PDA

View Full Version : باب:جب کسی عالم سے پوچھا جائے کہ لوگوں میں ز&#



intelligent086
01-27-2016, 02:40 AM
باب:جب کسی عالم سے پوچھا جائے کہ لوگوں میں زیادہ جاننے والا کون ہے۔۔صحیح بخاری



بَاب مَا يُسْتَحَبُّ لِلْعَالِمِ إِذَا سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَيَكِلُ الْعِلْمَ إِلَى اللہِ
جب کسی عالم سے یہ پوچھا جائے کہ لوگوں میں کون سب سے زیادہ علم رکھتا ہے تو مستحب یہ ہے کہ اللہ کے حوالہ کردے۔ (یعنی یہ کہدے کہ اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے)
جلد نمبر ۱ / پہلا پارہ / حدیث نمبر ۱۲۳ / حدیث مرفوع
۱۲۳۔حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدٍ المْسْندِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرٌو قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَکَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَی لَيْسَ بِمُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنَّمَا هُوَ مُوسَی آخَرُ فَقَالَ کَذَبَ عَدُوُّ اللہِ حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَامَ مُوسَی النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا أَعْلَمُ فَعَتَبَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَأَوْحَی اللہُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْکَ قَالَ يَا رَبِّ وَکَيْفَ بِهِ فَقِيلَ لَهُ احْمِلْ حُوتًا فِي مِکْتَلٍ فَإِذَا فَقَدْتَهُ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ وَحَمَلَا حُوتًا فِي مِکْتَلٍ حَتَّی کَانَا عِنْدَ الصَّخْرَةِ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا وَنَامَا فَانْسَلَّ الْحُوتُ مِنْ الْمِکْتَلِ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا وَکَانَ لِمُوسَی وَفَتَاهُ عَجَبًا فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ مُوسَی لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا وَلَمْ يَجِدْ مُوسَی مَسًّا مِنْ النَّصَبِ حَتَّی جَاوَزَ الْمَکَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ قَالَ مُوسَی ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَی آثَارِهِمَا قَصَصًا فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَی الصَّخْرَةِ إِذَا رَجُلٌ مُسَجًّی بِثَوْبٍ أَوْ قَالَ تَسَجَّی بِثَوْبِهِ فَسَلَّمَ مُوسَی فَقَالَ الْخَضِرُ وَأَنَّی بِأَرْضِکَ السَّلَامُ فَقَالَ أَنَا مُوسَی فَقَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ هَلْ أَتَّبِعُکَ عَلَی أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا يَا مُوسَی إِنِّي عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللہِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ وَأَنْتَ عَلَی عِلْمٍ عَلَّمَکُمُ اللهُ لَا أَعْلَمُهُ قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللہُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَکَ أَمْرًا فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَی سَاحِلِ الْبَحْرِ لَيْسَ لَهُمَا سَفِينَةٌ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَکَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا فَعُرِفَ الْخَضِرُ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ فَجَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَی حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ الْخَضِرُ يَا مُوسَی مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُکَ مِنْ عِلْمِ اللہِ تَعَالیَ إِلَّا کَنَقْرَةِ هَذَا الْعُصْفُورِ فِي الْبَحْرِ فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَی لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ فَقَالَ مُوسَی قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَی سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا قَالَ فَکَانَتْ الْأُولَی مِنْ مُوسَی نِسْيَانًا فَانْطَلَقَا فَإِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ مِنْ أَعْلَاهُ فَاقْتَلَعَ رَأْسَهُ بِيَدِهِ فَقَالَ مُوسَی أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ وَهَذَا أَوْکَدُ فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ فَأَقَامَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَی لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِکَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْحَمُ اللہُ مُوسَی لَوَدِدْنَا لَوْ صَبَرَ حَتَّی يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَاقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَابِهِ عَلِيُّ بنُ خَشْرَمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بنُ عُيَيْنَةَ بِطُوْلِهِ۔
