PDA

View Full Version : خاموشی آئرش مصنف رابرٹ لنڈ کے قلم سے



intelligent086
01-12-2016, 05:46 AM
خاموشی آئرش مصنف رابرٹ لنڈ کے قلم سے

http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14586_46763803.jpg.pagespeed.ic.GqYBy7HyQ5 .jpg

خاموشی انسان کے لیے غیر فطری ہے۔ وہ اپنی زندگی ہلکی سی چیخ سے شروع کرتاہے اور موت پر اسے ابدی سکوت سے ہم آہنگ کر دیتا ہے۔ پیدائش اور موت کا جو درمیانی وقفہ ہے اس دوران وہ شور و غل میں مصروف رہتا ہے۔ اس کی گفتگو کو بھی آپ خاموشی کے خلاف جدوجہد تصور کر سکتے ہیں۔ اور کبھی کبھار گفتگو کے دوران وہ اپنی خاموشی کو اپنی نا کامی گردانتا ہے یا اپنے آپ کو اس وقفے کے دوران ایک بے کار انسان تصور کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ انسانوں کی نوے فی صد گفتگو مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی لیکن پھر بھی وہ گفتگو کی بھنبھناہٹ میں اپنے آپ کو ملوث رکھتا ہے تا کہ یہ ثابت کر سکے کہ وہ انسان ہے کوئی موم کا گڈا نہیں۔ اس طرح گفتگو کا مقصد تبادلہ خیالات کے بجائے بھنبھناہٹ کو قائم رکھنے کا عمل ہوا۔ بھنبھناہٹ پر مجھے یاد آیا کہ مچھر کی بھنبھناہٹ انسانی کوفت کو جنم دیتی ہے لیکن انسانی بھنبھناہٹ کانوں کو بھلی لگتی ہے۔ حتیٰ کہ ڈنر کے موقعہ پر بھی انسان گونگا بننے کے بجائے بھنبھناتے رہنے کو ترجیح دیتا ہے خواہ وہ مچھر کی بھنبھناہٹ کے مماثل ہو۔ دنیا میں بہت کم انسان ایسے ہوں گے جو نالج حاصل کرنے کی غرض سے گفتگو میں شریک ہوتے ہوں یا نئی قسم کی معلومات جاننے کی طلب رکھتے ہوں۔ کچھ لوگ آپ کو یہ بتا کر ہی خوش ہو جاتے ہوں گے کہ انہوں نے دو یا تین ڈرامے دیکھے ہیں۔ ایک بار ایک نوجوان شخص ہماری محفل میں ایک شہزادے کے مکالمے ہمیں سنا کر بہت خوش ہوا حالانکہ ان تیس منٹوں میں ہم بہت بور ہوئے۔ ہم میں سے بیشتر لوگ اس گفتگو کو پسند کرتے ہیں جو وہ خود کرتے ہیں اور دوسروں کو سامعین بنائے رکھتے ہیں۔ شاید یہ سب کچھ خاموشی سے نفرت کے اظہار کے طور پر ہوتا ہے جو کہ میرے نزدیک ایک برائی ہے۔ جب کہ مذکورہ نوجوان کچھ اس طرح شہزادے کے مکالموں کی نقل کر رہا تھا گویا خو فزدہ ہو کر کہیں دنیا پر ابدی سکوت نہ چھا جائے۔ اس نوجوان کو معلوم ہونا چاہئے کہ بور کرنے والی بھنبھناہٹ کے مقابلے میں دل خوش کن گفتگو زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ موسم کا موضوع گفتگو کے لیے خوشگوار ہوتا ہے۔ اس موضوع میں ہر کوئی ملوث ہوتا ہے۔ پھر یہ گفتگو دوسرے خوشگوار موضوعات تک دراز ہو جاتی ہے اور شرکاء ایک دوسرے کے لیے بذاتِ خود ’دلچسپ‘ اور ’ہمدرد‘ بن جاتے ہیں۔ کبھی کبھی دو اشخاص جو کہ ماضی میں کسی کالج یا یونیورسٹی کے ہم جماعت تھے پرانی یادیں کچھ اس طرح تازہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ ایک تیسرا شخص بھی ان کی گفتگو میں اپنی بھنبھناہٹ شامل کرنے پر تُلا بیٹھا ہے۔ در حقیقت یادیں انسان کا بڑا سرمایہ ہوتی ہیں۔ ان کا موضوع گفتگو کے لیے ایک بہترین موضوع ہوتا ہے۔ وہ ہمارے دلوں کو گرماتی اور ذہن میں ایک عجب لطف کا طوفان اٹھاتی ہیں۔ ایسے مواقع پر وہ تیسرا آدمی جس کا ان یادوں سے کوئی تعلق نہیں بڑا بور ہوتا ہے۔ اس کے لیے پہلے دو اشخاص کے ماضی کے افراد اور واقعات میں اتنی دلکشی نہیں ہوتی اور اگر وہ ہنستا بھی ہے تو محسوس ہوتا ہے گویا وہ میکانکی طور پر ایسا کر رہا ہے جبکہ پہلے دو افراد کی ہنسی خواب والی، ہنسی ہوتی ہے کہ جس کے لطف سے وہ ہی مستفید ہو سکتے ہیں۔ پر میرا خیال ہے کہ یہ گفتگو بھی خراب ہے اس لیے کے تیسرا شخص اس بات پر مجبور ہے کہ وہ یا تو خاموش بیٹھا رہے یا کبھی کبھار ہنس دے۔ ایک اچھی گفتگو میں تیسرے شخص کا بھی حصہ ہونا چاہئے۔ یہ صرف سماجی زندگی ہی میں نہیں کہ ہم خاموشی سے خوفزدہ رہتے ہیں، ہم تو تنہائی میں بھی خاموشی سے نفرت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اِدھر اُدھر کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ جب ہم شہر کی مصروف زندگی سے اکتا کر کسی گائوں میں جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہوتا کہ ہم شور غل سے اُکتا کر خاموشی کی طرف پلٹ رہے ہیں بلکہ ہم ایک دوسری قسم کے دلفریب شور و غل کا لطف اٹھانے جاتے ہیں جیسے کہ حسین پرندوں کی چہچہاہٹ، مُرغ کی بانگ، مرغی کی کٹ کٹ کٹ کٹ، کتوں کی بھونکار، بیل گاڑی کے پہیوں کی چر چراہٹ، اور اس طرح اگر ہم خاموشی کے پجاری بن جائیں تو ہماری زندگی میں خلجان واقع ہو جائے۔ جب رات پڑتی ہے تو تاریکی کے ساتھ ساتھ سکوت بھی قائم ہو جاتا ہے۔ میرا خیال ہے ہم تاریکی سے نہیں بلکہ سکوت یا خاموشی سے ڈرتے ہیں۔ اور ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ سکوت میں کسی ان دیکھے خوف کا گمان ہوتا ہے۔ شور حقیقتاً ہمارا ساتھی ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں رات کو بستر میں دبک جانے کے بعد مجھے ٹیبل کلاک کی ٹِک ٹِک سن کر بڑا مزہ آتا تھا۔ ذرا آپ اندازہ تو لگائیں کہ ملی الصبح کھڑکی کھلنے پر اطراف کے مرغزاروں سے بلندہوتی ہوئی حسین آوازیں روح کو کس قدر معطر کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ایک خاموش شاہراہ پر جا رہے ہوں اور اچانک گائے کی زور دار آوازیں سن کر آپ ایک دم اچھل جائیں تو یہ اس آواز کا قصور نہ ہوگا بلکہ آپ صرف ماحول کی خاموشی کی وجہ سے ڈرے تھے۔ ذرا آپ خیال تو کریں کہ اگر آپ اس دنیا میں آخری شخص ہوں اور آپ کو یقین ہو کہ آپ لا فانی ہیں اور یہ کہ اس دنیا میں ایک آواز محض آپ کے قدموں کی آواز ہے تو آپ کی دہشت کا کیا عالم ہو گا؟ ہاں اگر آپ کے اطراف میں پرندے، کتے، گائیں اور بھیڑیں ہوں تو شاید آپ اپنی تنہائی اور اکیلے پن کو برداشت کرلیں۔ (ترجمہ: ممتاز احمد خان

