PDA

View Full Version : Al Maun Ayat 2



Arosa Hya
05-08-2016, 11:48 AM
اعوذ بااللہ من الشیطان الرجیم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم





أَرَءَيْتَ ٱلَّذِى يُكَذِّبُ بِٱلدِّينِ
فَذَٰلِكَ ٱلَّذِى يَدُعُّ ٱلْيَتِيمَ

تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے
Then that is the one who repulses the orphan.

اس آیت سے پہلے کہا گیا کہ بھلا اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے اور اب اسی شخص کی نشاندہی کی جا رہی ہے کہ دین کو جھٹلانے والا شخص وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے.
دھکے دینے سے مراد ہے کہ اسکا حق سلب کرنا , اس سے ناروا سلوک کرنا اسے ایذا پہنچانا اسکا مال ناجائز کھانا...
یتیم اس شخص کو کہتے ہیں جو باپ کے سایہ شفقت سے محروم ہو جائے. خصوصا ایسے چھوٹے بچے بہت حساس اور قابل رحم ہوتے ہیں. ان کے ساتھ برا سلوک , حق تلفی اور زیادتی بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں جو تکلیف کچھ عرصہ نہیں بلکہ پوری زندگی ان کیساتھ رہتی ہے
مفہوم: ایک مرتبہ ایک شخص کا بچہ گم ہوگیا اس پہ اسکی پریشانی دیدنی تھی پھر اسے علم ہوا کہ فلاں جگہ اسکا بیٹا بچوں کیساتھ کھیل رہا ہے وہ شخص بے قراری میں جانے لگا تو آپ ص نے اسے تاکید کی کے اسے "میرا بیٹا" کہنے کے بجائے اسکے نام سے پکارنا کہ وہاں دوسرے کھیلنے والے بچوں میں کوئی یتیم بھی ہوگا تو جب تم میرا بیٹا کہو گے تو اس بچے کو اپنے باپ کی کمی محسوس ہوگی وہ غمزدہ ہو جائے گا (فداک ابی وامی یا رسول اللہ ❤)
مفہوم : ایک مرتبہ آپ ص نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو قریب کیا اور اشارہ کرتے ہوئے فرمایا میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص (اسکا قریبی ہو یا غیر) جنت میں اسطرح ساتھ ہوں گے (مسلم و بخاری )

اور ایک حدیث میں سات ہلاک کردینے والے گناہوں میں ایک یتیم کا مال کھانا بتایا گیا

آپ ص نے حضرت زید رض (جو یتیم و مسکین بچے تھے) کو گھر لایا صاف کپڑے پہنائے اور فرمایا آج سے عائشہ رض تمہاری ماں اور میں تمہارا باپ ہوں اور انکا نام اس آیت(جس میں حکم ہوا کہ بچوں کو صرف ان کے اصل باپ کے نام سے پکارا جائے اور اگر نام معلوم نہیں تو وہ دین کی رو سے تمہارے بھائی ہیں) کے نزول سے پہلے تک آپکا نام زید بن محمد پکارا جاتا رہا.یتیم بچوں کی کفالت اور نصیحت کرنے کیلئے باپ کی شفقت اور راہنمائی موجود نہیں ہوتی اس لیے وہ ہماری شفقت اور اچھائی کے زیادہ مستحق ہیں. اگر ہم کسی یتیم بچے کی کفالت کریں یا انہیں اپنے گھر میں پناہ دیں تو اس سے رزق یا جگہ کم نہیں ہوگی بلکہ رازق و مالک تو صرف اللہ ہے وہ ہی اصل پالنے والا ہے ہمارا تو وہ صرف دل اور اسکا تقوی دیکھتا ہے.
اور اگر یتیم کے ورثے میں مال و جائیداد آتا ہو تو اسکے بارے میں بھی یہ کہا گیا کہ "احسن طریقے" سے خرچ کرو یعنی یہ نا ہو کہ اسکے نابالغ اور کم عقل ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سارا مال خرچ کردو یا اپنے نام کروالو. نہیں بلکہ ہم اسکے امین ہیں اور اس پہ جواب دہ ہیںبات یہ ہے کہ انسانی عقل حساب کے اصول دو جمع دو چار, چار سے آٹھ , آٹھ سے سولہ, سولہ سے بتیس تک سوچتی ہے مگر اللہ کبھی ایک کا دس گنا کبھ ستر گنا اور کبھی اس سے بھی زیادہ جتنا چاہتا ہے بدلہ بڑھا دیتا ہے.
لہذا اللہ کے دین کو ماننے والے ہی یتیم کیساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں ناکہ اسے کمزور اور لاوارث سمجھ کر جیسا چاہیں رویہ رکھیں.اپنے دل اور ظرف میں اتنی وسعت پیدا کریں کہ یتیم کو یتیم خانے میں چھوڑنے کے بجائے ایک نارمل ماحول اور محبت بھرے گھر میں جگہ دے سکیں. صرف ان لوگوں کیلئے جو یقین رکھتے ہیں روز جزا پر !اے اللہ فہم یا لکھنے میں کوتاہی کو درگزر فرمانا اور میری کوشش قبول فرمائیے آمین

https://fbcdn-photos-a-a.akamaihd.net/hphotos-ak-xta1/v/t1.0-0/s480x480/13096250_1003159333124224_6575024064763781705_n.jp g?oh=80e3a8e2920c3733cd657933175e38e0&oe=57AB0CDD&__gda__=1474676898_2ac2c19505511ac841df161e26f2bdf e

muzafar ali
05-08-2016, 05:33 PM
beshak jazak Allah

CaLmInG MeLoDy
05-08-2016, 08:22 PM
Jazakallah..bohot achi sharing hai arosa.

intelligent086
05-09-2016, 10:31 AM
جزاک اللہ خیراً کثیرا

Arosa Hya
05-09-2016, 10:54 AM
Thanks to read

Razi ALLAH mikum wa minni ameen