PDA

View Full Version : سینیٹ انتخابات: (ن) لیگ کے حمایت یافتہ امیدو&#



smartguycool
03-07-2018, 12:35 PM
پاکستان کا ایوان بالا یعنی سینیٹ میں 52 نئے اراکین کے چناؤ کے لیے ہونے والے انتخابات کے بعد کچھ تبدیلیاں آجائیں گی۔
ابتدائی طور پر سامنے آنے والے نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ میں برتری حاصل ہوگئی ہے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) دوسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔
حکومتی مشینری میں لازمی حصہ تصور ہونے والے سینیٹ انتخابات سے ملک کے سیاسی معاملات اور ان سے جُڑی سیاسی جماعتوں کی سیاست پر گہرا اثر پڑے گا۔
سینیٹ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ماہرین کے تاثرات درج ذیل ہیں۔
مسلم لیگ (ن) میں دیگر جماعتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ڈسپلن ہے،عدنان رسول
سوال: (ن) لیگ نے آزاد امیدواروں کی حمایت کی، کیا یہ مستقبل میں پارٹی سے وفادار رہیں گے؟ مستقبل میں یہ مسلم لیگ (ن) کے لیے مسئلہ تو بنیں گے؟
جواب: مسلم لیگ (ن) کے لوگ پارٹی سے وفادار رہیں گے جس کی بہت سادہ وجہ ہے، شہباز شریف کے صدر بننے کے بعد پارٹی آگے بڑھ رہی ہے۔
یہ طاقتور طبقات کے لیے اشارہ ہے کہ (ن) لیگ نئی گیم کھیلنا چاہتی ہے اور عام انتخابات کے لیے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہے، اس سے پارٹی اراکین کے لیے عام انتخابات میں کم از کم پنجاب میں کامیابی کے حوالے سے پیش گوئی کرنا آسان ہوگیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ (ن) میں دیگر جماعتوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ڈسپلن ہے، یہاں تک کہ شہباز شریف بھی ووٹ ڈالنے کے لیے پنجاب اسمبلی آئے۔
سوال: کیا سینیٹ الیکشن کے نتائج مرکز میں پیپلز پارٹی کی ناکامی کی ایک اور نشانی ہے؟
جواب: پیپلز پارٹی نے امید سے زیادہ اچھے نتائج کا مظاہرہ کیا، ہوسکتا ہے کہ مرکز میں وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کر سکے تاہم اس کے پاس نتائج کو تبدیل کرنے کی ایک حد تک طاقت ہے اور اس کی یہ طاقت خیبر پختونخوا اور سندھ میں نظر آئی۔
اگرچہ پیپلز پارٹی ماضی کے مقابلے میں کمزور ہوئی ہے لیکن وفاقی سطح پر وہ اب بھی پی ٹی آئی سے زیادہ طاقتور ہے اور مستقبل میں بھی وہ وفاقی سطح پر مضبوط اپوزیشن گروپ اور سندھ کی طاقتور حکمراں جماعت رہے گی۔
سوال: ایم کیو ایم کی کارکردگی سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا پارٹی میں تقسیم نے کوئی کردار ادا کیا؟
جواب: ایم کیو ایم رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ ایک ساتھ بیٹھ کر تمام حالات اور اپنی ناکامی کا جائزہ لے، ایم کیو ایم گروہ بندی کا نقصان ضرور ہوا ہے، لیکن یہ نقصان دائمی نہیں۔
پیپلز پارٹی مرکز میں دوبارہ راستہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے، طاہر مہدی
سوال: (ن) لیگ نے آزاد امیدواروں کی حمایت کی، کیا یہ مستقبل میں پارٹی سے وفادار رہیں گے؟ مستقبل میں یہ مسلم لیگ (ن) کے لیے مسئلہ تو بنیں گے؟
جواب: مجھے نہیں لگتا کہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز کو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا چاہے وہ دوبارہ پارٹی میں شامل ہوں یا نہیں۔
پارٹی گزشتہ ایک سال سے مشکلات کا شکار ہے لیکن پنجاب میں اس کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا، اگرچہ پنجاب سے منتخب ہونے والے سینیٹرز تکنیکی طور پر بلوچستان کی امیدواروں کی طرح ’آزاد‘ ہی ہیں، تاہم وہ بلوچستان کے آزاد سینیٹرز کی طرح کمزور نہیں ہیں۔
سوال: کیا سینیٹ الیکشن کے نتائج مرکز میں پیپلز پارٹی کی ناکامی کی ایک اور نشانی ہے؟
جواب: واضح طور پر بات کروں تو پیپلز پارٹی مرکز میں دوبارہ راستہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے، وہ اپنے ناقدین کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ پارٹی ابھی ختم نہیں ہوئی، لیکن ایم کیو ایم کے حاصل ہونے والے چند ووٹوں نے دیہی سندھ میں اس کی سیاست پر منفی اثر ڈالا ہے۔
سوال: ایم کیو ایم کی کارکردگی سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا پارٹی میں تقسیم نے کوئی کردار ادا کیا؟
جواب: یہ صرف ایم کیو ایم نہیں ہے جسے بطور جماعت بدنظمی کا سامنا ہے، بلکہ پوری مہاجر برادری کی سیاست اور حقیقتاً پورا کراچی ہی بے سمت چل رہا ہے۔
پیپلز پارٹی اپنا ہی دُکھرا رو رہی ہے اور کسی مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کر رہی، وہ اس رویے کے ساتھ ابھی تو گزارا کر سکتی ہے لیکن طویل عرصے تک ایسا نہیں چل سکتا، جبکہ سینیٹ انتخابات کے نتائج سے یا تو بچی کُچی ایم کیو ایم بھی ختم ہوجائے گی یا اس سے اسے متحد ہونے میں مدد ملے گی۔