PDA

View Full Version : خط ِ کوفی



intelligent086
02-09-2016, 04:28 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14804_20214721.jpg.pagespeed.ic.OU7NtEkjcI .jpg

یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ عربی رسم الخط قبطیوں سے ماخوذ ہے اوریہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ عربی رسم الخط کی جنم بھومی سرزمین حیرہ اور انبار دو قریب قریب مقام تھے اور کوفہ ان دونوں شہروں کے قریب، طلوع اسلام کے بعد 17ھ میں بسایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قبل از اسلام یہ خط، خط عربی کہلاتا تھا۔ بعض روایات کے مطابق خط کوفی سے پہلے کاتبین مرمرہ بن مرہ، اسلم بن سدرہ اور عامر بن جدرہ کو کہا جاتا ہے۔ یہ وثوق سے کہنا کہ خط کوفی کا پہلا کا تب کون تھا، بڑامشکل ہے۔ جسٹس امیر علی کے بقول انبار کے ایک شخص مور امیر بن مراسہ نے یہ فن ایجاد کیا۔ یہ شخص انبار سے حیرہ آکر آباد ہو گیا اور یہاں سے ابو سفیان کے باپ حرب بن امیہ نے یہ فن سیکھا اور اسے مکہ میں آکر رواج دیا۔ چنانچہ حرب بنامیہ اور بشیر بن عبدالملک سے فن خطاطی سیکھنے والے ابتدائی ناموں میں حضرت عمرؓ بن خطاب، حضرت عثمان ؓ بن عفان، اور حضرت علیؓ بن ابی طالب شامل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ فن خطاطی کوقرآن حکیم نے عروج تک لے جانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ابتدائی دور اسلام میں جب قرآن کی تدوین کے بعد اسے عام مسلمانوں تک پہنچانے کا عمل شروع ہوا تو جنگی فتوحات نے اسلام کا دائرہ وسیع کر دیا تھا۔ قرآن کو پڑھنا، لکھنا اور اسے پھیلانا ایک مقدس فریقہ سمجھا گیا۔ چنانچہ جہاں ایک طرف قرآن پڑھنے میں حسن قرأت کمال کو پہنچی، وہیں قرآن کی خطاطی نے بھی کمال فن حاصل کیا۔ قرآن کی خطاطی میں پوری توانائیوں کا مظاہرہ کرنا اسی طرح فرض اور مقدس جانا گیا جس قدر خود کلام اللہ۔ چنانچہ اسی مقدس اور مذہبی عقیدت نے خطاطی میں جمالیاتی حسن کاری اور تخلیقی قوتوں کو پروان چڑھایا۔ 80ھ کے بعد فن خطاطی میں تزئین کا رویہ آرائش وزیبائش کی طرف مبذول ہوا اور 96ھ میں ایک یکتائے روزگار خطاط خالد بن الہیاج نے آرائشی فن خطاطی کا مظاہرہ کیا اور پہلی بار مسجد نبوی میں سورۃ شمس کی خطاطی کر کے مصورانہ خطاطی کی باقاعدہ بنیاد رکھی۔ کہتے ہیں خالد نے بڑے خوبصورت انداز میں قرآن کی کتابت بھی کی۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ان کے کمال فن کو دیکھا تو اپنے لیے ایک قرآن لکھنے کی فرمائش کی۔ مگر جب خالد آب زر سے قرآن کی کتابت کر کے لے گیا تو عمر بن عبدالعزیز اس حد تک متاثر ہوئے کہ انہوں نے قرآن پاک کو چوم کر واپس کر دیا کہ وہ خالد کی محنت کا معاوضہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ خالد نے جہاں قرآن مجید کی کتابت میں اپنا لوہا منوایا وہیں اشعار اور اخبار کی خطاطی میں بھی ایک ماہر استاد کی حیثیت رکھتا تھا اور اس نے اس میدان میں بڑے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ دورامیہ کی ابتدا میں قطبہ المحرز نے فن خطاطی میں رنگا رنگی اور حسن و زیبائش پیدا کی۔ ان کے متعلق یہ مشہور ہے کہ انہوں نے کوفی خط میں ایسا قلم بھی ایجاد کیا تھا جس کی شباہت خط نسخ کے قریب تھی۔ چنانچہ بعض علماء کا یہ خیال درست ہے کہ خط کوفی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا خط بھی پروان چڑھتا رہا جس کو مفکرین نے خط نسخ سے منسوب کیا ہے۔ بزم ہمدر در اولپنڈی کی ایک تقریب بعنوان ’’قلم ہماری تلوارہے، کتاب ہماری ڈھال ہے‘‘ میں جناب حکیم محمد سعید مرحوم جو ملک کے نامور طبیب ہی نہیں بلکہ ایک دانشور اور کتب خانوں کے سرپرست اعلیٰ بھی تھے، نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’قلم تلوار اور کتاب ڈھال ہے۔