PDA

View Full Version : میرباقر علی داستان گو کی کاناباتی



intelligent086
01-18-2016, 03:28 AM
میرباقر علی داستان گو کی کاناباتی

http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14639_82603589.jpg.pagespeed.ic.uD-YrwVYJa.jpg

کان وہ خزانہ ہے، جس کے نام پر لفظ کان رکھا گیا ، جیسے کان مالا مال ہے، اسی طرح سے انسان کے کان بھی دنیا میں مالا مال ہیں۔ انسان اپنے کانوں کو بھرے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ بھی نہیں۔ اگر کان نہ ہوں تو آدمی مثل دیوار کے ہے یا پتھر چناں چہ جس کے کان نہ ہوں تو اس کو کہتے ہیں کہ یہ تو مثل دیوارکے ہے یا پتھر کے۔ اکثر کہتے ہیں: ’’ان سے کیا بات کرتے ہو! یہ تو بہرے پتھر ہیں ’’یا ‘‘ ان کے کان پتھر ہیں۔‘‘نہ سننے والے سے تو جانور بہتر ہے کہ سن تو لیتا ہے، جس نے دنیا میں سن کر سمجھ لیا ،بس اس کاکام بن گیا۔ اگلے تجربہ کار جو باتیں مقرر کر گئے ہیں، جن کو ہم بدعت یا شرک یا کفریا عقل کے خلاف کہہ کر روند ڈالتے ہیں، کیا وہ سب کی سب غلط ہی ہیں؟ ہم کو ٹھنڈے دل سے سن کر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً یہ بات مشہور ہے کہ پانی بیٹھ کر پیو۔ ہاں، تین پانی کھڑے ہو کر بھی پیو ،تو مضائقہ نہیں، ایک تو آبِ زم زم ہے۔ اس میں مذہبی شان ہے۔ دوسرا پانی سبیل، تیسرا پانی نذر اور نیاز کا ۔ اب پانی کے بیٹھ کر پینے کی وجہ کیا ہے کہ بیٹھنے کی حالت میں اکثر اعضا کی فضائیں کھُل جاتی ہیں یا کہتے ہیں کہ بیٹھ کر پے جامہ پہنو اور کھڑے ہو کر پگڑی یا جوتی پہنو، تو پہلے بائیں پائوں میں ڈالو اور بہت سی باتیں ہیں۔ اُن باتوں پر غور فرمائیں گے تو فائدے سے خالی نہ پائیں گے اور کچھ نہ سہی تو یہ کیا تھوڑا ہے کہ ہمارے دماغ کو ہر کام میں توجہ کرنے کی عادت پڑ جائے گی۔ اگر دماغ ہمارا ہر کام کی طرف متوجہ ہو گیا تو ہماری فتح ہے اور دماغ ہی کسی کام کی طرف متوجہ نہیں، تو سارے کام دُھول ہیں۔ ہر اچھی بات کو سن کر جانچ لو گے، تو تمہارے کام آئے گی اور اگر اس کان سنی اس کان اڑائی ہوئی ہے، تو جس وقت کام پڑے گا یادنہ آئے گی۔ اُس کی ایک مثال: ایک ساہوکار ہے، جو اتفاق سے مفلس اور محتاج ہو گیا اور کل سو روپے پاس ہیں۔ سوچتا ہے کہ کیا کروں؟ اوچھی پونجی یا لاکھوں کا لین دین! یہ سو روپے کی پونجی کیا اور ایک بیٹے کی ماں کیا! یہ اسی ادھیڑبُن میں ہے کہ ایک فقیر سے ملاقات ہوئی۔ یہ سمجھا کہ یہ فقیر ہے۔ اس سے ملو۔ کیا عجب ہے کہ یہ دُعا کرے اور چکر دُور ہو، اور یہ نہ سمجھا کہ خدا کے نزدیک سب برابر ہیں۔ پہلے تو اپنے کوٹٹول۔ وہ کیا ایسی بات ہے ،جو تجھ میں نہیں اور فقیر میں ہے؟ ہاں، جوشے تجھ میں نہ ہو، مانگ۔ یہ تو نہ سوچا اور فقیر کے پاس جا کر کہا کہ ’’شاہ صاحب، کچھ ایسی بتائو کہ جس سے یہ پریشانی دُور ہو‘‘ شاہ صاحب نے فرمایا کہ ’’بابا، سو روپیا دے تو ایسی بات بتائوں کہ جس میں جان و مال دونوں کا فائدہ ہو‘‘ ساہو کارنے خیال کیا کہ جب ایسی بات دے تو سو روپے کیا چیز ہیں۔ یہ سوچ کر سو روپے دے دئیے۔ شاہ صاحب نے وہ روپے لے کر تو اپنی آنٹی میں لگائے اور ساہوکار سے کہا : ’’بابا، سُن اور اچھی طرح سے سمجھ لے کہ جب یکا یک غصہ آئے تو غصے کو مارنا اور بے پوچھے کوئی کام نہ کرنا۔‘‘ ساہوکار نے کہا ’’بابا، اور کیا؟‘‘ فقیر نے جواب دیا کہ ’’بس اور دے تو اور سن۔‘‘ اب ساہوکار نے اس فقرے کو بہت کچھ الٹ پھیر کر سوچا سمجھا ،مگرکچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ خیال ہوا کہ اتنا بھی سہارا گیا۔ اسی ادھیڑبن میں گھر آیا اور بیوی سے کہا کہ ’’لو، بیوی، خدا حافظ۔ اب جب خدا ملائے گا آئیں گے‘‘ بیوی نے پوچھا کہ ’’کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ ساہوکار نے جواب دیا ’’جہاں اللہ لے جائے،جو سو روپے کا سہارا تھا،وہ بھی گیا ‘‘ یہ کہہ کر چھوٹے بچے کو گود میں لیا، پیار کیا۔ آنکھوں میں آنسو بھر لایا۔ بچے کو گود سے اتارا اور روانہ ہوا اور کسی شہر میں پہنچا۔ (مطبع:مجلس ترقی ادب،لاہور) ٭…٭…٭

UmerAmer
01-18-2016, 07:42 PM
Nice Sharing
Thanks for Sharing

intelligent086
01-18-2016, 11:53 PM
http://www.mobopk.com/images/pasandkarnekabohatbo.png