PDA

View Full Version : ممتاز مفتی …ایک شخص ایک ادیب



intelligent086
01-01-2016, 05:02 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14493_12081855.jpg.pagespeed.ic.MFb-h2FlY5.jpg

سہیل تاج
ممتاز مفتی اپنے صاحبزادے عکسی مفتی سے کہا کرتے تھے کہ تمہارا کوئی چاچا، ماما، تایا اور رشتہ دار نہیںہے۔ تمہارا صرف میں ہوں ،تمہاراا با۔ میں تمہارا باپ ہوں اور ماں بھی،میں تمہارا دوست ہوںاور میرے دوست تمہارے دوست ہیں۔ ممتاز مفتی دنیائے ادب میں ایک ادیب اور لکھاری کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں مگر اپنے مداحوں کے لئے وہ ایک دنیا اور طرزِ زندگی ہیں۔ ممتاز مفتی کے پڑھنے والے مفتی جی کو پڑھتے ہی نہیں بیتتے ہیں اور جیتے ہیں۔اگر ابدال بیلا کے احساسات، جذبات اور خیالات مستعار لئے جائیں تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے ممتاز مفتی کے چاہنے والے انہیں اوڑھتے ہیں۔ ممتاز مفتی معاشرتی روایات سے باغی تھے۔ اپنے غصے اور بغاوت کو انہوں نے تعمیری طور پر استعمال کیا اور اپنے جذبات کو الفاظ کا لباس پہنا کر معاشرے کے سامنے آئینے کے طور پر پیش کیا۔ ممتاز مفتی نے افسانے قلمی نام ممتاز حسین کے نام سے لکھنا شروع کئے مگر ان کے دوستوں نے بھانپ لیا کہ ممتاز مفتی ہی ممتاز حسین ہیں۔ ممتاز مفتی کی سوانح حیات دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ جلد اول’علی پو رکا ایلی‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کو اردو ادب کا گورو گرنتھ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کتاب کا تعارفی صفحہ پڑھتے ہی پڑھنے والا یہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ کیسی کتاب ہے۔ روایتی طور پر کتابوں کے سرورق پر کتاب کی تعریف میں زمین و آسمان کی قلابیں ملائی جاتی ہیں مگر ’علی پور کا ایلی‘ کا پہلا ورق یہ مشورہ دیتا ہے کہ ’آپ یہ کتاب نہ پڑھیں۔یہ کتاب پڑھ کر آپ تباہ و برباد ہو جائیں گے، کسی جوگے نہ رہیں گے‘۔ پڑھنے والا سوچتا ہے کہ سوانح حیات میں ایسا سحرکیسے ہو سکتا ہے جو انسان کو برباد کر دے۔ سوانح حیات کا دوسرا حصہ’الکھ نگری‘ ہے۔ علی پور کا ایلی تلاشِ ذات ہے جبکہ الکھ نگری تلاشِ خدا ہے۔ اس تصنیف میں ممتاز مفتی کا مشاہدہ قدرت اللہ شہاب ہیں جو کہ ایک سول آفیسر تھے۔ ممتاز مفتی قدرت اللہ سے انتہائی عقیدت رکھتے تھے مگر راہِ حق میں ممتاز مفتی نے قدرت اللہ شہاب کو منزل نہیں بلکہ سنگ ِ میل قرار دیا۔ ممتاز مفتی کی والدہ کی خواہش تھی کہ مفتی جی کو اپنے روحانی مرشد حاجی صاحب سے بیعت کروا لیں مگر ممتاز مفتی کا یہ یقین تھا کہ نیکی تو دراصل اس عمل کو کہتے ہیں جو اپنے زورِ بازوپر کی جائے۔ اگر کوئی بزرگ اپنے کشف سے کسی کو نیکی کی راہ پر مائل کر لے تو یہ عمل کرامت تو ہو سکتا ہے نیکی نہیں ہو سکتی۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز مفتی نے حاجی صاحب سے بھی کیا اور اپنی والدہ کی خواہش بھی ان کے گوش گزار کی۔ حاجی صاحب ممتاز مفتی کے خیالات سن کر الحمداللہ کہہ اٹھے اور ان کو ایک روشن مستقبل کی خوشخبری سنائی۔ ممتاز مفتی نے سفر حجاز کی داستان کتاب ـ’لبیک‘ کی صورت میں اپنے مداحوں کی نذرکی۔ اس سفر میں قدرت اللہ شہاب ، ممتاز مفتی کے ساتھی تھے۔ یہ کتاب اتنی جاذب ہے کہ ہر ایک سطر پڑھنے والے کو حیرت کی دنیا کی جھلک دکھلاتی ہے۔ عکسی مفتی اپنی کتاب ’ایک دن کی بات‘ میں لکھتے ہیں کہ ’لبیک‘ جیسی کتاب عام آدمی تحریر نہیں کر سکتا۔ ایک مجذوب ہی جسارت کر سکتا ہے ۔ ممتاز مفتی انسانی نفسیات سے بھی بخوبی واقف تھے وہ جانتے تھے کہ نصیحت نوجوانوں میں بغاوت پیدا کرتی ہے۔ ممتاز مفتی نے نوجوانوں کو نصیحت کرنے سے اجتناب کیا اور اپنی کہانیوں اور افسانوںکے ذریعے نوجوانوں کو حقیقت سے روشناس کیا۔ممتاز مفتی کا لیڈراورگرو کے بارے میں ایک الگ زاویہ خیال اور نظریہ تھا۔ ممتاز مفتی کو یقین تھا کہ ہر دور کا کامیاب لیڈر اس وقت کے لوگوں سے ظاہری طور پر مشابہت رکھتا ہے اور آج کے دور میں کامیاب گرو وہی ہو گا جو لوگوں کے آگے نہیں بلکہ ان کے پیچھے چل کر ان کی رہنمائی کرے۔ ممتاز مفتی نے اپنی تمام عمر سوچ بچار اور سادگی میں گزاری۔ آخری ایام میں بھی ممتاز مفتی گائو تکیا لگائے بیٹھے رہتے۔ ممتاز مفتی اپنے بیٹے عکسی سے کہا کرتے ، میں اسٹیشن پر بیٹھا ہوں میرا جانے کا وقت ہو گیا ہے میری گاڑی کیوں نہیں آتی۔ ایک روز ممتاز مفتی نے اپنے بیٹے سے یہ عہد لیا کہ جس دن وہ اس دنیا سے رخصت ہوں گے اس دن کو خوشی کے طور پر منایا جائے گا۔ وصال کے لمحات اسی شخص کے لئے اطمینان بخش ہو سکتے ہیں جو جانتا ہو کہ زندگی کے امتحان میں وہ سرخرو ہو چکا ہے۔

Moona
02-11-2016, 12:10 AM
intelligent086 thanks 4 informative sharing

intelligent086
02-11-2016, 03:18 AM
@intelligent086 (http://www.urdutehzeb.com/member.php?u=61) thanks 4 informative sharing


http://www.mobopk.com/images/hanks4comments.gif