‘‘قلم ابدی سچائیاں لکھتا ہے۔ یہ تہذیب کی پہچان اور انسان کے ذہن کی زبان ہے۔ انہوں نے قلم کی روشنی کا دوسرا نام دیا نیز اس کو ایسی تلوار قرار دیا جو خیر کے لیے استعمال ہو۔ اسلام میں فن کتابت اور خطاطی کا رواج اورا س میں حسن و زیبائش کا اہتمام دراصل اسی روح کی غمازی کرتا ہے جس کو مذہب اسلام نے جہاد بالقلم قرار دیا ہے اور ایک عالم کے قلم کی سیاہی کو شہید کے خون پر فوقیت دی ہے۔ خط کوفی تقریباً پانچ سوسال تک کتبات اور قرآن نویسی میں مستعمل رہا۔ایک ماہر ڈیمنڈ کے مطابق قرآن مجید کا اس خط میں لکھا ہوا ایک نہایت ہی قدیم نسخہ قاہرہ کے کتاب خانے میں محفوظ ہے جس پر وقف کی تاریخ 168ھ( 784ء) لکھی ہوئی ہے۔ خطاطی مسلمانوں کا اہم تہذیبی ورثہ ہے جو قرآن مجید کے خط کوفی کی بدولت ملا ہے۔ اکثر محققین کا بیان ہے کہ ظہور اسلام کے وقت عرب میں خط کوفی رائج تھا اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت نبی کریمؐ نے جو تبلیغی مراسلے مختلف ممالک کے حکمرانوں کو ارسال فرمائے وہ خط کوفی میں تھے۔ ان میںسے بعض کے عکس دستیاب ہو چکے ہیں۔ خط کوفی کی وجہ یہ ہے کہ اسلام سے پہلے عراق کے دو مشہور شہر حیرہ اور انبار تھے جن کے قریب ہی ایک اور شہر کوفہ آباد ہوا۔ یہاں سروانی خط سے ایک مخصوص خط ابھرا، جو اس شہر کی نسبت سے خط کوفی کہلایا۔ حرب بن امیہ اسے کوفہ سے مکہ لے گیا جہاں یہ خط کوفی ہی کے نام سے رائج ہوا۔ عام روایت کے مطابق حضرت عثمانؓ نے اپنے دور خلافت میں قرآن مجید کو قریش کی لغت اور ان کے لب و لہجہ ( جس میں یہ آنحضرتؐ پر نازل ہوا تھا) کے مطابق تحریر کروایا اور اس کی نقول حکومتِ اسلامی کے تمام صوبوں کو ارسال کیں۔ خط کوفی کا ارتقاء دوسری صدی ہجری سے آٹھویں صد ی عیسوی تک قرآن مجید کے نسخے جس قدر لکھے گئے اور جو دنیا کے مختلف کتاب خانوں میں موجود ہیں، ان سے خط کوفی کی ارتقائی منزلوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ بعد میں خلیفہ عبدالملک بن مروان (65ھ/685ھ تا 86ھ/705ء) کے آغاز خلافت میں حجاج بن یوسف نے رسم الخط کی اصلاح کی کوششیں کی اور اعراب و اعجام و زیادت کا اضافہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ خلافت اسلام میں بہت توسیع ہو چکی تھی۔ مختلف ممالک کے لوگ، جن کی مادری زبان عربی نہ تھی، اسلام اختیار کر رہے تھے اور کچھ دوسری قوموں کے ساتھ لسانی روابط قائم ہو رہے تھے، اس لیے قرآن مجید کی صحیح قرأت اور مفہوم واضح کرنے کے لیے ضروری ہوا کہ صحیفہ مقدس میں نقاط اور اعراب و زیادت شامل کیے جائیں۔ عرب میں فن کتابت کی ترویج سے صحابہ کرامؓ، تبع تابعین قرآن مجید کی کتابت میں حسن اور جدت پیدا کرنے کے قابل ہو گئے۔ چنانچہ صحیفۂ مقدس سے ان کی عقیدت و شیفتگی کی وجہ سے رعنائی اور پختگی پیدا ہوتی گئی اور جذبۂ مسابقت نے رسم الخط کو حسین سے حسین تر بنا دیا۔ عہد عباسی کے دور کے قرآن مجید کے نسخے جھلیوں پر لکھے ہوئے محفوظ ہیں۔ یہ جھلیاں یا تو قدرتی رنگ کی ہیں یا آسمانی یا قرمزی، متن خط کوفی میں سیاہی یا طلائی روشنائی سے لکھا ہے۔ مصر، شام و عراق میں اس قسم کا خط کوئی تیسری چوتھی صدی ہجری؍ نویں دسویں صدی عیسوی کے عرصے تک رائج رہا۔ خط کوفی کم و بیش پانچ سو سال تک قرآن مجید کی کتابت کے لیے مستعمل رہا۔ (’’کُتب اور کُتب خانوں کی تاریخ‘‘ سے انتخاب) ٭…٭…٭

BDunc
10-26-2017, 03:41 PM
V good

CaLmInG MeLoDy
10-27-2017, 08:24 AM
Hmmm. Bohot maloomaat thread. Thnks for sharing

intelligent086
10-28-2017, 12:28 AM
بہت بہت شکریہ