UmerAmer
01-12-2016, 07:38 PM
Nice Sharing
Thanks for Sharing

intelligent086
01-13-2016, 01:00 PM
http://www.mobopk.com/images/pasandkarnekabohatbo.png

intelligent086
01-13-2016, 01:01 PM
CaLmInG MeLoDy

CaLmInG MeLoDy
01-14-2016, 11:29 AM
آپ کے اس تھریڈ نے میری خاموشی بھی توڑ دی۔
جبکہ میں نے یہ سیکھا ہے کہ ۔ خاموشی انسان کا بہت بڑا ہتھیار ہے۔
غلط کہنے سے بھی بچ جاتا ہے انسان۔ اور غلط سننے سے بھی بچ جاتا ہے انسان صرف ایک خاموشی سے۔
لیکن خاموشی باتیں کرتی ہے۔ ایک انسان کو اپنے آپ سے ملواتی ہے۔
اگر انسان سچا ہے۔ تو وہ اپنی اصلیت سے کھل کے واقف ہو جاتا ہے۔
اگر انسان شاطر ہے۔ تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کی چال کس کس پہ اثر کر گئی۔
خاموشی کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنے دل کو مردہ کر لے، بلکہ جو انسان خاموش رہنا سیکھ لے۔ اسکو چاہئے کے اپنے اندر ایک دنیا آباد کر لے۔ جس میں قہقہے بھی ہوں۔ رونق بھی ہو۔ طنزو مزاح بھی ہو۔ اور سوچ و فکرات بھی ہوں۔ صحیح کو صحیح ماننے کا حوصلہ بھی ہو۔ اور غلط کو غلط جان کر صحیح کرنے کی طاقت بھی۔

بہت شکریہ حبیب بھائی اچھی تحریر شیئر کرنے کا۔

UmerAmer
01-14-2016, 03:48 PM
Nice Sharing
Thanks for Sharing

intelligent086
01-15-2016, 01:31 AM
http://www.mobopk.com/images/pasandkarnekabohatbo.png