PDA

View Full Version : طلبہ سے توقعات



KhUsHi
04-07-2016, 10:32 AM
طلبہ سے توقعات

قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگایا اور ان میں آزادی کی تڑپ پیداکر کے انہیں اس قابل بنایا کہ وہ اپنے لئے ایک علیحدہ اسلامی مملکت حاصل کر سکیں۔ برصغیر کی سیاسی جدوجہد میں بے شمار رہنماؤں کے نام آتے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی رہنمائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی، لیکن عام لوگوں کا جو اعتماد قائد اعظم کو حاصل ہوا کوئی اور رہنما اسے حاصل نہ کر سکا اوران کی قیادت میں ہم آزادی کی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ۔
قائد اعظم کے افکار زندگی کے مختلف گوشوں میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ قائد اعظم کی 72سالہ زندگی بالخصوص طلبہ اورنوجوانوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ وہ جس طرح سیاست کے میدان میں ایک کامیاب سیاستدان اور مدبر کی حیثیت سے ابھرے اسی طرح زندگی کے ابتدائی دور میں ایک طالب علم کی حیثیت سے بھی ان کا کردار قوم کے طلبہ کے لئے قابل تقلید ہو سکتا ہے ۔
قائداعظم جب بہت چھوٹے تھے تو ان کی تعلیم کا آغاز حسب روایت مذہبی تعلیم سے ہوا اورانہیں ایک دینی مکتب میں بھیجا گیا، جہاں انہوں نے قرآن مجید اورچند دینی کتابیں پڑھیں اور پھر آپ کو آٹھ سال کی عمر میں محلے کے ایک سکول میں داخل کر دیا تھا جہاں ذریعہ تعلیم گجراتی تھا۔ وہاں چار سال میں آپ نے چار جماعتیں پاس کیں۔ 1887ء میں انہوں نے سندھ مدرسۃ الاسلام میں پہلی انگریزی کلاس میں داخلہ لیا۔ اس مدرسے کے صدر دروازے پر یہ مقولہ لکھا ہوا تھا: ’’سیکھنے کے لئے داخل ہو جاؤ اور خدمت کے لئے باہر نکلو‘‘۔آپ ہر روز جب سکول آتے تو مقولے پر نظر پڑتی اور آپ دل ہی دل میں اسے دہراتے اور پھر یہی مقولہ آپ کا نصب العین بن گیا اور عملی زندگی میں آپ نے بھی اس مقولے کو فراموش نہیں کیا۔

