PDA

View Full Version : ایڈیسن کی داستان ِ زندگی



intelligent086
01-25-2016, 05:46 AM
ایڈیسن کی داستان ِ زندگی

http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14690_87722567.jpg.pagespeed.ic.6_8LJ-yUHC.jpg


قریباً چھے مہینے تک ایڈیسن کی ماں اسے گھر پر پڑھاتی رہی۔کبھی کبھی ال کھیل کود میں مصروف ہوتا اور مسز ایڈیسن دروازے پر آ کر اپنی میٹھی اور صاف آواز میں پکارتی:’’ال، اے ال، بیٹے پڑھنے کا وقت ہو گیا‘‘یہ سنتے ہی ال تمام کھیل کود چھوڑ کر اپنی ماں سے پڑھنے کے لیے چلا جاتا۔اپنی ماں کی شاگردی میں رہ کر ال نے بہت جلد روانی سے پڑھنا سیکھ لیا۔ اس کے بعد اس کے باپ نے بھی اس کی تعلیم میں ماں کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اس نے ال سے وعدہ کیا کہ اگر وہ کوئی اچھی کتاب پڑھے گا اور اس کا زبانی خلاصہ بیان کر دے گا، تو اسے ہر کتاب کے لیے پچیس سنٹ انعام ملے گا۔ ال نے بہت جلد ہر کتاب کا صحیح اور صاف خلاصہ بیان کرنا سیکھ لیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اسے اپنی ضرورت کے لیے جیب خرچ بھی ملتا رہتا تھا۔ ال نے اگرچہ سکول باقاعدگی کے ساتھ صرف تین مہینے پڑھا، مگر اپنے والدین کی مشترکہ کوشش سے اس نے بہت عمدہ تعلیم حاصل کر لی۔ ال کا بڑا بھائی ولیم پٹ ایڈیسن شعور کو پہنچ چکا تھا اور اس کی عمر پچیس سال کے لگ بھگ تھی۔ اس نے پورٹ ہیورون میں کرائے کے گھوڑوں کے لیے ایک اصطبل کھول لیا تھا اور خود اسے چلاتا تھا۔ وہ دن بھر گھر سے باہر رہتا تھا۔ ال کی بہن ٹینی کی شادی کئی قبل پہلے سیموئل بیلی سے ہو چکی تھی اور وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ گھر میں ال کا کوئی ہم عمر بھائی بہن نہیں تھا، نہ اس طرح کے دوست تھے ،جیسے سکول میں تعلیم کی وجہ سے عام طور پر بچوں کو مل جاتے ہیں، مگر اس نے کبھی تنہائی محسوس نہیں کی۔ فورٹ گریٹیو میں فوجی رہتے تھے۔ اندھیری راتوں میں وہ اپنے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکالتا ،جس پر سنتری خطرے کا بگل بجا دیتا تھا۔ سنتری کا شور سن کر پہرے دار اور اس کے ساتھی رات کی تاریکی میں بھاگنا شروع کر دیتے۔ مسز ایڈیسن کو جب کبھی ان شوخیوں کی خبر ہوتی تو وہ بڑے سے گھڑیال کے پیچھے رکھی ہوئی چھڑی نکالتی اور اپنے شوخ بچے کی تھوڑی سی مرمت کر دیتی۔ لکڑی لانے، پانی بھرنے،پیغام رسانی اور اوپر کے دوسرے کاموں کے لیے مسز ایڈیسن کے یہاں ایک پندرہ سالہ ولندیزی لڑکا مائیکل اوٹس نوکر تھا۔ اگرچہ وہ ال سے چھ سال بڑا تھا، مگر وہ اس کا جگری دوست بن گیا تھا۔ ال اور مائک جنگل میں ایک ساتھ چھان بین کے لیے جاتے، چڑیوں کے انڈے تلاش کرتے، ہیورون جھیل میں تیرتے اور اس کے کنارے سے گھونگے اور سیپیاں جمع کرتے۔ ال اپنی ماں کو روزانہ سبق سناتا اور ہفتے میں دو تین مرتبہ نئی کتابوں کے زبانی خلاصے بیان کر کے پچیس سنٹ فی کتاب انعام حاصل کر لیتا تھا۔ (عظیم موجد ایڈیسن کی داستانِ زندگی، مصنف:جی- گلینوڈ-کلارک ) ٭…٭…٭

Moona
02-10-2016, 11:39 PM
Baqi kahan hai??
intelligent086 thanks 4 informative sharing

intelligent086
02-11-2016, 03:52 AM
Baqi kahan hai??
@intelligent086 (http://www.urdutehzeb.com/member.php?u=61) thanks 4 informative sharing

مکمل ہے لیکن بکھرا ہوا ہے خیال تو یہ تھا کہ اسکا ایک ہی میگا تھریڈ بنا دوں لیکن فرصت ہی نہیں ملی دیکھ لینا مل جائے گا

http://www.mobopk.com/images/hanks4comments.gif

Moona
02-11-2016, 10:37 PM
مکمل ہے لیکن بکھرا ہوا ہے خیال تو یہ تھا کہ اسکا ایک ہی میگا تھریڈ بنا دوں لیکن فرصت ہی نہیں ملی دیکھ لینا مل جائے گا

http://www.mobopk.com/images/hanks4comments.gif


intelligent086 bhai Mega thread better rehna tha ab b ho sakta hai

intelligent086
02-12-2016, 03:23 AM
@intelligent086 (http://www.urdutehzeb.com/member.php?u=61) bhai Mega thread better rehna tha ab b ho sakta hai

