PDA

View Full Version : کیا 1958ء کا مارشل لا ناگزیر تھا



intelligent086
12-12-2015, 02:06 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14341_72087011.jpg.pagespeed.ic.8SzMdW_GbN .jpg

کے ایم عارف
جنرل محمد ایوب خان نے 17 جنوری 1951ء کو پاکستان آرمی کے پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف کے طور پر حلف اُٹھایا۔ تب اُن کی عمر42 برس اور سروس 22 برس ہو چکی تھی۔ اس چھوٹی عمر اور اتنی تھوڑی سروس کے ساتھ اتنا بڑا منصب سنبھالنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ ایوب ذہین تھے، سینے میں ایک دردمند دل رکھتے تھے اور لوگ اُن کا احترام کرتے تھے۔ اس کے صرف آٹھ ماہ بعد پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو 16اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ تمام قوم غم و اندوہ میں ڈوب گئی۔ وابستہ مفادات کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ برسراقتدار سیاستدانوں کیلئے ’’وزیراعظم کی زندگی کا یہ خاتمہ ان کے لئے گویاایک نئے کیرئیر کا آغاز تھا۔‘‘ ایوب خان بھی اس سے بالواسطہ مستفید ہوئے۔ 1953-54ء کے آتے آتے سیاستدانوں کی حیلہ سازیوں نے ملک میں سیاسی انتشار اور افراتفری کی فضا پیدا کر دی۔ ہر کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے پر کمر بستہ ہو گیا۔ ملک میں ابھی تک کوئی آئین نہ تھا۔ مسلم لیگ تفرقہ بازی کا شکار تھی۔ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستانیوں ک خلاف نفرت اور عداوت کے جراثیم پروان چڑھ رہے تھے۔ رفتہ رفتہ فوج، قومی سیاسیات میں ایک فیکٹر بننے لگی۔ فوج کے اس رول نے ایوب خان کو مسحور کر دیا۔ ان کی توجہ سیاسی اکھاڑے پر زیاد مرکوز رہنے گی۔ ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں: ’’میں اکتوبر 1954ء میں لندن کے ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ مجھے رات بھر نیند نہ آ سکی کیونکہ وطن سے بری بری خبریں آ رہی تھیں… میں پریشان تھا کہ گورنر جنرل غلام محمد کوئی عاقبت نا اندیشانہ اقدام نہ کر گزریں… وہ اور وزیر اعظم محمد علی بوگرہ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ غلام محمد کہیں مجھے سیاست میں نہ گھسیٹ لے جائیں اور میں اس سے اجتناب کرنا چاہتا تھا‘‘۔ تا ہم ایوب دعویٰ تو یہ کر رہے تھے کہ وہ سیاست میں ملوث ہونا نہیں چاہتے تھے، لیکن اسی رات انہوں نے پاکستان کے موجودہ اور آئندہ مسائل کا ایک مختصر تجزیہ بھی تحریر کیا۔ یہ تجزیہ اپنے مندرجات و موضوعات کے تناظر میں بہت طویل اور سیاسی نوعیت کا تھا۔ اس پیپر کا اگربنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کے مصنف کے ذہن میں کافی عرصے سے یہ سکیم پرورش پا رہی تھی۔ ایوب خاصے با خبر رہا کرتے تھے۔ علیل اور خودسر، غلام محمد طاقت کا اصل سرچشمہ تھے۔ اُن کی یکطرفہ اپروچ نے اُن کے وزیراعظم کے درمیان ایک نا پسندیدہ صورت حال پیدا کر دی تھی۔ گورنر جنرل نے 24 اکتوبر 1954ء کو آئین ساز اسمبلی برطرف کردی اور یہ اعلان بھی فرمایا کہ انہیں یہ اقدام کرتے ہوئے ’دُکھ ہو رہا ہے‘… حیرت انگیز بات یہ بھی تھی کہ گورنر جنرل نے وزیراعظم محمد علی بوگرہ کو کہاکہ وہ دوبارہ حکومت تشکیل دیں۔ یہ پیشکش ایسی تھی جسے بوگرہ ٹھکرانہ سکے۔ بظاہر بوگرہ کو کسی مہم جوئی سے باز رکھنے کے لئے گورنر جنرل نے نئی کابینہ میں جنرل ایوب خان کو وزیر وفاع کے عہدے کی پیشکش کر دی۔ ایوب نے یہ عہدہ اس شرط پر قبول کیا کہ وہ فوج کے چیف بھی رہیں گے۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ ایسا کرتے ہوئے ’وہ ملک کی مسلح افواج اور سیاستدانوں کے درمیان ایک ’بفر‘ کا فریضہ ادا کریں گے‘… ان کا یہ دعویٰ کوئی ایسا قابل اعتبار نظر نہیں آتا۔ اصل وجہ یہ تھی کہ ایوب خان اب ایک ایسی شخصیت بن چکے تھے جو ایوان اقتدار کا اصل ستون تصور ہونے لگی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ اس ستون کے ساتھ چمٹے رہیں۔ بکھرتے اور لڑکھڑاتے ہوئے سیاستدانوں کی اس کابینہ میں کمانڈر انچیف کا وزیر دفاع بنایا جانا گویا کبوتروں کے پنجرے میں بلی کو داخل کر دینا تھا۔ اس صورت حال نے ایوب اور سکندر مرزا کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ سیاسی کابینہ میں اپنے رفقائے کار کی کمزوریوں اور اُن کے مبلغ علم و دانش کا جائزہ لے سکیں۔ ایوب کا یہ کہنا کہ وہ وزیر دفاع ہوتے ہوئے بھی وردی میں رہنا چاہتے ہیں اور یوں مسلح افواج اور سیاستدانوں کے بیچ ایک ’بفر ‘ذ کا رول ادا کرنا چاہتے ہیں، محض ایک ڈھونگ تھا۔ وہ دراصل سیاسیات میں گھُسنا چاہتے تھے اور یہ ان کی حصول اقتدار کی ہوس کا ایک اظہار تھا۔ چار سال کی ٹرم پوری ہونے کے بعد ایوب خان کو جنوری 1955ء میں فوج سے ریٹائر ہو جانا چاہیے تھا،لیکن اس کی بجائے اُن کی ملازمت میں توسیع کر دی گئی۔ ایسا ہونے سے کمانڈر انچیف کو اپنے پائوں جمانے اور سیاست میں داخل ہونے کا مزید موقع مل گیا۔ 1955ء میں سکندر مرزا ہی دراصل اختیار کا سرچشمہ تھے۔1956ء میں ایک آئین ضرور بنایاگیا، لیکن ا سے روبہ عمل لانے کا موقع نہ دیا گیا۔ وسط 1958ء کے آتے آتے ایوب اور سکندر مرزا کی جوڑی قومی منظر پر پوری طرح چھا گئی۔ سیاستدانوں نے خود اپنے امیج کود اغدار کر لیا تھا اور ان کی شہرت اور وقار و احترام پاتال میں جا گرے تھے۔ حکومت اپنی بقا کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی تھی اور ایوب ریٹائر ہونے کے موڈ میں نہ تھے۔ 9جون1958ء کو وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے اُن کو مزید دو سال کے لئے توسیع دے دی۔ نون ایک کمزور وزیراعظم تھے۔ انہوں نے وہی کیا ،جس کا ایوب خان نے ان سے مطالبہ کیا۔آخر مارشل لاء کا کلہاڑا 7اکتوبر1958ء کو اہل پاکستان کی گردنوں پر آن گرا۔ صدر سکندر مرزا نے یہ کہہ کر آئین منسوخ کر دیا کہ یہ قابل عمل نہیں اور کہا کہ کوئی بھی آئین ، ملک سے بالا تر اور مقدس نہیں ہوتا۔ وہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ مارشل لاء میں اقتدار اس رائفل کی نالی سے پھوٹتا ہے، جو آرمی چیف کے ہاتھوں میں بڑی مضبوطی سے پکڑی ہوتی ہے۔ 27ا کتوبر کو ایوب نے اپنے تین جرنیل… جنرل برکی، جنرل اعظم اور جنرل خالد شیخ، سکندر مرزا کے پاس بھیجے اور انہوں نے بھیگی بلی بن کر اپنے استعفیٰ پر مختص کی ہوئی جگہ پر دستخط کر دئیے۔ یوں ایوب مطلق العنان حکمران ہو کر سامنے آئے۔ سینئر ملٹری کمانڈروں کی مدت ملازمت میں توسیع دینا ایک دو دھاری تلوار ہوتی ہے اور ملٹری سروس کے مفادات کے منافی گردانی جاتی ہے۔ چندافرادکو نواز کر اُن بہت سے لوگوں کو ناراض کر دیا جاتا ہے اور وہ اپنے تجربے اور کوالی فیکیشنز کے اعتبار سے پروموشن سے محروم کر دئیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں جن کو توسیع دی جاتی ہے، وہ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ہم ’’چومادیگرے نیست‘‘ قسم کی کوئی انوکھی مخلوق ہیں۔ اس طرح اداروں کی بجائے شخصیات، غالب کردار کی حامل بننا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایوبی مارشل لاء پہلے سے سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ اگر ایوب خان کو توسیع نہ دی جاتی تو ملک ایک بالکل مختلف سیاسی سفر پر گامزن ہو جاتا! (کتاب ’’ خاکی سائے‘‘ سے مقتبس)

KhUsHi
09-30-2016, 11:34 AM
Nice sharing

muzafar ali
09-30-2016, 09:09 PM
nice sharing ka shukrya