PDA

View Full Version : مولانامسعود عالم ندوی خرم مراد کی یادیں



intelligent086
12-18-2015, 10:47 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14400_15724535.jpg.pagespeed.ic.vAkuaGZ0zr .jpg

مسعود صاحب سے ہماری صحبتوں کا تقریباً وہ زمانہ ہے، جب مصری حکمرانوں اور’’اخوان المسلمون‘‘ کے درمیان کش مکش بڑھتی جا رہی تھی۔ خود’’اخوان المسلمون ‘‘ میں، حسن الہدیبی صاحب کو مرشد عام بنائے جانے پر اختلاف تھا۔ اختلاف کی یہ خبریں ہمارے لیے سخت تشویش کا باعث تھیں۔ ایک بار میں نے ان کے سامنے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا کہ ’’وہ جماعتیں جو خالص اللہ کے نام پر جمع ہوتی ہیں، ان کے لوگوں میں اتنا افتراق اور اختلاف کیوں پیدا ہوتا ہے؟‘‘ جواب دینے سے پہلے ان کے کہنے پر میں نے کمرے کی چٹکنی لگا دی، پھر فرمایا کہ ’’مجھے جن دو چار نوجوانوں پر اعتماد ہے، وہ آپ لوگ ہیں‘‘۔ اس کے بعد وہ کہنے لگے ’’دیکھو، میں تمھیں ایک بات بتائوں، مگر اس بات کو اچھی طرح یاد رکھنا‘‘ اللہ کا شکر ہے اسے میں نے ہمیشہ یاد رکھا ہے، اگرچہ بعد میں اس موضوع پر مطالعہ اور سوچ بھی معاون رہے ہیں۔ ا ن کی یہ بات آج تک یاد ہے۔ کہنے لگے ’’سنو، جماعت اسلامی کی مجلسِ شوریٰ میں، میں لیڈر آف دی اپوزیشن ہوں‘‘ اس روز انھوں نے مجھ سے جماعت کے اندر فکر و نظر کے اختلافات کے بارے میں کئی ایسی باتیں کیں، جو میری عمر کے لحاظ سے وہی آدمی کر سکتا ہے، جو یہ بھروسا اور اعتماد رکھتا ہو کہ وہ سننے والے کو ہضم ہو جائیں گی۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’مولانا مودودی کا مزاج ذرا تنہائی پسند ہے۔ اسی بنا پر بعض لوگوں کی رائے میں وہ کچھ تھوڑا سا اشرافی مزاج رکھتے ہیں۔ داعی تحریک ہوتے ہوئے جس طرح انھیں افراد میںگھل مل جانا چاہیے، وہ ایسا نہیں کر پاتے‘‘۔ خیر، وہ کہنے لگے کہ ’’ہر شوریٰ میں، میں لیڈر آف دی اپوزیشن ہوتا ہوں اور عموماً میری رائے مولانا مودودی کی رائے کے مختلف ہوتی ہے۔ ’’قرار دادِ مقاصد‘‘ کے بارے میں مجھے شدید ذہنی تحفظات تھے، مگر اس بارے میں مجھے اندازا ہوا کہ وہ اپنی رائے منوا رہے ہیں‘‘ پھر فرمایا کہ ’’بحث میں ہمیشہ میں ہی ہا رتا ہوں اور مولانا مودودی ہمیشہ جیتتے ہیں اور انھیں جیتنا ہی چاہیے۔ اس لیے کہ لوگ ان کی دعوت پر جمع ہوئے ہیں اور میں ان کے اس داعیانہ مقام کو بھی پہچانتا ہوں، لیکن یہ کہ جس دن میں اس بات پر اصرار کروں گاکہ نہیں میری ہی رائے چلنا چاہیے، باوجود اس کے کہ جماعت میں میری رائے نہ مانی جائے یا میں ہار جائوں اوراپنی بات پر اڑ جائوں، اس دن جماعت میں انتشار پیدا ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے دو ٹکڑے ہو جائیں، اس لیے تم یاد رکھنا کہ بہر حال بات پوری دلیل سے کرنا، مگر جماعت جو فیصلہ کر لے اس سے خواہ مخواہ ٹکرانے کی کوشش نہ کرنا‘‘۔ ان کے کہنے کا مطلب یہی تھا کہ ’’رائے کچھ بھی رکھو، اس کو مناسب پیرائے میںپیش کرو، خواہ لیڈر آف دی اپوزیشن رہو، لیکن یہ کہ ہار جائو تو پھر بھی جماعت کو اس رائے پر چلنے دو، جس رائے کو جماعت قبول کرلے‘‘۔ (خودنوشت’’ لمحات‘‘ سے مقتبس)

UmerAmer
12-18-2015, 03:43 PM
Nice Sharing
Thanks for sharing

Arosa Hya
12-18-2015, 06:35 PM
جزاک اللہ خیراًکثیرا

muzafar ali
12-18-2015, 06:48 PM
Masha Allah

intelligent086
12-19-2015, 12:38 AM
http://www.mobopk.com/images/hanks4comments.gif