۱۲۳۔عبداللہ بن محمد السندی، سفیان، عمرو، سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ نوف بکالی کہتے ہیں کہ موسی جو خضر سے ہم نشین ہوئے تھے، بنی اسرائیل کے موسی نہیں تھے، وہ کوئی دوسرے موسی ہیں، تو ابن عباس نے کہا کہ (وہ) خدا کا دشمن جھوٹ بولتا ہے، ہم سے ابی بن کعب نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی کہ موسی (ایک دن) بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ جاننے والا کون ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ زیادہ جاننے والا میں ہوں، لہذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انہوں نے علم کو خدا کے حوالے کیوں نہ کردیا، پھر اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے وہ تم سے زیادہ جاننے والا ہے، موسی کہنے لگے اے میرے پروردگار! میری ان سے کیسے ملاقات ہوگی؟ تو ان سے کہا گیا کہ مچھلی کو زنبیل میں رکھو اور مجمع البحرین کی طرف چل پڑو، جب اس مچھلی کو نہ پاؤ تو سمجھ لینا کہ وہ بندہ وہیں ہے، موسی علیہ السلام چلے اور اپنے ہمراہ اپنے خادم یوشع بن نون علیہ السلام کو بھی لے لیا، اور ان دونوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی، یہاں تک کہ جب پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں نے اپنے سر (اس پر) رکھ لئے اور سوگئے، مچھلی زنبیل سے نکل گئی اور دریا میں اس نے راستہ بنا لیا، بعد میں (مچھلی کے زندہ ہو جانے سے) موسی اور ان کے خادم کو تعجب ہوا، پھر وہ دونوں باقی رات اور ایک دن چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو موسی علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ بے شک ہم نے اپنے اس سفر سے تکلیف اٹھائی اور موسی جب تک کہ اس جگہ سے آگے نہیں گئے، جس کا حکم دیا گیا تھا، اس وقت تک انہوں نے کچھ تکلیف محسوس نہیں کی، ان کے خادم نے دیکھا تو مچھلی غائب تھی، تب انہوں نے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا جب ہم پتھر کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی کا واقعہ کہنا بھول گیا، موسی نے کہا یہی وہ (مقام) ہے، جس کی تلاش کرتے تھے، پھر وہ دونوں اپنے قدموں پر لوٹ گئے، پس جب اس پتھر تک پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی کپڑا اوڑھے ہوئے یا یہ کہا کہ اس نے کپڑا اوڑھ لیا تھا، بیٹھا ہوا ہے موسی نے سلام کیا تو خضر علیہ السلام نے کہا اس مقام میں سلام کہاں ؟ موسی نے کہا میں (یہاں کا رہنے والا نہیں ہوں میں) موسی ٰہوں، خضر علیہ السلام نے کہا بنی اسرائیل کے موسی؟، انہوں نے کہا ہاں، موسی نے کہا کیا میں اس امید پر تمہارے ہمراہ رہوں کہ جو کچھ ہدایت تمہیں سکھائی گئی ہے، مجھے بھی سکھلا دو، انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ رہ کر میری باتوں پر ہرگز صبر نہ کر سکو گے، اے موسی! میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر (حاوی) ہوں کہ تم اسے نہیں جانتے وہ خدا نے مجھے سکھایا ہے اور تم ایسے علم پر حاوی ہو جو خدا نے تمہیں تلقین کیا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا، موسی نے کہا انشاء اللہ! تم مجھے صبر کرنے والا پاؤ گے، اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا، پھر وہ دونوں دریا کے کنارے کنارے چلے ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی، اتنے میں ایک کشتی ان کے پاس (سے ہو کر) گذری، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو، خضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہچان لئے گئے اور کشتی والوں نے انہیں بے اجرت بٹھا لیا پھر (اسی اثنا میں) ایک چڑیا آئی، اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی اور اس نے ایک چونچ یا دو چونچیں دریا میں ماریں، خضر علیہ السلام بولے کہ اے موسی میرے علم اور تمہارے علم نے خدا کے علم سے اس چڑیا کی چونچ کی بقدر بھی کم نہیں کیا ہے، پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ کی طرف قصد کیا اور اسے اکھیڑ ڈالا، موسی کہنے لگے، ان لوگوں نے ہم کو بے کرایہ (لئے ہوئے) بٹھا لیا اور تم نے ان کی کشتی کے ساتھ برائی کا) قصد کیا، اسے توڑ دیا، تاکہ اسکے لوگوں کو غرق کر دو، خضر علیہ السلام نے کہا کیا میں نے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر صبر نہ کر سکو گے، موسی نے کہا جو میں بھول گیا، اس کا مواخدہ مجھ سے نہ کرو اور میرے کام میں مجھ پر تنگی نہ کرو، راوی کہتا ہے کہ پہلی بار موسی سے بھول کر یہ بات اعتراض کی ہوگئی، پھر وہ دونوں کشتی سے اتر کر چلے، تو ایک لڑکا ملا جو اور لڑکوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا، خضر علیہ السلام اس کا سراوپر سے پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ سے اس کو اکھیڑ ڈالا، موسی نے کہا کہ ایک بے گناہ بچے کو بے وجہ قتل کردیا، خضر علیہ السلام نے کہا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر ہرگز صبر نہ کر سکو گے، پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں کے پاس پہنچے، وہاں کے رہنے والوں سے انہوں نے کھانا مانگا، ان لوگوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کر دیا، پھر وہاں ایک دیوار ایسی دیکھی جو گرنے کے قریب تھی، خضر نے اپنے ہاتھ سے اس کو سہارا دیا اور اس کو درست کردیا، موسی نے ان سے کہا کہ اگر تم چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے، خضر بولے کہ (بس اب) یہی ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں تک بیان فرما کر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی موسی پر رحم کرے، ہم یہ چاہتے تھے کہ کاش موسی صبر کرتے تو اللہ تعالی ان کا (پورا) قصہ ہم سے بیان فرماتا۔