوا جاتا ہے دو عالم کا خلوص

ایک انساں کو تری ذات سے دُکھ پہنچا ہے



بات میری کہاں سمجھتے ہو

آنسوؤں کی زباں سمجھتے ہو



جس دم قفس میں موسمِ گل کی خبر گئی

اک بار قیدیوں پہ قیامت گزر گئی



اس طرح گوش بر آواز ہیں اربابِ ستم

جیسے خاموشیِ مظلوم صدا رکھتی ہے



خوشی کی بات نہیں ہے کوئی فسانے میں

وگرنہ عذر نہ تھا آپ کو سنانے میں



ہائے وہ آگ کہ جو دل میں سلگتی ہی رہے

ہائے وہ بات کہ جس کا کبھی اظہار نہ ہو



اب انھیں پرسشِ حالات گراں گزرے گی

بد گمانی ہے تو ہر بات گراں گزرے گی



سحر میں حسن ہے کیسا، بہارِ شب کیا ہے

جو دل شگفتہ نہیں ہے تو پھر یہ سب کیا ہے



جنگل جلے تو ان کو خبر تک نہ ہو سکی

چھائی گھٹا تو جھوم اٹھے بستیوں کے لوگ



آبلہ پائی کا ہم کو غم نہ تھا

رہنماؤں کی ہنسی تڑپا گئی



کتنے ہی لوگ صاحبِ احساس ہو گئے

اک بے نوا کی چیخ بڑا کام کر گئی





اس گلبدن کی بوئے قبا یاد آ گئی

صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آ گئی



چاند کی پر بہار وادی میں

ایک دوشیزہ چن رہی ہے کپاس



پائلیں بجتی رہیں کان میں سودائی کے

کوئی آیا نہ گیا رات کے سنّاٹے میں



مجھ کو آمادۂ سفر نہ کرو

راستے پُر خطر نہ ہو جائیں



ہم نے گھبرا کے موند لیں آنکھیں

جب کوئی تارہ ٹوٹتا دیکھا

سچ کہو میری یاد بھی آئی؟

جب کبھی تم نے آئینہ دیکھا



گمرہی ہمیں شکیبؔ دے رہی ہے یہ فریب

رہنما غلط نہیں، راستہ طویل ہے



کمتر نہ جانیں لوگ اُسے مہر و ماہ سے

ہم نے گرا دیا جسے اپنی نگاہ سے

یا میں بھٹک گیا ہوں سرِ رہ گزر شکیب

یا ہٹ گئی ہے منزلِ مقسود راہ سے



یہ لطف زہر نہ بن جائے زندگی کے لیے

چلے تو آئے ہو تجدیدِ دوستی کے لیے

نہ جانے ہو گیا کیوں مطمئن تجھے پا کر

بھٹک رہا تھا مرا دل خود آگہی کے لیے

intelligent086
08-04-2014, 10:58 PM
طلسمِ گردشِ ایّام کس طرح ٹوٹے

نظر علیل، جنوں خام، فکر آوارہ



ہم نے جسے آزاد کیا حلقۂ شب سے

حاصل نہیں ہم کو اسی سورج کا اجالا



گونجتے ہیں شکیب آنکھوں میں

آنے والی کسی صدی کے گیت