PDA

View Full Version : احسان دانش… شاعر، ادیب اور معمار



intelligent086
09-16-2015, 02:06 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13768_80680508.jpg.pagespeed.ic.BM34hCzpQu .jpg

عبدالحفیظ ظفر
’’بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں، تنہائی جنہیں دہراتی ہے۔‘‘ مہدی حسن کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت جب بھی کانوں سے ٹکراتا ہے تو انسان گویا اداسیوں کے صحرا میں بھٹکنے لگتا ہے۔ لیکن یہ اداسی بے معنی نہیں بلکہ اپنے اندر کئی مفاہیم لیے ہوئے ہے۔ اسے اداسی کی مہک کہنا چاہیے۔بقول شاعر ؎ اداسیوں کی مہک ہر طرف بکھرتی ہے ہماری طرح انساں جہاں گزرتے ہیں مذکورہ بالا گیت احسان دانش نے شباب کیرانوی کی ایک فلم کیلئے لکھا تھا اوراس گیت نے شہرت کی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ شباب کیرانوی چونکہ احسان دانش کے شاگرد تھے اس لئے ان کی درخواست پر احسان دانش نے یہ گیت تحریر کیا۔ وہ کوئی باقاعدہ نغمہ نگاری نہیں کرتے تھے۔ احسان دانش کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ وہ بلند پایہ شاعر بھی تھے، بے مثل ادیب بھی اور بڑے باکمال معمار بھی۔ انہوں نے مزدوری بھی کی اور پھر معمار (Architect) کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ وہ تمام زندگی مشقت کی چکی گھماتے رہے۔ مزدور کی زندگی کیا ہے اوراسے دووقت کی روٹی کمانے کیلئے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ صرف وہی جانتا ہے۔ اس حوالے سے احسان دانش کا یہ عدیم النظیر شعر ملاحظہ کیجئے۔ ؎ اس شہرمیں مزدور جیسا دربدر کوئی نہیں جس نے سب کے گھربنائے اس کا گھر کوئی نہیں احسان دانش 1914ء میں کھنڈالہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام احسان الحق تھا۔ غربت و افلاس کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ انہوں نے خود ہی عربی اور فارسی سیکھی ۔ پھر وہ لاہور آ گئے اور مستقل طور پر اس شہر میں سکونت اختیار کرلی۔ روٹی روزگار کیلئے انہیں سخت محنت کرنا پڑی۔ کیریئر کے شروع میں وہ رومانوی شاعری کی طرف راغب تھے۔ لیکن بعد میں انہوں نے مزدوروں کیلئے نظمیں تخلیق کیں اور انہیں شاعر مزدورکا خطاب دیا گیا۔ ان کی شاعری نے عام آدمی کو بہت متاثر کیا۔ ان کا شعری اسلوب سادہ تھا اور ان کا شعری اسلوب ہی ان کی شہرت کا باعث بنا۔ ان کی شاعری میں سلاست اور روانی تھی ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ خیال کی ندرت بھی تھی۔ ان سب خوبیوں نے احسان دانش کو برصغیر کے ممتاز اردو شعراء کی صف میںلاکھڑا کیا۔ انہوں نے دیوان غالب کی شرح بھی لکھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کا بہت سا کلام ابھی تک شائع نہیں ہوا۔ انہوں نے 80 سے زیادہ کتابیں لکھیں اور سینکڑوں مضامین بھی تحریر کیے۔ ان کی مشہورکتابوں میں ’’جہانِ دانش، جہان دیگر، تذکیروتانیث، ابلاغ دانش، آواز سے الفاظ تک، درد زندگی، حدیث ادب اور نقیرفطرت’’ شامل ہیں۔ ’’جہان دانش‘‘ احسان دانش کی معرکۃ آلارا تصنیف ہے۔ یہ ان کی خودنوشت ہے جو ان کی زندگی میں پیش آنے والے حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔ انداز بیان اس قدر اثر انگیز ہے کہ مطالعے کے دوران قاری کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ یہ خودنوشت دانش صاحب کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ ان کے شاگردوںکی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ احسان دانش ایک صاحب احساس اور انسان دوست شخص تھے۔ انہوں نے زندگی کی تلخیوں کا زہر پیا تھا اور وہ اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھے کہ دکھ کیا ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ احسان دانش شاعر مزدور بھی کہلائے لیکن انہوں نے جس طمطراق سے رومانوی شاعری کی وہ حیرت انگیز ہے۔ افلاس کی چکی میں پسنے والا شخص لطیف جذبات کا کیسے حامل ہوسکتا ہے؟ احسان دانش نے بہرحال یہ ثابت کر دکھایا وگرنہ ساحر لدھیانوی تو کہتے ہیں ’’مفلسی، حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے‘‘۔ رومانوی شاعری کے حوالے سے احسان دانش کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کیجئے۔ ؎ اب کہ یوں دل کو سزا دی ہم نے اس کی ہر بات بھلا دی ہم نے ؎ یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے ساتھ چل موج صبا ہو جیسے لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں تومجھے بھول گیا ہو جیسے احسان دانش نے اپنی شاعری کا دائرہ محدود نہیں رکھا۔ انہوں نے معروضی حقائق کو بڑی خوبصورتی سے اپنے احساسات کا لباس پہنایا۔ اس سے ان کی شاعری کی کئی جہتیں سامنے آ گئیں۔ مندرجہ ذیل اشعار دیکھئے:۔ ؎ زندگی تجھ سے شکایت ہی کہاں تھی لیکن تیری تلخی میرے لہجے سے عیاں تھی لیکن ؎ نظر فریب قضا کھا گئی تو کیا ہوگا حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا غم حیات سے بے شک ہے خودکشی آسان مگر جو موت بھی شرما گئی تو کیا ہوگا ؎ وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے ایک طرف ان کی شاعری تخیل کے حوالے سے قاری کو بہت متاثر کرتی ہے تو دوسری طرف ان کی شاعری کے فنی محاسن کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ شعر کی باریکیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری کا ایک اور وصف نکتہ آفرینی بھی تھا۔ یہ شعر ملاحظہ کیجئے۔ ؎ احسانؔ ہے بے سودگلہ ان کی جفا کا چاہاتھا انہیں ہم نے خطا وار ہمی تھے احسان دانش تمام عمر ادب کے نایاب موتی بکھیرتے رہے۔ بے شمار لوگوں نے ان سے فیض حاصل کیا۔ صرف شعرو ادب کے حوالے سے ہی نہیں، وہ پیہم جدوجہد کے حوالے سے بھی دوسروں کے لئے مثال بنے رہے۔ طلباء کے ساتھ وہ بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔ جب بھی کوئی نوجوان ان کے پاس جاتا تھا اور اس خواہش کا اظہار کرتا کہ وہ شاعری کے میدان میں نام کمانا چاہتا ہے تو وہ مسرت کا اظہار کرتے لیکن ساتھ میں یہ نصیحت بھی کرتے کہ پہلے اپنی تعلیم مکمل کرو۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ شاعری کو ناگزیر نہ سمجھا جائے۔ پہلے رزق کمانے کے وسائل تلاش کیے جائیں۔ نوجوانوں کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ پہلے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں تاکہ انہیں معاشی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پھر اگر قدرت نے تخلیقی صلاحیتوں سے نوازا ہے توشعر و سخن کے میدان میں بھی جھنڈے گاڑے جاسکتے ہیں۔ 1978ء میں انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ آخری سانس تک ان کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ 1982ء کو یہ عدیم النظیر شاعر اورادیب عالم جاوداں کو سدھار گیا۔ انہوں نے اپنی موت کے حوالے سے بھی کیا خوبصورت شعر کہا ہے۔ ؎ موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے ٭…٭…٭

UmerAmer
09-16-2015, 08:28 PM
Nice Sharing
Thanks for sharing

intelligent086
09-18-2015, 02:31 AM
پسندیدگی کا شکریہ

KhUsHi
10-23-2015, 03:09 PM
بہت عمدہ اور لاجواب پوسٹ شیئر کرنے کا شکریہ
مزید اچھی اچھی شیئرنگ کا انتظار رہے گا