PDA

View Full Version : ہرمن ہیسے لفظوں کا جادوگر



intelligent086
01-01-2016, 04:55 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14494_93845372.jpg.pagespeed.ic.mN4FF7kx9E .jpg

علی تنہا
ہرمن ہیسے کے اندر مشرق و مغرب کی روح کچھ یوں حلول کر گئی تھی کہ اس نے اپنے فن میں اس حُسن کا اظہار طلسماتی صورت میں کیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس منفرد فنکار کو بچپن میں جادوگر بننے کا شوق تھا۔ ہرمن ہیسے نے لکھا ہے کہ بہت برسوں کے بعد اسے یہ دھیان پڑا کہ وہ کیوں ایسا کرنا چاہتا تھا۔ پھر خود ہی کہتا ہے کہ فی الحقیقت ایک آرٹسٹ ساحر تو ہوتا ہے۔ 20 جولائی 1877ء کو جرمنی کے ایک چھوٹے سے شہر کالو میں پیدا ہونے والا یہ بچہ جب چھ سات برس کا ہوا تو اس کے والدین کو ہرمن ہیسے کی غیر معمولی صلاحیتوںکا احساس ہونا شروع ہوا مگر اس کے والدین مسیحیت کیلئے وقف تھے اور وہ مشنری جماعت کے ساتھ مشرق کے دور دراز سفر پر رہے۔ اس واسطے انہوں نے اس پر بھرپور توجہ نہ دی۔ہرمن ہیسے نے لڑکپن میں کتب کی خرید و فروخت کے کاروبار سے وابستگی اختیار کی‘ اخبارات فروخت کئے‘ گھڑی ساز بنا رہا مگر اسے مطالعے کا بہت شوق تھا‘ اسے جو کتاب ملتی‘ اسے پڑھ ڈالتا‘ حتیٰ کہ ایام کی سختی کے باوجود 25 برس کی عمر میں اس کا پہلا شعری مجموعہ منظرپر آیا مگر اسے شہرت فکشن کے ذریعے ملنا تھی۔ سوہرمن ہیسے نے فکشن کیلئے اپنی حیات وقف کر دی۔1905ء میں اس کا ناول"The Prodigy"موضوع بحث بنا۔ اس عہد میں اس کے ذہن کی زرخیزی عروج پر تھی۔ سو اس نے کتھا کہانیاں اور جاتک فکشن تک میں طبع آزمائی کی اور بے مثال افسانے خلق کئے۔ اس کے اسلوب کی فطری تازہ کاری نے یورپ کے ذہین قارئین کو متاثر کرنا شروع کیا۔ ہرمن ہیسے نے دراصل اپنے افسانوں میں یورپ کے روحانی ابتذال کی بشارت دی تھی اور تخلیق فن کے ذریعے بتایا کہ یورپ کے آدمی کا اندر مسخ ہو گیا ہے۔ اس کا یادگار افسانہ ’’پکٹرزمیٹامورفیسس‘‘ اس فلسفے کا نمائندہ ہے۔ ہرمن ہیسے چونکہ جنون کی حد تک مطالعے کا شائق تھا‘ اس لئے اس نے یورپ کے اور ادبیات کے علاوہ عربی داستانیں‘ چائنا کی کہانیاں‘ افریقہ اور یہودیوں کی تماثیل کا نہایت عرق ریزی کے ساتھ مطالعہ کیا تھا اس لئے اس کے افسانوں میں بیان کردہ داستانوں کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ وہ لوک کہانیوں کا دلدادہ تھا۔ اس نے کہا تھا کہ داستانیں‘ انسانی بصیرت کا نایاب خزانہ ہیں اور تمام انسان ایک جیسا سوچتے ہیں خواب دیکھتے ہیں۔ ہرمن ہیسے کے ناول اور افسانے اپنی ہیئت اور اسلوب کے حساب سے زیادہ تر رمزیہ پیرائے میں آگے بڑھتے ہیں مگر ان میں بلا کی طاقت ہے‘ روانی اور گہرائی کی۔ اس کے ہاں شعور کی رو اکثر فن پاروں میں چلتی اور متحرک ہو کر قاری کے متخیلہ کو جگاتی ہے۔ یہ جوہر اس کے مشہور عالم ناول The glass Bead game میں فزوں تر ہے۔ مغرب کے فکشن میں یہ ناول اپنی تہہ داری اور فن کارانہ کمال کے باعث ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 1922ء میں چھپنے والے ہرمن ہیسے کے ایک اور ناول ’’سدھارتھ‘‘ کا ہمارے ہاں بہت شہرہ رہا ہے اور اب بھی ادب عالیہ کے قارئین اسے یاد رکھتے ہیں۔ اس کا اردو میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔ "Alif laila is a source of infinite Pleasure" ہرمن ہیسے کو 1946ء میں نوبل ادب پرائز ملا۔ وہ 1914ء میں جنگ عظیم اول کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سوئٹزرلینڈ چلا گیا اور عمر کا باقی حصہ سوئٹزرلینڈ میں بسر کیا۔ اس نے 1914ء میں جرمن عوام کو تنبیہ کی تھی کہ وہ حکومتی تسلط اور جبریہ طرز حکمرانی کو رد کریں ورنہ حکومت انہیں نیست و نابود کر دے گی۔ اس پر جرمن کے درباری دانشوروں نے اس کا مذاق اڑایا مگر 1939ء میں جب دوبارہ جنگ عظیم دوئم کی قیامت ٹوٹی تو جرمن عوام کو ہوش آیا مگر اب ہرمن ہیسے ان میں موجود نہ رہا۔ 1945ء میں وہی ہوا جس کی وارننگ ہرمن ہیسے نے دی تھی۔ ہرمن ہیسے نے کہا ہے کہ صداقتوں سے انحراف کی صورت میں ملتیں مٹ جاتی ہیں۔ ہرمن ہیسے کے ناول سٹیفسن وولی میں داخلیت اور بیسویں صدی میں بھیڑئیے بنتے مغربی آدم کی اشکال نے ثابت کیا کہ اس کا حسن کلام کس قدر صداقت اور حق پر قائم تھا۔ 9 اگست 1962ء کو ہرمن ہیسے سوئٹزرلینڈ کے ایک قصبے مونیٹگنولا میں انتقال کر گیا۔ عمر کے آخری حصے میں وہ گوشہ نشین ہو گیا تھااور اس نے دروازے پر لکھوایا کہ مجھ سے ملاقات کی زحمت نہ فرمائیں۔ اپنے آرٹ میں ہرمن ہیسے نے جو دنیا ہمارے حوالے کی اس میں بصیرت اور فن کے کیا کیا موسم اور رنگ ہیں۔ یہ دنیا لافانی اور ہرمن ہیسے کو امر کرنے کیلئے کافی ہے۔ ٭…٭…٭

Moona
02-11-2016, 12:10 AM
intelligent086 thanks 4 informative sharing

intelligent086
02-11-2016, 03:17 AM
@intelligent086 (http://www.urdutehzeb.com/member.php?u=61) thanks 4 informative sharing


http://www.mobopk.com/images/hanks4comments.gif