PDA

View Full Version : حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانیؒ کا سفر خž



intelligent086
12-06-2015, 12:29 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x14282_54967195.jpg.pagespeed.ic.z-OXGUQees.jpg

ابھی حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ بہت چھوٹے تھے کہ آپؒ کے والد محترم نے آپؒ کو ابتدائی تعلیم کے لئے مولانا نصیر الدین بلخیؒ کے مکتب میں داخل کروا دیا۔ روایت ہے کہ حضرت شیخؒ نے سات سال کی عمر میں قرآن شریف ساتوں قرأتوں کے ساتھ حفظ کیا۔ یہ انسانی حافظے اور ذہنی رسائی کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ حفظِ کلامِ الٰہی کے بعد حضرت شیخؒ درسی کتابوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپؒ کی عمر ابھی صرف گیارہ سال تھی کہ ایک جانگداز واقعہ پیش آیا۔ 577 ھ میں حضرت شیخ ؒ کے والد محترم مولانا وجیہہ الدین محمد غوث ؒ کا انتقا ل ہو گیا۔ ایسے مرحلے میں ایک شفیق بات کی جدائی اولاد کے لئے نا قابلِ برداشت ہوتی ہے مگر حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ نے اس صدمۂ عظیم کو صابرین کی طرح برداشت کیا کہ آگے چل کر آپؒ کو بہت سے بارِ گراں اُٹھانے تھے۔ مہربان چچا شیخ احمد غوث ؒ نے آپ ؒ کے سرپردستار باندھی اور آبائو اجداد کی مسند پر بٹھا دیا۔ علماء مشائخ اور اس علاقے کے زمینداروں نے حاضرِ خدمت ہو کر رسمِ تعزیت ادا کی۔ خدمت گار، ملازم اور نوکر سلام کو حاضر ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق خزانے کے نگران نے درخواست کی کہ موجودہ رقوم اور دیگر حسابات کی جانچ پڑتا ل کی جائے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت شیخؒ کے والد محترم ایک مالدار شخص تھے۔ ’’ جائیداد کے سارے انتظامات آپ سنبھالیں۔ ‘‘ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ نے عم محترم کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کیا۔’’والد محترم کے بعد آپ ہی میرے بزرگ ہیں۔‘‘ یہ سن کر حضرت شیخ احمد غوث ؒ آبدیدہ ہو گئے۔ ’’بس میری ایک درخواست ہے کہ مجھے تحصیلِ علم کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ میں اس کے سوا کچھ نہیں چاہتا۔‘‘حضرت شیخؒ نے عرض کیا۔ ’’میرے عزیز بھائی کی نشانی! تم نے مجھے مایوس نہیں کیا۔‘‘ شیخ احمد غوثؒ نے بھتیجے کو گلے سے لگا لیا۔ ’’تمہارے باپ کی طرح میری بھی یہی خواہش ہے کہ خداوند ذوالجلا ل تمہیں علم کی دولت سے مالا مال کرے۔ یہ سیم و زر کے چند سکے تمہاری پہچان نہیں۔ تمہارا تخت مسندِ علم ہے، تمہارا تاج دستارِ فضیلت ہے اور یہی تمہاری شناخت ہے۔‘‘ بھتیجے کی طرف سے اس خواہش کا اظہار ہوتے ہی شیخ احمد غوث ؒ نے بڑے بڑے علماء کو ’’کوٹ کروڑ‘‘ میں جمع کیا۔ مولانا عبدالرشید کرمانیؒ بھی حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے اساتذہ میں شامل تھے۔ محلّہ کڑہ (ملتان) کے اندر ایک مسجد کے جنوبی حجرے میں مولانا عبدالرشید کرمانیؒ کا مزارِ مبارک مرجع خلائق ہے۔ مقامی علماء سے اکتسابِ علم کرنے کے بعد حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ نے خراسان کا سفر اختیارکیا۔ ان دنوں خراسان کا شمار علومِ مشرقیہ کے بڑے مراکز میں ہوتا تھا۔ حضرت شیخ ؒایک قافلے کے ہمراہ خراسان پہنچے اور سات سال تک مختلف علماء اور مشائخ سے علومِ ظاہری حاصل کرتے رہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کا طریقِ کار یہ تھا کہ چند دن تک ایک استاد کی خدمت میں حاضر رہتے اور ان کے سینے میں جس قدر علم ہوتا اُس کا مکاشفہ کر لیتے۔پھر دوسرے استاد کی خدمت میں حاضر ہو جاتے۔ اس طرح آپؒ نے چار سو چوالیس با کمال اساتذہ کے آگے زانوئے تلمذ طے کیا اور سند فضیلت حاصل کی۔ کم نظر اور سطحی علم رکھنے والے حضرات اس روایت پر شکوک و شبہات کا اظہار کریں گے کہ ہفتہ دس دن کے مختصر عرصے میں ایک باکمال شخص کے علم کا احاطہ کرنا کس طرح ممکن ہے؟ دراصل ہمارے تاریخ نویسوں اور سیرت نگاروں میں ایک بڑی کمی یہ ہے کہ وہ روایت بیان کرتے وقت اس کی وضاحت نہیں کرتے۔ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ ذہین ترین انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کی طبیعت اور ذہن میں ایک ایسی مقناطیسی صلاحیت رکھی تھی کہ اگر ایک بار کوئی نکتہ سن لیتے تو اس کے سارے معانی اور مفاہیم آپؒ کے شعور میں جذب ہو کر رہ جاتے۔ ہفتہ دس دن میں کسی اہلِ کمال کا سارا علم حاصل کر لینا، اسی صلاحیت کی طرف اشارہ ہے۔ یہاں علم کی مادّی مقدار کا ذکر نہیں، علم کی روح مراد ہے۔ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کا یہی وصفِ خاص تھا کہ آپؒ اپنے اساتذہ کے ذہن رسا تک سفر کرتے تھے اور ان کے طرزِ استدلال اور نکتہ آفرینی کے جواہر اپنی ذات میں سمونے کی کوشش کرتے تھے۔ یہاں یہ بات ہمارے قارئین کے علم میں اضافے کا سبب ہو گی کہ آپؒ اپنے اساتذہ کے علم کی روح کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ علم الفاظ کے ذخیرے او رروایتوں کے انبار کا نام نہیں۔ حقیقی علم وہی ہے جو انسان کے فکری اور معاشرتی مسائل کا حل کر سکے۔ خراسان کے بعد حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ بخارا تشریف لے گئے۔ اس وقت بخارا، خراسان سے بھی بڑا علمی مرکز تھا۔ یہاں بھی حضرت شیخ ؒ کے پاس دو ہزار سے زیادہ کتابیں جمع ہو گئی تھیں۔ اس زمانے میں جبکہ طباعت کا انتظام نہیں تھا، دو ہزار کتابوں کو بہت بڑا علمی خزانہ کہا جا سکتا ہے۔ ’’تذکرۂ اولیائے کرام ‘‘ کے مؤلف کا بیان ہے کہ حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ نے بخارا میں آٹھ سال قیام فرمایا۔ یہاں کے لوگ حضرت شیخ ؒ کے اوصافِ حمیدہ سے یہاں تک متاثر ہوئے کہ آپؒ کو ’’بہاء الدین فرشتہ‘‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ ٭…٭…٭

UmerAmer
12-06-2015, 02:42 PM
Nice Sharing
Thanks for sharing

intelligent086
12-08-2015, 01:07 AM
http://www.mobopk.com/images/pasandkarnekabohatbo.png

Arosa Hya
12-16-2015, 11:10 AM
http://www.friendskorner.com/forum/photopost/data/788/jakakallahkhair.gif