PDA

View Full Version : ڈی این اے۔۔۔۔۔۔ایک زندہ معجزہ



intelligent086
09-14-2015, 12:35 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13754_22629556.jpg.pagespeed.ic.99laAN4TvQ .jpg

فائزہ نذیر احمد
ڈی این اے میں ایک ایسے جین کی دریافت کا دعویٰ کیا گیا ہے جس کاتعلق محبت سے ہے،نئی دریافت جیون ساتھی ڈھونڈنے والوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی جا رہی ہے ویسے ویسے ہی خدائی کے راز کھلتے جا رہے ہیں۔ آج سائنس کے مختلف شعبے وجود خدا کے ایسے دستاویزی ثبوت پیش کررہے ہیں کہ انہیں نظر انداز کرنا اور جھٹلانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ ڈی این اے کا شمار بھی اللہ کے ایسے ہی معجزے میں ہوتا ہے۔ مخلوق کی تخلیق ماں اور باپ کے ایک ایک خلیے (جن میں ہر ایک کے تیئس تئیس کروموسومز ہوتے ہیں) کے مل کر بننے والے ایک خلیے سے ہوتا ہے۔ یہ ایک خلیہ جسے زائی گوٹ کہا جاتا ہے۔ تقسیم ہوتا رہتا ہے۔ یعنی ایک سے دو دو سے چار چار سے آٹھ اور اس طرح خلیوں کی تعداد اور اقسام بڑھتی رہتی ہیں۔ ان خلیوں کا سائز انسانی تصور سے باہر ہے۔ مثلاً ایک پن کے سر یعنی ہیڈ جتنی جگہ پر دس لاکھ خلیے باآسانی سماسکتے ہیں۔ ان خلیوں میں سے ہر ایک خلیے میں ایک دنیا آباد ہوتی ہے۔ جس طرح کمپیوٹر کے براؤزر پر نظر آنے والے صفحہ کے پیچھے ایچ ٹی ایم ایل کے رموز کارفرما ہوتے ہیں اسی طرح زمین پر چلتی پھرتی زندگی کے پیچھے ڈی این اے کے رموز ہوتے ہیں۔ یعنی کسی جاندار کی ظاہری شکل و صورت اور رویہ، طرز ظاہری دراصل اسکے خلیات میں موجود ڈی این اے کے اندر پوشیدہ جینیٹک کوڈ سے بنتا ہے۔ ڈی این اے میں لکھا گیا پوری زندگی کا یہ افسانہ جینوٹیپ کہلاتا ہے۔ڈی این اے جو خون کے سرخ خلیوں کے علاوہ جسم کے ہر خلیے میں پایا جاتاہے۔ ڈی این اے دراصل خلیے کی پراسرار مملکت کا ڈکٹیٹر ہے۔ یہ سخت گیر منظم تمام خلیوں کو اپنے حکم پر چلاتا ہے۔ ڈی این اے ہی خلیوں کے تمام نظاموں کو حکم دیتا ہے، کسے کیا کرنا ہے اور کیا بننا ہے۔ اس کے علاوہ کہاں سے اور کس قدرحاصل کرنا ہے۔ ڈی این اے کو اگر آرکیٹیکٹ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ جس طرح آرکیٹیکٹ کا کام عمار ت کی تعمیر سے پہلے نقشہ یا بلیو پرنٹ تیار کرنا ہوتا ہے۔ جو نقشہ بعد میں ٹھکیدار کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ جونقشے کے مطابق تعمیر کا کام شروع کردیتا ہے۔ لیکن آرکیٹیکٹ کا کام عمارت کی تعمیر ہونے تک کام کی نگرانی کرنا ہوتا ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو کم و بیش پچاس ٹریلین خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ان خلیوں کی تیزی سے کاپیاں تیار کرنے کی پراسرار صلاحیت تو اپنی جگہ لیکن خلیے کے اندر قدرت کا سب سے بڑا معجزہ دراصل اس کا ڈی این اے ہے۔ ڈی این اے ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی دو ڈوریوں کی مانند ہوتا ہے۔ بچے کے مستقبل کے لامحدود امکانات، ناقابل شمار اطلاعات، معلومات اور پروگرام ڈی این اے میں اسٹور ہوتے ہیں۔ اسی کی مدد سے ایک ننھا سا غیر مرئی خلیہ اپنے اندر معلومات کا سمندر چھپائے ہوتا ہے۔ بچے کے جسم کی تعمیر اور تاحیات اسے قابل استعمال رکھنے کیلئے جس نقشے کی ضرروت ہوتی وہ نقشہ یا بلیو پرنٹ ڈی این اے کی شکل ہر خلیے میں موجود ہوتا ہے۔ اعضا کی تیاری، بناوٹ، تعمیر ،تنصیب ،کارکردگی اورسروس کوالٹی سے سب تفصیلات پہلے ہی سے ہر خلیے کے ڈی این اے میں کوڈز کی شکل کی موجود ہوتی ہے۔ مثلاجسم کا سب سے اہم اور مرکزی کیمکل پلانٹ جگر کس طرح تعمیر ہوگا ؟کب مکمل ہوگا اور کب کام شروع کرے گا؟ اس کی تعمیر کس قسم کا خام مال درکار ہوگا ؟یہ مال کہاں سے آئے گا یایہ کہ بچے کے بالو ں اور آنکھوں کارنگ کیسا ہوگا؟ کون سے عضو کی تعمیر کا کام کب اور کس مقام پر روک دیا جائیگا؟بڑے ہونے کے بعد انسان کا مزاج کیسا ہوگا ؟کون سے بیماری اسے پریشان کرے گی؟ یا یہ کہ بچے میں ماں باب دادا دادی نانا نانی کو کون سی خصوصیات پائی جائیں گی؟یہ سن کر حیرت ہوگی کہ اگر ایک انسان کے خلیوں میں سے ڈی این اے کے دونوں دھاگوں کو نکال کر ایک قطار میں رکھ دیا جائے تو یہ قطار زمین سے چاند کے فاصلے سے کئی ہزار گناہ زیادہ بڑی ہوگی۔ شریک حیات کون ہو؟ سائنس دان ڈی این اے پر بہت کام کر رہے ہیں اوراس کے نئے نئے پہلو سامنے آرہے ہیں۔ انسانی ڈی این اے میں ایک ایسے جین کی دریافت کا دعویٰ کیا گیا ہے جس کاتعلق محبت سے ہے۔نئی دریافت اپنا جیون ساتھی ڈھونڈنے والوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ اب انہیں سچی محبت کرنے والے ساتھی کی تلاش کے لیے طویل وقت اور لمبی سوچ بچار صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، ڈی این اے کا صرف ایک مخصوص ٹیسٹ ان کی یہ مشکل حل کرسکتا ہے۔ آنے والے برسوں میں بہت سے لوگ اپنی محبت کے اظہار کے لیے خوبصورت اشعارسنانے، دل کی تاروں کو چھونے والے جملے بولنے اور گلاب کے پھول پیش کرنے کی بجائے صرف اپنے جینیاتی کوڈ کی ایک نقل پیش کرنے لگیں گے۔ ٭…٭…٭