قائد اعظم کو حصول تعلیم کا شوق تھا۔ اگرچہ ابتداء میں ان کی تعلیمی زندگی میں کئی رکاوٹیں پیدا ہوئیں اور خاندانی حالات اور مشکلات کی وجہ سے انہیں کئی بار تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا لیکن انہوں نے اپنے مقصد کو فراموش نہیں کیا۔ انہوں نے تعلیم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ وہ رات گئے تک مطالعہ میں مصروف رہتے ۔ رات کو جب گھر کے افراد سو جاتے تو وہ لیمپ کے ساتھ گتے کا ٹکڑا کھڑا کر دیتے تاکہ اس کی روشنی سے افراد خانہ کی آنکھ نہ کھل جائے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ان کی ایک رشتہ دار خاتون مہمان تھیں۔ آدھی رات کے وقت ان کی آنکھ کھل گئی ، دیکھا کمرے میں روشنی ہے ۔ وہ وہاں آئیں تو انہوں نے محمد علی کو پڑھائی میں مصروف پایا۔ انہوں نے پوچھا محمد علی تم کیا کر رہے ہو؟ باجی! میں پڑھ رہا ہوں قائد اعظم نے جواب دیا ۔ خاتون نے پیار بھرے لہجے میں کہا: ’’اب سو جاؤ ، سب لوگ گہری نیند سو رہے ہیں۔ اتنی رات گئے تک نہ پڑھا کرو تمہاری صحت خراب ہو جائے گی ۔ ‘‘ ننھے محمد علی نے جواب دیا اگر میں پڑھوں گا نہیں تو بڑا آدمی کیسے بنوں گا ؟ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ رات کے رات گئے تک پڑھنے والا بچہ ایک دن واقعی بڑا آدمی بن گیا ۔
محمد علی جناح کی بلند حوصلگی اور خود اعتمادی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ جس طالب علم نے چھٹی جماعت بھی پاس نہ کی ہو وہ بیرسٹری کے داخلہ کے لئے لندن روانہ ہو جائے ۔ اس زمانے میں میٹرک ساتویں جماعت کو کہتے تھے ۔ دسویں جماعت بعد میں میٹرک کہلائی ۔ بیرسٹری کے داخلے کے لئے میٹرک کی شرط تھی۔ چنانچہ قائد اعظم نے ڈیڑھ سال میں اس کمی کو پورا کیا اور اپنی غیر معمولی ذہانت اور قابلیت کا جوہر دکھاتے ہوئے یہ امتحان پاس کر کے قانون کی تعلیم کے شہرہ آفاق ادارے ’’لنکنزان ‘‘ میں داخلہ لے لیا۔ وہ خود یہ کہتے ہیں کہ میں نے اس ادارے میں اس لئے داخلہ لینا پسند کیا کہ اس کے صدر دروازے پر دنیا کے عظیم قانون سازوں کی فہرست میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک بھی شامل تھا ۔ انہوں نے 5جون 1893ء کو اس ادارے میں داخلہ لیا اور 28اپریل 1896ء کو انہیں بار ایٹ لاء کی ڈگری مل گئی ۔
انگلستان سے واپسی کے بعد قائد اعظم زندگی کی عملی جدوجہد میں مصروف ہو گئے۔ جس کی ابتداء کٹھن تھی ، لیکن انہوں نے مستقل مزاجی سے حالات کا مقابلہ کیا اور اپنی مسلسل محنت اور لگن سے معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
قائد اعظم کی ابتدائی زندگی ہمارے نوجوانوں اور طالب علموں کے لئے ایک مشعل راہ ہے۔ اس سے انہیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ مقصد سے عشق ، مسلسل محنت اور مستقل مزاجی سے منزل تک پہنچا جاسکتا ہے ۔ نوجوان اور طالب علم طبقہ کسی ملک کی تعمیر و ترقی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے ۔ قوموں کے عروج وزوال کا انحصار انہی پر ہوتا ہے ۔ قائد اعظم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے برصغیر کے نوجوان مسلمانوں اور طلباء سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کررکھی تھیں۔ انہیں جب کسی تعلیمی ادارے سے خطاب کی دعوت ملتی تو وہ فوراً قبول کرلیتے اوروقت نکال کروہاں ضرور جاتے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، اسلامیہ کالج لاہور اور اسلامیہ کالج پشاور حریت پسند مسلمان طالب علموں کے مرکز تھے۔ قائد اعظم طلبہ اوراساتذہ کی دعوت پر ان کے تعلیمی اداروں میں جاتے اور طلبہ سے خطاب کرتے تھے۔ ان کے طلبہ سے خطابات تعلیم کے بارے میں ان کے نظریات اور مسلمان نوجوانوں سے ان کی توقعات آج بھی طلبہ اور نوجوانوں کی توجہ کامرکز بنی ہوئی ہیں۔
قائد اعظم کو طلبہ کی اہمیت کا احساس ہمیشہ سے تھا۔ ایسا نہیں ہواکہ انہوں نے تحریک میں کامیابی کے لئے طلبہ کو سیاست میں گھسیٹ لیا ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہو ں نے ہمیشہ طالب علموں کی تربیت پر زور دیا لیکن انہیں عملی سیاست میں حصہ لینے سے ہمیشہ روکا۔ 1913ء میں جب وہ برصغیر کے ایک سیاسی رہنما کی حیثیت سے انگلستان گئے تو وہاں ہندوستانی طلبہ کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
’’آپ ہندوستان اور انگلستان کے سیاسی مسائل میں اور زیادہ دلچسپی لیں لیکن عملی سیاست میں حصہ نہ لیں، بلکہ پہلے اپنی تعلیم مکمل کریں۔ آپ کو صرف سیاسی مفکر ہونا چاہیے تاکہ جب آپ عملی سیاست میں قدم رکھیں تو روشن خیال اور ترقی کے مبلغ کی حیثیت سے کام کریں۔‘‘
1942ء میں مسلم سٹوڈنٹس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ آپ اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کریں جن کے ذریعے طالب علمانہ زندگی ختم کر کے آپ عملی سیاست کی جدوجہد میں کامیاب ہوں۔ آپ اس وقت اپنے آپ کو تیار اور ضروری سازو سامان یعنی علم و آگہی اور توفیق عمل سے آراستہ کریں۔ آپ کی اولین اور اہم ترین ضرورت ہے مطالعہ اور صرف مطالعہ ۔
