PDA

View Full Version : احساسِ مُروت کو کُچل دیتے ہیں آلات



intelligent086
01-24-2016, 05:34 AM
احساسِ مُروت کو کُچل دیتے ہیں آلات

http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14676_67231181.jpg.pagespeed.ic.p45oPPsXuF .jpg


نجف زہرا
امریکہ میں رواج ہے کہ جب تک بچہ اپنے ہم عُمر یا خود سے بڑے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کر ے تو اُسے چور یا مُجرم تصور کیا جاتا ہے۔انڈونیشیا میں اگر بچہ بڑوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے تو اِسے بد تمیزی کی علامت سمجھاجاتا ہے۔مگر ہمارے مشرق کا دستور کیا ہے؟ہمارے ہاں ادب وآداب کی کیا تعریف ہے؟کوئی بڑا ہم سے مُخاطب ہو،کوئی بات سمجھا رہا ہو اور ایسے میں موبائل فون بج اُٹھنے پرہم بڑوں کی بات کو نظر انداز کر کے اُنہیں ’ایک منٹ ہولڈ کریں‘کا اشارہ کرکے دوست سے بات کرنے میں مشغول ہو جائیں ،ہمیں یہ آداب کب سکھائے گئے تھے ۔مائیں کھانے کا پوچھ رہی ہوں اور صرف اِس لیے اُن کے چار بار پو چھنے پر ایک بار سر ہلا کر جواب دے دیا جائے کیونکہ آپ کسی دوست کو ایس ایم ایس کرنے یا فیس بُک پرکمینٹ کرنے میں مصروف ہیں ،یہ ہماری تہذیب کا حصہ تو نہیں تھا۔گھر والوں کے ساتھ دورانِ سفر اگر آپ ہلکی پھُلکی گُفتگوپر ہیڈ فون لگا کرشیشے سے باہر دیکھتے ہوئے گا نے سُننے کو ترجیح دیتے ہیں تو ہمارے ہاں اِسے کس چیز کی علامت سمجھا جائے؟فیملی کے ساتھ کہیں ہوٹلنگ کرنے جائیں اور ہمارے لیے اُس بہترین فیملی ٹائم سے زیادہ اہم فیس بُک پر سٹیٹس لگا کر دوستوں کو مُطلع کرنا ہے کہ میں فلاں ہوٹل میں موجود ہوں ،ہماری روایات تو ایسی نہ تھیں۔عجائب گھروں یا تاریخی مقامات پر جا کر اُن چیزوں اُن جگہوں کے بارے میں جاننے، اپنی تاریخ کے بارے میں اہم معلومات حاصل کرنے کی بجائے ہم اُن کے ساتھ ’سیلفی‘لینے کو زیادہ بہتر سمجھیں تو یہ کیسے پڑھے لکھے ، تعلیم یافتہ مُعاشرے کی عکا سی کرتا ہے؟معاشرے شہریوں کے محتاج ہوتے ہیں اور بہترین معاشروں کے قیام میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے والے شہری یقیناً بہترین مائیں ہی پیدا کر سکتی ہیں۔ ایک سینیئر ٹی وی آرٹسٹ نے اپنے انٹر ویو میں کہا کہ مُجھے میرے بزرگ بتایا کرتے تھے ،جب مائیں مر جاتی ہیں تو آسمان پر ستارہ بن کر چمکتی ہیں ۔ایک دِن کھُلے آسمان کے نیچے لیٹے ہوئے میں نے اپنے بزُرگ سے پوچھا کہ آسمان پر ستاروں کی تعداد اتنی کم کیوں ہے؟جِس پراُنہوں نے جوب دیاکہ اب ویسی ما ئوں کی تعداد بھی تو کم ہے جو ستاروں کی طرح چمک سکیں ۔ہم بچپن سے سُنتے آئے ہیں کہ ماں کی گود اولاد کی پہلی درسگاہ ہے۔مگر اُس درسگاہ سے بچہ کیا سیکھے گا جِسے اپنی بات کے جواب کے لیے گھنٹوں ماں کی لمبی کالز بند ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔وہ مائیں کیا اپنے بچوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل ،اُن کی عادات اور اُن کی فطرت سے آگاہ ہوں گی جِن کے لیے اپنے بچوں کو وقت دینے اُن سے بات چیت کرنے سے زیادہ ضروری فیس بُک،ٹویٹر اور واٹس ایپ پر ایکٹو رہنا ہے۔وہ مائیں کیسے اپنی بچوں کی بہترین پرورش کر پائیں گی جن کی توجہ کا مرکز اپنی اولاد کی حرکات وسکنات نہیں بلکہ اپنی سوشل میڈیا فرینڈز ہیں۔ بلاشبہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہماری زندگیوں میں اتنی ہی اہمیت اختیار کر چکا ہے جتنا کہ زندہ رہنے کے لیے پانی ضروری ہے،مگر خدارا ضرورت کو ضرورت کی حد تک ہی رہنے دیںاسے اپنی کمزوری نہ بنائیں۔کیونکہ نشہ چاہے کسی بھی چیز کا ہو تباہی کا سبب بنتا ہے۔ہماری اولین ترجیحات ہماری اقدار،ہماری تہذیب ،ہمارا گھر اور ہماری اولاد ہونی چاہیئں،کیونکہ ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات ٭…٭…٭

BDunc
11-15-2017, 05:22 PM
KHoob

intelligent086
11-18-2017, 01:45 AM
رائے کا شکریہ

BDunc
11-18-2017, 05:01 PM
Welcome