PDA

View Full Version : کلام خواجہ غلام فرید



intelligent086
01-08-2016, 01:54 PM
کلام خواجہ غلام فرید

http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14542_16794111.jpg.pagespeed.ic.RBNVaKZ1V-.jpg

آپے اَپناں سُونہاں کِیتو کِرہوں قطاریو نال نہ نِیتو کَیں دُھوتی برمایو وے یار حِلّ لغات: آپے، آپ ہی۔ سُونہاں، واقف۔ کرہوں، اونٹ۔ قطاریو، اونٹ کو قطار میں شامل کیا۔ نال نہ نیتو، ہمراہ نہ لیا۔ دُھوتی، چغل خور۔ برمایو، ورغلایا۔ بھڑکایا۔ ترجمہ: ’’محبوب! تو نے خودہی مجھے اپنا واقف بنایا۔ پھر اپنا اونٹ قافلے میں قطار کر چلدیا۔ اور مجھے ہمراہ نہ لیا۔ خدا معلوم تجھے کس چغلخور نے میرے خلاف بھڑکا دیا ہے۔‘‘ یار مُٹھی کُوں ڈِترو رولا ساڑیو، کِیتو، کیری کولا تَتڑی کُوں کیوں تایو وے یار حِلّ لغات: ساڑیو، جلایو۔ کیری، خاکستر۔ راکھ۔ تایا، (تایو) تپایا۔ (تُونے تپایا) ترجمہ: ’’اے محبوب! تو نے مجھ بد قسمت کو آوارہ اور سرگرداں کر دیا۔ اور جلا کر راکھ اور کوئلہ کر ڈالا میں تو پہلے سے ہی سوختہ جاں اور کبیدۂ خاطر تھی تو نے برباد کر دیا۔‘‘ آپے شہر بھَنبور ڈوں آیوں یاری لا کر چھوڑ سِدھایوں مُفتاں کُوڑ کمایو وے یار حِلّ لغات: شہر بھنبور، سسی کا شہر۔ سِدھا یوں، تُو رخصت ہو گیا۔ مُفتا، مُفت میں۔ بلاوجہ۔ کُوڑ کمایو، تُو نے دَغا کمایا۔ دھوکا دیا۔ ترجمہ: ’’اے محبوب ! تم خود ہی تو شہر بھنبور کی طرف آئے تھے۔ اور پھر مجھے اپنا عاشق بنا کر واپس چلے گئے۔ مجھ سے بلاوجہ دھوکا کیا۔‘‘ یار فرید کڈاں سنبھلیسی سِہجوں سَڈ کر کول بلھیسی جے وَت بَخت بھِڑا یو وے یار حِلّ لغات: کڈاں، کب۔ سنبھلیسی، سنبھالے گا۔ سِہجوں، خوشی خوشی۔ سَڈکر، بُلا کر۔ کول بلھیسی، پاس بٹھائے گا۔ جے وَت، اگر۔ بخت بھِڑایو، بخت نے ساتھ دیا۔ ترجمہ: ’’ اے فرید! وہ دن کب آئے گا۔ جب محبوب مجھے یاد کرے گا۔ اور اگر بخت نے یاوری کی تو خوشی خوشی بُلا کر پاس بٹھائے گا!‘‘ اس بند سے پتہ چلتا ہے کہ دوست کا ملنا کوشش پر موقوف نہیں۔ اگر بخت یاد رہو تو مل جاتا ہے۔ خواہ ریاضت کرے یا نہ کرے۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ عاشق محو خواب ہے۔ اور دوست اس کے پاس آ جاتا ہے۔ اور کسی وقت جاگنے والے کو بھی نہیں ملتا۔ پردیس ڈَہوں دِیداں اَڑیاں وے یار ساڈیاں وطن کنُوں دِلیں سَڑیاں وے یار حِلّ لغات: ڈہُوں، طرف۔ دِیداں اَڑیاں، نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ سَڑیاں، جل گئیں۔ ترجمہ: ’’اے محبوب! ہماری نگا ہیں پردیس جانے والے محبوب کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ اور دل وطن سے بیزار ہو گیا ہے!‘‘ وطن کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وطن اصلی اور دُوسرا وطن اقامت، پردیس میں جہاں مسافر مقیم ہو جائے اُسے وطنِ اقامت کہتے ہیں اور جو اس کا اصلی گھر ہو اُسے وطن اصلی کہتے ہیں۔اصلی گھر ایک تو وہ ہے جہاں آدمی رہتا ہو اور اُس کا خاندان بھی رہتا ہو۔ دُوسرا اصلی وطن ہر شخص کا مقامِ احدیث ہے۔ یعنی بیرنگی۔ہر رنگ کا وطن بیرنگی ہے۔ لہٰذا اس شعر کا باطنی مطلب یہ ہوگا کہ ہم اپنے اصلی وطن مقام احدیث (بیرنگی) کو چھوڑ کر یہاں عالمِ شہادت میں آکر پھنس گئے ہیں۔ و ہ شخص بڑا ہی خوش نصیب ہے جو سیر نزولی کے بعد سیر عروجی کی منزلیں طے کر کے اپنے اصلی وطن (مقامِ احدیث) میں پہنچ جائے۔

muzafar ali
01-08-2016, 02:52 PM
thanks for nice sharing

UmerAmer
01-08-2016, 06:53 PM
Nice Sharing
Thanks For Sharing