PDA

View Full Version : ثقافتی مزاج



intelligent086
12-21-2015, 05:07 PM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14426_75713877.jpg.pagespeed.ic.VHOUWEVVhK .jpg

سرینگر کے زمانے ہی سے مجھے مزاروں، تکیوں اورپُراسرار جگہوں پر جانے کا چسکا تھا۔ امی ہر جمعرات کو سرینگر کے نواح میں واقع مزاروں پر چراغ جلانے جاتی تھیں، میں بھی ساتھ ہوتا۔ ان جگہوں کی اسراریت اب بھی میرے اندر موجود ہے۔ پنڈی میں اس طرح کی دو تین جگہیں تھیں۔ جامع مسجد کی اکال گڑھ والی سمت میں نالہ پر ایک چھوٹا سا مزار تھا۔ جہاں مخصوص لوگ ہی جاتے تھے۔ میں بچپن میں کئی بار یہاں سے گزرا، ٹھہرا اور یہاں سے ایک اسرار لے کر آگے نکل گیا۔ بعد میں ایک عرصہ بعد دو تین بار محمود کنور کے ساتھ یہاں آیا۔ یہاں ایک درویش ہمیشہ غنودگی کے عالم میں نیم سوتے ہوئے، آس پاس تاش کھیلتا ایک چھوٹا سا گروہ۔ مریڑ حسن میں بھی ایک مزار خاص خاص لوگوں کے لئے دلچسپی کا باعث تھا۔ یہی وہ مزار ہے، جس کا ذکر ممتاز مفتی نے بھی کیا ہے کہ جب ان سے دفتر کی ایک اہم فائل گم ہو گئی اور وہ ایک بڑی مصیبت میں پھنس گئے تو عزیز ملک نے انہیں وہاں جانے کا مشورہ دیا۔ میرا سسرال مریڑ حسن میں ہے ،اس لئے میرا تو یہ روز کا راستہ تھا۔ اس مزار پر بھی ایک خاموشی اور اسرار سمجھنے والوں کا منتظر ہے۔ صدر میں سرسید روڈ پر بھی ایک قبر ہے ، جہاں کوئی روز دیا جلا دیتا ہے۔ ایک مزار اسٹیشن ہیڈ کواٹرز کے سامنے ہے، یہاں بھی روز رات کو دیا جلتا ہے۔ میں کبھی کبھی خاموشی سے یہاں آکر بیٹھتا تھا۔ شہر کے اندرون ، بھابڑ خانہ میں شاہ چن چراغ کا مشہور مزار ہے۔ بری امام کے عرس میں آنے والے پہلے یہاں حاضری دیتے ہیں۔ ایک زمانے میں جب بری کے عرس پر طائفے آتے تو ان کا پہلا شو یہاں ہوتا تھا۔ جہاںمجھ جیسے لوگوں کے آنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ ان دنوں صبح سویرے ہی مزار کی منڈیریں بھر جاتیں۔ لوگ ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ جاتے۔ صبح سویرے رقص کا آغاز ہوتا اور رات گئے تک یہ سلسلہ جاری رہتا۔ یہاں ایک خلوص اور پاکیزگی ہوتی کیونکہ یہاں کوئی ویلیں نہیں دیتا تھا۔ ایک اور مزار جس نے مجھے بڑا متاثر کیا، مری بروری روڈ پر ہے۔ جب میں گلستان کالونی میں گھر بنوا رہا تھا تو دن میں کئی بار یہاں سے گزر ہوتا۔ ایک دن جانے کیا ہوا کہ موٹر سائیکل سڑک کنارے کھڑا کر کے میں ٹیلہ پڑ چڑھ گیا، پھر ایسا لطف آیا کہ اکثر وہاں جانے لگا۔ میرا افسانہ ’’لمحہ جو صدیاں ہوا‘‘ اسی پس منظر میں ہے۔ پنڈی کے ذائقوں میں سب سے پہلے تو نہاری کی دکانیں ہیں، جہاں خوش خوراک صبح سویرے پہنچتے ہیں۔ سبزی منڈی میں عبدالحمید کی نہاری لینے کے لئے صبح کی اذان کے فوراً بعد پہنچنا پڑتا ہے، ورنہ باری نہیں آتی۔ لنڈے بازار میں چھامے کی دکان ہے۔ کرتارپورے میں کالا خان ہے، کمیٹی چوک میں وارث، کشمیری بازار تو صبح کے ناشتے کے لئے مخصوص ہو گیا ہے۔ میں اور احمد دائود اکثر صبح سویرے ان دکانوں کے چکر لگاتے تھے۔خصوصاً اتوار کو تو صبح کا ناشتہ باہر طے تھا۔ کشمیری بازار ہی میں صدیق کی پوڑیاں بھی ہیں۔ یہاں سے پوڑیاں لینے کے لئے کم از کم گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ مری روڈ پر نرالا کی پوڑیاں بھی مشہور ہیں۔ صدر میں کھانے کا لد ھیانہ ہوٹل تھا۔ جہاں جگہ لینے کے لئے باہر انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن اب اس طرح کی کوئی جگہ نہیں۔ فاسٹ فوڈ، تکے کباب اور بالٹی مرغ کا دور آ گیا ہے۔ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے کیفے اب شہر کے ہر علاقے میں قائم ہیں، لیکن اچھے ذائقہ کی تسکین کے ذرائع زیادہ نہیں،البتہ پنڈی میں کشمیری کھانوں کا ایک ہوٹل پرانے قلعہ میں اب بھی روایت نبھا رہا ہے۔ اس ہوٹل کے مالک بارہ مولا کے رہنے والے تھے۔ ان کے دور میں تو خیر یہاں کا لطف ہی اور تھا لیکن اب ان کے بیٹے اسے چلا رہے ہیں۔ یہاں آنے والے مخصوص لوگ ہیں۔ سنا ہے نواز شریف بھی یہاں سے گشتابہ منگوایا کرتے تھے۔ میں مہینے میں ایک دو بار یہاں ضرور آتا ہوں یا کسی سے کہہ کر گشتابہ اور ہریسہ منگواتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ آپ کے کھانے کی عادات، اشیاء اور ان کے ذائقے آپ کے ثقافتی مزاج سے منسلک ہوتے ہیں۔ زبان اور کھانے ثقافت و تہذیب کا اظہار ہیں۔ زبان سے تو میں محروم ہو گیا، لیکن زبان کا ذائقہ ابھی قائم ہے اور میں کم از کم ثقافتی طور پر تو کشمیری ہوں ہی۔ (رشید امجد کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’عاشقی صبر طلب‘‘ سے اقتباس)