PDA

View Full Version : نویں محرم الحرام



IQBAL HASSAN
10-21-2015, 09:42 PM
نویں محرم الحرام



نویں محرم الحرام بروز جمعرات کی شب کو امام حسین اور عمر بن سعد میں آخری گفتگو ہوئی۔آپ کے ہمراہ حضرت عباس اور علی اکبر بھی تھے۔آپ نے گفتگو میں ہر قسم کی حجت تمام کر لی۔

نویں کی صبح کو آپ نے حضرت عباس کو پھر کنواں کھودنے کا حکم دیا لیکن پانی بر آمد نہ ہوا۔

تھوڑی دیر کے بعد امام حسین نے بچوں کی حالت کے پیشِ نظر پھر عباس سے کنواں کھودنے کی فرمائش کی آپ نے سعی بلیغ شروع کردی جب بچوں نے کنواں کھدتا ہوا دیکھا تو سب کوزے لے کر آپہنچے۔ابھی پانی نکلنے نہ پایا تھا کہ دشمنوں نے آکر اسے بند کر دیا۔

دشمنوں کو دیکھ کر بچے خیموں میں جا چھپے۔پھر تھوڑی دیر کے بعد حضرت عباس (ع) نے کنواں کھودا وہ بھی بند کر دیا گیا حتی کہ چار کنویں کھودے اور پانی حاصل نہ کر سکے۔ اس کے بعد امام حسین (ع) ایک ناقہ پر سوار ہوکر دشمن کے قریب گئے اور اپنا تعارف کرایا لیکن کچھ نہ بنا ۔

مورخین لکھتے ہیں کہ نویں تاریخ کو شمر کو فہ واپس گیااور اس نے عمر ابن سعد کی شکایت کرکے ابن زیاد سے ایک سخت حکم حاصل کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اگرحسین (ع) بیعت نہیں کرتے تو انھیں قتل کرکے ان کی لاش پرگھوڑے دوڑادے اور اگر تجھ سے یہ نہ ہو سکے تو شمر کو چار ج دے دے ہم نے اسے حکم تعمیل حکم یزید دے دیا ہے۔

ابن زیاد کا حکم پاتے ہی ابن سعد تعمیل پر تیار ہو گیا۔اسی نویں تاریخ کو شمر نے حضرت عباس(ع) اور ان کے بھائیوں کو امان کی پیش کش کی انھوں نے بڑی دلیری سے اسے ٹھکرادیا ( تفصیل کے لیے ملاخطہ ہوذکر العباس از176تا182)

اسی نویں کی شام آنے سے پہلے شمر کی تحریک سے ابن سعد نے حملہ کاحکم دے دیا۔امام حسین (ع) خیمہ میں تشریف فرما تھے۔آپ کو حضرت زینب(ع) پھر حضرت عباس (ع) نے دشمن کے آنے کی اطلاع دی۔حضرت نے فرمایا کہ مجھ پر ابھی غنودگی طاری ہو گئی تھی۔میں نے آنحضرت کو خواب میں دیکھا۔انھوں نے فرمایا کہ انک تروح غدا حسین (ع) تم کل میرے پا س پہنچ جاؤ گے .

جناب زینب رونے لگیں اور امام حسین (ع) نے حضرت عباس (ع) سے فرمایا کہ بھیا تم جاکر ان دشمنوں سے ایک شب کی مہلت لے لو۔حضرت عباس(ع) تشریف لے گئے اور لڑائی ایک شب کے لیے ملتوی ہو گئی۔ تا کہ یزیدی لشکر کو ایک رات اور یہ سوچنے کاموقع مل جائے اور نواسہ رسول یہ رات اپنے پروردگارکی عبادت اور دعا میں بسر کریں ۔رات کی تاریکی صحرائے کربلا میں ہرطرف پھیل چکی تھی

۔امام حسین (ع) نے اہل حرم کے خیموں کی پشت پر خندق کھودنے کا حکم دیا اور جب خندق تیار ہوگئی تو اس میں آگ جلوادی تا کہ دشمن کا لشکر پیچھے سے خیموں پر حملہ نہ کرسکے اور پھر پشت خیمہ سے مطمئن ہو گئے تو حضرت امام حسین علیہ السلام نےاپنے اصحاب کو خیمے میں طلب کیا اور چراغ گل کرکے فرمایا جوجانا چاہتا ہے وہ رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاکر چلا جائے ۔لیکن امام مظلوم علیہ السلام کے اصحاب باوفا نے اس بات کا پختہ عزم رکھا تھا کہ وہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے نواسۂ رسول (ص) اور دین کا دفاع کریں گے ۔

رفقاء سے سیدنا حضرت امام حسین علیہ السلام کا تاریخی خطاب

ابن سعد کے دستے واپس لوٹنے کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے رفقاء کو جمع کیا۔ اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے بعد آپ علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے نہایت فصیح و بلیغ خطاب فرمایا کہ

’’میں کسی کے ساتھیوں کو اپنے ساتھیوں سے زیادہ وفادار اور بہتر نہیں سمجھتا اور نہ کسی کے اہل بیت کو اپنے اہل بیت سے زیادہ نیکوکار اور صلہ رحمی کرنے والا دیکھتا ہوں۔میرے اصحاب جیسے اصحاب تو میرے بابا علی کو اور میرے بھائی حسن کے بھی نہیں تھے ۔ اﷲ تعالیٰ تم سب کو میری طرف سے جزائے خیر عطا کرے گا۔ اگر تم میں سے کوئی جانا چاہتا ہے تو رات کی تاریکی میں چلا جائے۔ بے شک یہ لوگ میرے ہی قتل کے طالب ہیں جب مجھے قتل کریں گے تو پھر کسی اور کی ان کو طلب نہیں ہو گی مگر آپ علیہ السلام کے اصحاب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے

’’اے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ پر اپنی جانیں قربان کر دیں گے، ہم اپنی گردنوں، پیشانیوں، ہاتھوں اور جسموں سے آپ علیہ اسلام کا دفاع کریں گے۔ جب ہم قتل ہو جائیں گے تو سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔‘‘
(البدایہ والنہایہ، 8 / 176 – 177)

آپ علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے جذبات سن کر انہیں اجازت مرحمت فرمائی اور پھر آپ کے اصحاب نے آپ کی معیت میں رات بھر نوافل ادا کئے اور بارگاہِ ایزدی میں عاجزی و انکساری کے ساتھ مغفرت کی دعائیں مانگیں۔
(البدایہ والنہایہ، 8 / 177)، (ابن اثیر، 4 / 59)

نو محرم کی رات کو صحرائے کربلا میں خدا کے برگزیدہ ،باایمان اور شجاع بندوں کی عبادت و مناجات کی صدائیں بلند ہورہی تھیں ۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کے اصحاب تعداد میں تھوڑے تھے لیکن پہاڑ سے زیادہ ثابت قدم تھے ۔چنانچہ ایک لمحے کے لئے بھی سیّد الشّہدا علیہ السلام کی مددو نصرت سے غافل نہ ہوئے .

حسین (ع) ابن علی (ع) نے فطرتیں بدلی ہیں اک شب میں
بجھی ہے شمع اور محفل سے پروانے نہیں جاتے

72 جان نثار ، اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے کھڑے تھے اور حقیقی معنوں میں “کل ایمان “ کل کفر و نفاق سے جنگ و مقابلے کے لئے تیار تھا ۔

intelligent086
10-22-2015, 10:46 AM
http://www.mobopk.com/images/mashaallahjazakajej.gif