PDA

View Full Version : والدین، سکول اوربچے



intelligent086
01-27-2018, 05:02 AM
والدین، سکول اوربچے


صوفی گلزار احمد
والدین اور اساتذہ کا اشتراک ایک نہایت اہم تعلیمی تقاضا ہے۔ اگر والدین اساتذہ کا ہاتھ نہ بٹائیں تو سکول کا کام ادھورا رہتا ہے۔ یہ بات مسلم ہے کہ گھر کا ماحول اور والدین کا بچوں کے ساتھ رویہ دونوں، بچوں کی سیرت و کردار کی تشکیل میں نمایاں حصہ لیتے ہیں۔ اس لیے والدین کو اس بات کا احساس دلانا اور انہیں ادائے فرض کے لیے آمادہ کرنا عوامی تعلیم اور سوسائٹی کی بہبودکے نقطۂ نظر سے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ بذات خود بچوں کی تعلیم۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو والدین بھی ایک طرح کے استاد ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں والدین کی کوششوں کو سراہا جائے اور انہیں اپنی ذمہ داریوں کا پورا پورا احساس دلایا جائے۔ پڑھے لکھے والدین سکول کی تعلیم میں اساتذہ کا ہاتھ بخوبی بٹا سکتے ہیں اور اس مشکل اور کٹھن مرحلے میں اس کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ والدین تعلیمی پروگرام کی کامیابی کے پورے طور پر ضامن بھی بن سکتے ہیں۔ عہد حاضر کے سکول، گھر اور سکول کے بڑھتے ہوئے باہمی رشتے کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ غرضیکہ اساتذہ کا والدین کے ساتھ مل جل کر کام کرنا تعلیمی نظام کا ایک اہم جزو بن گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں والدین روز بروز اپنے بچوں کی تعلیم کے بارے میں بڑی ہو شیاری اور مستعدی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ اب یہ کہتے ہوئے زیادہ نہیں سنا جاتا کہ ان کو تعلیم دینا صرف سکول کا کام ہے۔ اب سے کوئی ایک نسل پہلے والدین سکول کے بارے میں مختلف نظریہ رکھتے تھے۔ اساتذہ کے کندھوں پر تعلیم کا سارا بوجھ لاد دیا جاتا تھا اور والدین اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے تھے۔ چنانچہ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں سکول اور گھر دو مختلف جگہیں خیال کی جاتی تھیں۔ اساتذہ اور والدین دونوں میں یہ احساس پایا جاتا تھا کہ وہ ایک دوسرے سے بالکل بے تعلق رہ کر اپنا کام بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں والدین بچو ں کی تربیت کے سلسلے میں کافی تجربات حاصل کررہے ہیں۔ اب بچوں کے مسائل کے بارے میں ان میں کافی غورو خوض کا مادہ پیدا ہو چکا ہے۔ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے سلسلے میں انہیں ریڈیو، فلموں، ٹی وی، اخباروں اور لٹریچرکے ذریعے علم کا ذخیرہ حاصل ہو رہا ہے۔ وہ مختلف ذرائع سے بچوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق مفید مواد حاصل کر رہے ہیں، اور ان کے ذہن میں ان کی تربیت کے متعلق مختلف خیالات وارد ہو رہے ہیں اور نئے نئے سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ مثلاً ہم بچے کے ساتھ کیا سلوک کریں کہ وہ دوسرے افراد کے ساتھ آسانی سے مطابقت پیدا کر سکے ۔ گھر میں کون کون سی ذمہ داریاں اس پر عائد کی جا سکتی ہیں، وہ کون سے ذرائع ہیں جن کی مدد سے سکول کے ساتھ بخوبی مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے۔ والدین کو اس بات کا پورا پورا علم ہے کہ بچے جس قسم کے ماحول میں رہتے ہیں وہ ان کے کردار اور سیرت کی تعمیر میں نمایاں اثر ڈالتا ہے۔ اگر بچوں کی نشوونما کے لیے حالات ساز گار ہوں اور انہیں موافق ماحول میسر آ جائے تو ان پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ والدین کو اب اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ گھر اور سکول کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کرنا چاہیے۔ دونوں ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہ کر کوئی احسن کام سرانجام نہیں دے سکتے۔ سکول اور گھر دونوں کی منزل ایک ہی ہے۔ جب دونوں ایک د وسرے کے ساتھ مل جل کر بچے کے تعلیمی نظام کی تعمیر کرتے ہیں تو بچے کی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر کافی اچھا اثر پڑتا ہے۔ بچے کی معمول کے مطابق نشوونما اور پھلنے پھولنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ اس بارے میں اسا سی اعمال یا قوانین کا بخوبی علم رکھیں۔ اگرچہ ان والدین کی تعداد میں جو سکول میں دلچسپی لیتے ہیں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر بھی بہت سے والدین ایسے ہیں جو والدین اور استاد کے گہرے رشتے سے بالکل ناواقف ہیں، اور بہت سے والدین کا اب تک یہ نظریہ ہے کہ بچے کی تعلیم کو دوحصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ استاد بچے کی ذہنی نشوونما کی طرف توجہ دے سکتا ہے، جبکہ والدین اس کی جسمانی اور اخلاقی نشوونما کی طرف بخوبی توجہ دے سکتے ہیں۔ عموماً ایسے والدین اعتماد سے نہیں کہہ سکتے کہ بچے کی جذباتی اور سماجی نشوونما کا کون ذمہ دار ہے۔ انہیں اس بات کی بالکل خبر نہیں ہوتی کہ والدین اور اساتذہ دونوں بچے کی نشوونما میں برابر کے حصے دار ہوتے ہیں اور موجودہ دور کا سکول بچے کی جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کی نشوونما کو بہت متاثر کرتا ہے۔ والدین کا ایک اور گروہ وہ بھی ہے جس کے سکول کے زمانے کے تجربات نہایت خوشگوار تھے ۔ اساتذہ کے ساتھ ان والدین کی مطابقت بالکل نہیں تھی اور ان اساتذہ کے بارے میں جو رویہ انہوں نے اختیار کیا وہ جوان ہونے کے بعد برقرار رہا ۔ ایسے والدین کے نزدیک استاد ایک حاکم ہوتا ہے جو حکم دینے کا مجاز ہے اور حکم کی بجا آوری نہ کرنے پر شاگردوں کو سزا کا مستحق ٹھہراتا ہے۔ والدین کا ایک اور گروہ تعلیم کو ایک میکانکی عمل تصور کرتا ہے۔ وہ تعلیم و تدریس کو محض رٹا لگانا ہی خیال کرتا ہے۔ یعنی طالب علموں کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ درسی کتابوں سے مواد لے کر اپنے ذہنوں میں بھر لیتے ہیں۔ ایسے والدین کوتعلیمی مسائل کے بارے میں روشناس کرانے کے لیے کسی خاص طریقہ کار کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ انہیں سکول کے ماحول کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے مواقع مہیا کیے جائیں۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر، والدین کا سکول کے بارے میں جو بھی نظریہ ہو، اساتذہ کو ہمیشہ بچوں کی ذات میں دلچسپی لینی چاہیے اور ان کی بہتری اور بہبود کی تدابیر سوچنی چاہئیں۔

Moona
01-30-2018, 12:21 AM
Nyc Sharing
:Nice:
t4s

intelligent086
02-01-2018, 04:49 AM
پسند اور رائے کا شکریہ