پاکستان بننے کے بعد اکتوبر 1947ء میں لاہور میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ نوجوان نظم و ضبط اور احترامِ قانون کو اپنے سامنے رکھیں۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے رجحانات کی ہر گز ہرگز حوصلہ افزائی نہ کریں۔ نظم و ضبط کے بغیر قومی ترقی کا کوئی امکان نہیں۔
21مارچ 1948ء کو ڈھاکہ کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے نوجوانوں سے کہا :’’میرے نوجوان دوستو! میں آپ کو خبردار کرتاہوں کہ اگر آپ کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار بن گئے تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہو گی ‘‘۔
قائد اعظم تحریک پاکستان میں طلبہ کے کردار کے معترف تھے۔ اکتوبر1947ء میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے وفد سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ’’پاکستان کو بالخصوص طلبہ پر فخر ہے جو آزمائش اور ضرورت کے وقت ہمیشہ صف اول میں ہوتے ہیں۔‘‘قائد اعظم نے ہمیشہ طلبہ کو عملی سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ بلوچستان مسلم فیڈریشن کوئٹہ کے زیر اہتمام اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے 18اکتوبر1945ء کو آپ نے کہا تھا: طلبہ سیاست کا ضرور مطالعہ کریں لیکن سیاست کو اپنی تعلیم کا ایک حصہ نہ بنائیں۔‘‘
1944ء میں ضلع جالندھر کے ایک طالب علم کے نام اپنے خط میں قائد اعظم نے لکھا تھا کہ مجھے خوشی ہے آپ سیاسی معاملات میں دلچسپی لے رہے ہیں مگر میں آپ کو سختی سے تنبیہ کرتاہوں کہ آپ اپنی تعلیم سے بے اعتنائی نہ برتیں۔ جیسا کہ میں نے اپنی اکثر تقریروں میں کہا ہے کہ آپ تعلیم کے زمانے میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ زمانہ آپ کے علم حاصل کرنے کا ہے اور اس کام میں آپ کو سخت محنت کرنا پڑے گی۔ آپ کی تعلیمی زندگی کے چند سال ضائع ہو گئے تو پھر کبھی نہیں آئیں گے ۔
قائد اعظم 1943ء میں کوئٹہ گئے تو وہاں انہیں تحفے میں تلوار پیش کی گئی۔ انہوں نے فرمایا: ’’ یہ تلوار جو آپ نے مجھے اس موقع پرعنایت کی ہے صرف حفاظت کے لئے اٹھے گی۔ لیکن فی الحال آپ کے لئے جو سب سے ضروری ہے وہ تعلیم ہے۔ علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتورہوتا ہے ۔ جائیے اور علم حاصل کیجئے‘‘۔
قائد اعظم اس بات کے خواہش مند تھے کہ طلبہ جدید علوم و فنون حاصل کریں اور ہمارا نظام تعلیم جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ 18اپریل 1948ء کو ایڈورڈ کالج پشاور کے طلبہ اور اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ آپ نظام تعلیم کو نئے سانچے میں ڈھال رہے ہیں ۔ مجھے خوشی ہے اور آپ کے کالج میں محض کلرک اور سرکاری ملازم بنانے کے بجائے وہ ضروری مضامین پڑھائے جا رہے ہیں جو ہمارے طلبہ کو اس قابل بنا دیں گے کہ وہ تجارت، صنعت و حرفت، بنکاری اور بیمہ کے کاروبار میں اپنا مقام حاصل کر سکیں گے ۔ ہمار ے کالجوں کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ زراعت ، علم حیوانات،انجینئرنگ ، طب اور دوسرے خصوصی میدانوں میں صف اول کے ماہرین پیدا کریں۔ عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے سلسلے میں ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے ان کا واحد حل بس یہی ہے ۔
اُسی زمانے میں اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا تھا:’’میرے نوجوان دوستو! آپ کو اپنی توجہ سائنس، تجارت، بنکاری، بیمہ ، صنعت و حرفت اور ٹیکنیکل تعلیم کی طرف مبذول کرنی چاہیے۔ ہماری زندگی میں جو زبردست اور بنیادی تبدیلی واقع ہوئی ہے اسے آپ کو پوری طرح سمجھنا چاہیے۔ اب آپ کو صرف سرکاری ملازمت پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے ، جیسا کہ آپ اس تبدیلی سے پہلے کیا کر تے تھے ۔ آپ کے سامنے اب نئے میدان، نئے راستے، نئی شاہراہیں کھل گئی ہیں ، جہاں لا تعداد مواقع ہیں۔‘‘
قائد اعظم کو طلبہ سے بے حد اُمیدیں وابستہ تھیں۔ اب یہ طلبہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے قائد کی ان توقعات کو پورا کریں۔ انہیں قائد کا یہ پیغام ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ’’آپ صرف محنت سے پاکستان کو دنیا کی عظیم ترین طاقتور اور ترقی یافتہ قوم بنا کر منزل مقصود تک پہنچا سکتے ہیں۔

muzafar ali
04-07-2016, 11:05 AM
boht khoob sharing mazid achi achi sharing ka intzar rahe ga share karne ka shukrya

intelligent086
04-08-2016, 02:51 AM
واہ
عمدہ اور خوب صور ت انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ

KhUsHi
04-09-2016, 04:34 AM
Buhat Shukria

BDunc
11-29-2017, 12:30 PM
KHoob