انہیں اکٹھا کر لو باقی کام میں کر لوں گا

Moona
02-12-2016, 10:52 PM
انہیں اکٹھا کر لو باقی کام میں کر لوں گا
Difficult :|

intelligent086
02-13-2016, 02:26 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14821_37577278.jpg.pagespeed.ic.izldSaKkvt .jpg


فروری 1859ء میں اس کی عمر بارہ سال ہو گئی اور اس نے ملازمت کی تلاش شروع کر دی تا کہ اسے باقاعدہ آمدنی ہو سکے۔ لہٰذااس کے دوستوں نے جو ریلوے میں ملازم تھے، اسے رائے دی کہ وہ شکاگو ڈٹرائٹ اینڈ کینیڈا گرانڈ ٹرنک ریلوے کی اس ٹرین پر اخبار اور پھل بیچا کرے جو ہر روز صبح سات بجے پورٹ ہیورون سے ڈٹرائٹ روانہ ہوتی تھی اور رات کو ساڑھے نو بجے واپس آتی تھی۔ ان دنوں ٹرینوں میں ڈائننگ کار نہیں ہوتی تھی اور لڑکا پورٹ ہیورون اور ڈٹرائٹ کے درمیان تریسٹھ میل کے سفر میں مٹھائی، مکئی کی کھیلیں، پھل اور سینڈوچ بیچ کر کافی منافع کما سکتا تھا۔ ایڈیسن(ال) کو روپے کی شدید ضرورت تھی۔ اگر اس کے پاس روپیہ ہو جائے تو وہ ڈٹرائٹ کے کاریگروں سے ایسے تمام آلات اور سامان تیار کرا سکتا تھا، جو اس نے اپنے سائنسی کام کے لیے خود وضع کیے تھے۔ وہ اپنے کبھی نہ ختم نہ ہونے والے تجربوں کے لیے نئی اور مہنگی کیمیاوی اشیاء بھی خرید سکتا تھا۔گرانڈ ٹرنک ریلوے پر اخبار اور کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنے کے بارے میں ال نے اپنے والدین سے مشورہ کیا۔ اس کے باپ اور ماں دونوں نے اعتراض کیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس کام کے لیے اس کی عمر ابھی بہت کم تھی۔ اگر وہ سات بجے صبح سے ساڑھے نو بجے رات تک غائب رہے گا، تو اس کی تعلیم میں خلل پڑے گا اور اس نئے کاروبار سے اس کے تحقیقاتی کام میں مدد کی جگہ الٹا نقصان ہو گا۔ اس طرح وہ تجربہ گاہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دے سکے گا۔ال کے پاس اپنے والدین کے ہر اعتراض کا معقول جواب تھا۔ اس نے کہا کہ میں کافی بڑا ہو چکا ہوں۔ میرا وزن نوے پائونڈ کے قریب ہے۔ اس کام میں زیادہ محنت اور دوڑ دھوپ کی ضرورت نہیں ۔ گاڑی پر جانے اور واپس آنے کے دوران مجھے جتنا وقت ملے گا، میں اس میں مطالعہ اور آرام دونوں کر سکتا ہوں۔ بارہ سال کا لڑکا یقیناً اس قابل ہوتا ہے کہ وہ کھانے پینے کی چیزیں ،رسالے اور کتابیں بیچنے کا سیدھا سادہ کام کر سکے۔ میری تعلیم کا بھی کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ پورٹ ہیورون میں جتنی کتابیں مل سکتیں تھیں ،وہ سب میں پڑھ چکا ہوں۔ مجھے ڈٹرائٹ میں ہر روز چھ گھنٹے کی فرصت ہوگی۔ میں وہاں کی پبلک لائبریری میں ایسی کتابیں بھی پڑھ سکتا ہوں، جو میرے اپنے شہر میں نہیں مل سکتیں۔ میں رات کو دو ایک گھنٹے اپنی تجربہ گاہ میں بھی گزار سکتا ہوں اور سوئوں گا اور رہوں گا تو میں گھر ہی میں۔ ال نے یہ جواب اتنے شوق اور اس قدرمتانت سے دیا کہ اس سے متاثر ہو کر اس کے ماں باپ نے اپنے اعتراضات واپس لے لیے۔اپنا نیا کام شروع کرنے کے لیے ایک دن صبح سویرے پورٹ ہیورون کے سٹیشن پر پہنچا۔ اس کے پاس سینڈوچ، مٹھائیاں، پھلوں اور مکئی کی کھیلوں کے ایک بڑے سے بنڈل کے علاوہ ’’یوتھس کمپینین۔‘‘ ’’ہارپرزمنتھلی میگزین‘‘ اور دوسرے رسالوں کا بہت بڑا پیکٹ بھی تھا۔ سات بجنے سے ذرا پہلے گاڑی سٹیشن کے اندر داخل ہوئی۔ لوہے کے انجن میں سرخ رنگ کے بڑے بڑے پہیے اور گزوں لمبی پیتل کی چمکدار پٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ خوش نما انجن کے پیچھے شوخ ذرد رنگ کی خوب صورت مسافر گاڑیاں تھیں۔ہر ڈبے کے باہر کی طرف کھڑکیوں کی قطار کے نیچے سرخ، سبز اور نیلے رنگ میں نیاگرافالز، گریٹ لیک اور دوسرے حسین مناظر کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ (عظیم موجد ایڈیسن کی داستانِ زندگی) ٭…٭…٭

Moona
02-13-2016, 10:07 PM
Nice ye hui na baat

intelligent086
02-14-2016, 03:48 AM
Nice ye hui na baat


بہت بہت شکریہ