PDA

View Full Version : روداد حیات . باقی صدیقی ...... Baqi Siddiqui



intelligent086
04-08-2016, 08:06 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x15319_43220260.jpg.pagespeed.ic.hiw_TcXE0G .jpg

خالد مصطفی
کسی بھی فن کار کے فن پر تبصرہ سے قبل اس کے زمانے کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات کا جائزہ لینا از حد ضروری ہوتا ہے۔مزید برآںاس کی ذاتی زندگی کے متعلق موجود مواد سے بھی ہمیں اس کے نظریۂ فن کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔باقی صدیقی کے درج بالا شعر کے تناظر میںاگرہم اس کی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ باقی صدیقی نے ایک مشکل زندگی بسر کی ۔وہ تمام عمر مجرد(غیر شادی شدہ) رہے اور زندگی کا بیشتر حصّہ اپنی چھوٹی بہن اصغری خانم کی رفاقت میں بسر کیا۔اصغری بیگم کی شادی ان کے خالہ زاد سے ہوئی تھی مگر نباہ نہ ہو سکا اور بات طلاق پر ختم ہوئی۔باقی صدیقی نے شاید اس کے بعد ہی ہمیشہ کے لئے مجرد رہنے کا فیصلہ کیا۔باقی صدیقی کا اصل نام محمد افضل تھا۔ آپ ۲۰ ، دسمبر ۱۹۰۸ء؁ کو سہام راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام احمد جی تھا۔محمد افضل(باقی صدیقی) نے راول پنڈی کے ڈینیز ہائی سکول سے میٹرک کیاجہاں آپ کے خالو قاضی عبدالمجید مدرس تھے۔اس سے قبل باقی صدیقی کے نانا قاضی فضل احمد بھی اس سکول میں پڑھاتے رہے۔باقی صدیقی نے میٹرک کے بعد اپنے ماموں چراغ دین کے ایما پرنارمل سکول گوجر خان سے جے وی کی پیشہ وارانہ ڈگری حاصل کی اور اس کے بعدآپ نے بطورمعلم عملی زندگی کا آغاز کیا۔عملی زندگی شروع ہوتے ہی آپ کی ادبی زندگی کا آغاز بھی ہوگیا تاہم آپ کے ماموں آپ کے اس ادبی مشغلے سے ناخوش تھے۔ آپ نے قیامِ پاکستان سے قبل چند انڈین فلموں میں ادا کاری بھی کی۔فلم ’’توپ کا بچہ‘‘میںکوتوال کا کردار اداکیااور فلم ’’مرد کا بچہ ‘‘ کے لئے گیت اور مکالمے لکھے۔ بعدازاں’’امپیریئل فلم کمپنی‘‘بمبئی میں نوکری بھی کرتے رہے تاہم ۱۹۴۰ء؁میںآپ نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج میںحوالدار کلرک بھرتی ہوئے۔ ۱۹۴۳ء؁ میں آرڈینس ڈپو میں ملازمت کی۔بعد ازاںآپ نے ملٹری انجینئرنگ سروسز(MES) میں(۱۹۴۵ء؁ تا ۱۹۴۹ء ؁ )بھی خدمات سرانجام دیں۔باقی صدیقی نے شعر گوئی کا آغاز ۱۹۲۸ء؁ میںپنجابی بیتوں سے کیااورغلام نبی کامل کی شاگردی اختیار کی۔ بعدازاںتلاشِ روز گارکے لئے پشاور کا رُخ کیا جہاں ان کی ملاقات محسن احسان،شوکت واسطی،احمد فرازاور رضا ہمدانی جیسے اہلِ علم سے ہوئی تو اُردو زبان میں بھی اشعار کہنا شروع کردیئے۔ لاہور میں آپ اپنے پھوپھی زاد حاجی منصب دار سے کبھی کبھار ملنے جاتے تو احسان دانش اور عبدالحمید عدم سے بھی ملتے۔عدم سے کبھی کبھار اصلاح بھی لے لیتے لیکن بعدازاں عدم صاحب سے کسی رنجش کی بنا پر قطعِ تعلق کر لیا۔