PDA

View Full Version : ایک قطرے کی طلب ہو تو سمندر سوچنا



intelligent086
01-23-2016, 05:08 AM
ایک قطرے کی طلب ہو تو سمندر سوچنا

http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14670_21062130.jpg.pagespeed.ic.5RXybOnV7i .jpg


عبدالحفیظ ظفر
بے شمار لوگ اس دنیا میں ایسے بھی ہیں جنہیں کامرانیاں سمیٹنے کے لیے بہت زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہر قدم پر قسمت کی دیوی ان کا ساتھ دے رہی ہوتی ہے۔ کچھ ذہین و فطین افراد اس لئے پیچھے رہ جاتے ہیں کہ حالات کا جبر ان کی زندگی کے شجر کو برگ و بار سے محروم کیے رکھتا ہے۔ لیکن ان سب کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نامساعد حالات کے باوجود کامل یکسوئی اور پیہم جدوجہد کی بدولت وہ مقام حاصل کر لیتے ہیں جس کا ابتداء میں وہ صرف تصور کر سکتے ہیں۔ سماجی اور معاشی ناہمواریوں سے بھرپور کسی بھی معاشرے میں ایک عام آدمی کا غیر معمولی حیثیت حاصل کر لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ طاقتور لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جانا صرف ان لوگوں کا کام ہے جو انتہائی مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں اور عزم و ہمت کی چٹان ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بہرحال ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو سیلف میڈ کہلاتے ہیں اور جنہوں نے مسلسل محنت اور بلند حوصلگی کی بدولت قابل رشک مقام حاصل کیا۔ اعزاز احمد آذر کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ 25 دسمبر 1942ء کو بٹالہ (بھارت) میں پیدا ہونے والے اعزاز احمد آذر نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ‘ شیخوپورہ‘ فاروق آباد اور شاہدرہ میں حاصل کی۔ وہ لاہور میں ایمپریس روڈ پر واقع ایک سکول میں پڑھاتے بھی رہے۔ انہوں نے تین ایم اے کر رکھے تھے۔ اس کے علاوہ ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 1972ء سے 1974ء تک وہ وکالت کرتے رہے اور معروف قانون دان رفیق احمد باجوہ اور مشتاق بٹ کے اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کیا۔ 1974ء میں ان کا تقرر پاکستان نیشنل سینٹر سیالکوٹ میں ریذیڈنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ہو گیا‘ یہ محکمہ وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت تھا۔ اس محکمے میں کشور ناہید اور احمد فراز بھی کام کرتے رہے۔ اعزاز احمد آذر ریٹائرمنٹ تک اسی محکمے سے وابستہ رہے۔ اس دوران انہوں نے سیالکوٹ‘ ملتان‘ حیدرآباد‘ لاہور‘ بہاولپور اور گوجرانوالہ میں اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ اعزاز احمد آذر کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب وہ مایوسی کے سمندر میں ڈوب گئے تھے۔ ایک وقت میں مشہور شاعر قیوم نظر پاکستان نیشنل سینٹر کے ڈائریکٹر تھے۔ اس وقت اس محکمے کا نام کچھ اور تھا۔ معاشی تنگ دستی کے باعث انہوں نے اس محکمے میں جونیئر کلرک کی نوکری کے لیے درخواست دی۔ قیوم نظر نے ان کی تعلیمی قابلیت دیکھ کر ان سے کہا کہ یہ نوکری ان کے لیے نہیں اور پھر یہ بھی کہا کہ اس نوکری کے لیے ایک شخص کو رکھ لیا گیا ہے۔ اعزاز احمد آذر اشکبار آنکھوں سے گھر واپس آ گئے۔ لیکن قدرت کا کمال دیکھئے کہ بعد میں اسی محکمے میں انہیں ریذیڈنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے رکھ لیا گیا۔ اعزاز احمد آذر دس کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کتابوں میں اردو اور پنجابی کی شاعری کی کتابیں بھی شامل ہیں اور نثر کی کتابیں بھی۔ ان کی اردو غزلوں کا مجموعہ ’’دھیان کی سیڑھیاں‘‘، ’’آنچل پہ لکھی غزل‘‘ اور پنجابی شاعری کا مجموعہ ’’موسم سی برساتاں دا‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ ان کی ایک نظم ’’نویکلا‘‘ منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ اس میں سورۃ یوسف کا جمالیاتی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے لیے ان کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔ وہ بہت حساس طبیعت کے مالک تھے اور ان کا دل انسانیت کے درد سے معمور تھا۔ اعزاز احمد آذر نے بچوں کیلئے بھی نظمیں لکھیں جنہیں بہت پذیرائی ملی۔ اس حوالے سے ان کا شعری مجموعہ ’’تتلی، پھول اور چاند‘‘ بہت مقبول ہوا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ کثیرالجہات شخصیت تھے تو غلط نہ ہو گا۔ وہ اعلیٰ درجے کے کمپیئر تھے اور اس حوالے سے بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ بے مثل شاعر تنویر نقوی سے ان کی گہری دوستی تھی۔ انہوں نے ’’کلیاتِ تنویر نقوی‘‘ کے عنوان سے ایک اہم کتاب بھی مرتب کی۔ تنویر نقوی کی شخصیت کے مختلف گوشوں کو جس طرح اعزاز احمد آذر نے بیان کیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آذر صاحب نے ایک مرتبہ تنویر نقوی کے بارے میں ایک ایسا قصہ سنایا جسے سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بھارت کے ہدایتکار اعظم محبوب خان ’’انمول گھڑی‘‘ بنا رہے تھے جس کے گیت تنویر نقوی نے تحریر کئے تھے۔ اس وقت تنویر نقوی مشکل سے 20 یا 21 برس کے ہوں گے۔ تنویر نقوی کو محبوب خان سے موسیقار نوشاد نے متعارف کرایا تھا۔ یہ واقعہ انتہائی دلچسپ ہے۔ جب نوشاد نے محبوب خان کو تنویر نقوی کا لکھا ہوا یہ گیت سنایا ’’آواز دے کہاں ہے‘‘ تو محبوب خان کو یقین نہ آیا کہ 20 برس کا نوجوان ایسا خوبصورت نغمہ تخلیق کر سکتا ہے۔ انہوں نے نوشاد سے کہا کہ اس نوجوان نغمہ نگار کو کل بلائو اور پھر اسے ایک الگ کمرے میںبٹھا کر اسی فلم کا دوسرا گیت لکھواتے ہیں۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ واقعی یہ نوجوان اتنا باصلاحیت ہے۔ آذر صاحب کے مطابق نوشاد نے اگلے ہی روز تنویر نقوی کو محبوب کے دفتر بلوا لیا۔ وہاں تنویر نقوی کو ایک الگ کمرے میں بیٹھا کر محبوب خان نے نوشاد سے کہا کہ وہ سکرپٹ کے مطابق اس نوجوان گیت نگار سے اس فلم کا دوسرا گیت لکھوائیں۔ نوشاد نے تنویر نقوی کو فلم کا دوسرا نغمہ لکھنے کے لیے کہا اور سچویشن بھی بتا دی۔ تنویر نقوی نے محض 30 منٹ کے اندر وہ گیت لکھ دیا جو فلم ’’انمول گھڑی‘‘ کے باقی نغمات کی طرح بے حد مقبول ہوا۔ اس گیت کے بول تھے ’’جواں ہے محبت‘ حسیں ہے زمانہ‘‘ …آذر صاحب نے تنویر نقوی سے ان کی موت تک دوستی نبھائی‘ اور یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ تنویر نقوی کے فن اور شخصیت کا ان پر گہرا اثر تھا۔ اعزاز احمد آذر کی دوسری نثری کتاب ’’ولی دکنی سے اعزاز آذر تک‘‘ بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب میں غزلوں کا انتخاب شامل ہے، ہم ذیل میں اعزاز احمد آذر کے چند اشعار اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ حد امکاں سے بہت آگے نکل کر سوچنا ایک قطرے کی طلب ہو تو سمندر سوچنا ۔۔۔ شام کی دہلیز سے شمعیں اٹھا کر لے گیا کون ہے جو شہر کی رسمیں چرا کر لے گیا لوگ پاگل ہو رہے تھے‘ بارشوں کی چاہ میں اور جھونکا بادلوں ہی کو اڑا کر لے گیا ۔۔۔ دل کی گہرائی سے اٹھتا پیار ہی اچھا لگا شہر سے لوٹے تو گائوں اور بھی پیارا لگا ۔۔۔۔ اور اب ان کے مندرجہ ذیل دو پنجابی اشعار ملاحظہ کیجئے۔ ویلے سر بس ایسے وی اک سا تجھ سہارا بندی ایہہ لہو دے رشتوں نالوں پکا رشتہ قلم دواتاں دا ہن اصلیت کھل گئی اے تے رو رو اپنیاں عقلاں نوں کنداں نوجد پوچیا ساجے موسم سی برساتاں دا اعزاز احمد آذر طویل مدت سے دل کے عارضے میں مبتلا تھے ۔16 مئی 2015ء کو فرشتہ اجل آ پہنچا اور یہ شاندار شخص اس جہان رنگ و بو سے رخصت ہو گیا۔ شعر و ادب کی تاریخ میں آذر صاحب کا نام زندہ رہے گا۔ ٭…٭…٭

Moona
02-10-2016, 11:42 PM
sahi kaha insan ko hamesha soch bari rakhni chahye
intelligent086 thanks 4 informative sharing

intelligent086
02-11-2016, 03:49 AM
sahi kaha insan ko hamesha soch bari rakhni chahye
@intelligent086 (http://www.urdutehzeb.com/member.php?u=61) thanks 4 informative sharing

صیح بات ہے۔۔۔۔۔

http://www.mobopk.com/images/hanks4comments.gif