باقی صدیقی کا پہلا شعری مجموعہ ’’جام ِجم‘‘ (نظمیں اور قطعات۔مکتبہ دانش، لاہور۔ ۱۹۴۴ء؁) کے نام سے احسان دانش نے لاہور سے شائع کیا جس میںعدم صاحب کا رنگ بہت نمایاں تھا۔ دوسرامجموعہ’’دارورسن‘‘ (نظمیں، غزلیں، قطعات۔ قومی کتب خانہ،راول پنڈی۔ ۱۹۵۱ء؁) حکیم عبدالغنی نے شائع کیا۔اس مجموعے میں باقی صدیقی کی مشہور نظم ’’غلامی سے آزادی تک‘‘بھی شامل ہے۔اس مجموعے میں باقی صدیقی نے ۱۹۴۷ء؁ سے ۱۹۵۱ء؁ تک کہی گئی نظموں اور غزلوں کو شامل کیا ہے۔ ’’زخمِ بہار‘‘ (غزلیات۔ مکتبہ کارواں، لاہور۔ ۱۹۶۱ء؁) کے نام سے آپ کا تیسرا مجموعہ چوہدری عبدالحمید نے شائع کیا۔ اس مجموعے میں ۱۹۵۰ء؁ سے ۱۹۵۹ء؁ کے دوران کہا گیا کلام شامل ہے۔ آپ کی زندگی میں شائع ہونے والا آپ کا چوتھا مجموعہ’’ کچے گھڑے‘‘ (پنجابی/پوٹھواری نظمیں۔مجلس شاہ حسین، لاہور۔ ۱۹۶۷ء؁) تھا۔ باقی صدیقی کی وفات کے بعدان کے دوستوں نے ادبی تحریک کے نام سے ایک کمیٹی بنائی جس نے باقی صدیقی کے غیر مطبوعہ کلام کو شائع کرانے کا ذمہ لیا۔آپ کی وفات کے بعد شائع ہونے والا پانچواں مجموعہ ’’کتنی دیر چراغ جلا‘‘اسی کمیٹی کے پلیٹ فارم سے۱۹۷۷؁ء میں شائع ہوا۔چھٹا مجموعہ’’ زادِ سفر‘‘ (نعتیں۔پنڈی ادبی سوسائٹی،راول پنڈی۔ ۱۹۸۴ء؁)کے نام سے شائع ہوا۔باقی صدیقی نے ۱۷ سال تک ریڈیو پر ملازمت کی اور دورانِ ملازمت ریڈیو کے لئے پوٹھواری اور اردو زبان میںڈرامے لکھے۔آپ نے پوٹھواری زبان میں گیت بھی لکھے۔آپ کے حلقۂ احباب میں عبدالعزیز فطرت،ایوب محسن،یوسف ظفر،رشید نثار،افضل پرویز،جمیل ملک،محبوب اختر،صادق نسیم اور شاید نصیر شامل تھے۔۱۹۴۹ء؁ سے ۱۹۵۳ء؁ تک آپ نے ادبی مجلے ’’راہِ منزل‘‘ کی ادارت بھی کی۔باقی صدیقی نے۸،جنوری ۱۹۷۲ء؁ کو ہفتے کے روزراولپنڈی میں وفات پائی اور آپ کی تدفین مسجد الغفار سے متّصل آبائی قبرستان قریشاں سہام راولپنڈی میں ہوئی۔آپ کی قبر کے کتبے پر یہ اشعار کندہ ہیں:۔ دیوانہ اپنے آپ سے تھا بے خبر تو کیا کانٹوں میں ایک راہ بنا کر چلا گیا باقی ابھی یہ کون تھا موجِ صبا کے ساتھ صحرا میں اک درخت لگا کر چلا گیا باقی صدیقی کبھی بھی کسی ادبی گروہ کا حصّہ نہ بنے۔آپ کسی ادبی تنظیم یا حلقے کے باقاعدہ ممبر نہ تھے۔آپ نے گروہ بندیوں سے الگ تھلگ رہ کر ہمیشہ ادب کی خدمت کی اور ساری زندگی ادب کی ترویج و اشاعت کے لئے کام کیا ۔باقی صدیقی کا ایک اپنا نظریۂ شعر تھا اور وہ نظریہ محبت ،خلوص اور رواداری پر مشتمل تھا۔ داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے لوگ اپنے دیئے جلانے لگے کچھ نہ پاکر بھی مطمئن ہیں ہم عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے ہم تک آئے نہ آئے موسمِ گل کچھ پرندے تو چہچہانے لگے ٭٭٭٭

BDunc
11-08-2017, 03:39 PM
Khoob

intelligent086
11-09-2017, 01:19 AM
http://i58.tinypic.com/21jt4lu.jpg