PDA

View Full Version : مادام گوگوش کے لئے ہمہ تن گوش…



intelligent086
09-05-2015, 11:10 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13723_91437111.jpg.pagespeed.ic.MMqfg3p01Y .jpg

حفیظ درویش
خانم گوگوش ایرانی گلوکارہ اور اداکارہ ہیں۔ان کا اصل نام فائقہ آتشین ہے جبکہ دنیائے میوزک میں ان کو گوگوش کے نام سے جانا جاتاہے۔ آج کل ان کا ایک مشہور زمانہ گانا ’من آمدم‘ یعنی ’میں آگئی ہوں‘ کو گل پانڑہ اور عاطف اسلم نے کوک سٹوڈیو کے لئے گایا ہے۔گل پانڑہ کو آج کل ٹی وی پر گل پنرہ کے نام سے پکارا جارہا ہے جو کہ غلط ہے۔ اس کا اصل پشتو نام گل پانڑہ ہے جس کامطلب ہے پھول کی پتی۔ خیر بات ہورہی ہے ’من آمدم‘ کی جو عاطف نے اس کے ساتھ مل کر گایا ہے۔اگر سچی بات کہی جائے تو ان دو سنگرز نے خانم گوگوش کے اس گانے کو دوبارہ گا کراس کی شان میں گستاخی کی ہے۔ کیونکہ ان اس حرکت کی وجہ سے ہمارے ذہن میں اس گانے کا جو سابقہ سریلا، شرمیلا، لچکیلا اور جاودئی تاثر تھا اس کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔کہاں خانم گوگوش کی ادائیں، آواز کا زیروبم اور نزاکت اور کہاں گل پانڑہ اور عاطف اسلم جیسے خانہ پری کرنے والے سنگرز کی جذباتیت سے عاری آوازوں کا بے سرا ملاپ۔ گوگوش ایک ایسی بلبل ہیں کہ جو من سے گاتی ہیں اور یہ پرواہ نہیں کرتیں کہ ساون ہے یا کڑی دھوپ ہے۔ وہ دنیا سے بے پرواہ اپنے من کی گہر ائیوں سے جذبے چن کر سامعین کے حسن سماعت کی نذر کرتی ہیں۔ ان کی آواز میں زمزموں کے مدھر سر سنے جاسکتے ہیں۔ جنگلی پرندوں کی چہکار سنی جاسکتی ہے اور صحرائی پرندوں کی سوز بھری آوازوں کا درد محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اور ا ن کی آواز میں یہ سوز، یہ ادا، یہ ہجرائی کیفیت کسی مادی ترغیب کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس فطری رجحان کی وجہ سے ہے جو وہ لے کر پیدا ہوئی ہیں۔لیکن ہمارے سنگرز نے ان کے گانے کے ساتھ جو کیا ہے اس میں کسی قسم کا جذبہ تو نظر نہیں آیا ہاں یہ واضح طور پر ضرور محسوس ہورہا تھا کہ یہ سب کرکے ان کو کتنا مالی فائدہ ہونے والا ہے۔ گوگوش نے جو سہا اور جس قسم کے حالات کا مقابلہ کیا اس کا تصور ہمارے یہ جلیائی ( بالوں کو جل کی مدد سے کھڑا کرنے والے) سنگرز نہیں کرسکتے۔ اب جبکہ گوگوش کا ذکر چھڑ ہی گیا ہے تو تھوڑی بات ان کے فن اور شخصیت کے حوالے سے بھی ہوجائے۔ یہ ایرانی گلوکارہ 1950ء کے تقریباً وسط میں تہران میں آذربائیجان سے ہجرت کرنے والے ایک خاندان میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اپنے والد کے ساتھ تین سال کی عمر سے اسٹیج پر پرفارم کرنا شروع کیا اور 1970ء میں وہ ایران کی سب سے معروف گلوکارہ بن گئیں۔جبکہ یہ اپنے منی سکرٹس اور بوائے کٹ بالوں کی وجہ سے بھی ایک منفرد پہچان رکھتی تھیں۔ان کی آواز کے جادو نے نہ صرف عام لوگوں کے دلوں کو موہ لیا بلکہ شاہی محل کے افراد بھی ان کی آواز کے سحر سے نہ بچ سکے۔ پھر ان کو شاہی محل میں مدعو کیاگیا جہاں انہوں نے رضا شاہ پہلوی کے بیٹے کی سالگرہ کے موقع پر اپنی آواز سے سامعین کو سحر زدہ کردیا۔ اس کے بعد 1979ء میں اسلامی انقلاب کی وجہ سے فنکاروں اور گلوکاروں کے لئے کڑا وقت شروع ہوگیا۔ گوگوش اس وقت لاس اینجلس میں تھیں۔ لیکن انہوں نے ایران واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح بلبل ایران کی چہکار پابندیوں کی زد میں آگئی۔ اور ان پر یہ پابندی کوئی 21 سال عائد رہی۔ اس دوران وہ اپنے گھر کی دیکھ بھال کرتی رہیں اور کتابیں پڑھتی رہیں۔ گوگوش کی مدھر آواز نے صرف ایرانیوں کو اپنا گرویدہ نہیں کیا بلکہ خطے کے دیگر ممالک آذربائیجان، افغانستان اور پاکستان میں بھی ان کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اس طرح دار سنگرنے 1975ء میں پاکستان آکر پرفارم کیا اور لوگوں کی طرف سے بے تحاشا پذیرائی سمیٹی۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ 1979ء میں دوبارہ پاکستان آئیں گی لیکن انقلاب ایران کے بعد ان پر دیگر ممالک میں جاکے گانے پر پابندی عائد کردی گئی۔ جس کی وجہ سے پاکستانی شائقین کو انہیں دوبارہ دیکھنے اور سننے کا موقع نہ ملا۔ گوگوش نے ایرانی انقلاب سے پہلے 30 کے قریب فلموں میں کام کیا اور 17 میوزک البم ریلیز کیے۔انہوں اپنی پہلی فلم میں 1960ء میں کام کیا جبکہ 1970 ء میں پہلا البم ریلیز کیا۔ اس کے بعد انہوں نے 19 سال کے عرصے میں 30 فلمیں اور 17 میوزک البم ریلیز کیے۔ جس کے بعد 1979ء میں ان کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور اپنا کیریئر چھوڑ کر انہوں نے خود کو گھر تک محدود کرلیا۔ 1975ء میں ان کی شادی ایرانی اداکار بہروزوثوقی سے ہوئی۔ جو بمشکل ایک سال چل پائی اور پھر انہوں نے 1976ء میں طلاق لے لی۔ ان کی دوسری شادی ایرانی فلم ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور سکرین رائٹر مسعود کیمیائی سے 1991 ء میں ہوئی اور اس شادی کا انجام 2003 ء میں ہوا۔ 2000ء میں گوگوش نے میوزک کی دنیا میں واپس آنے کا اعلان کیا جس کے بعد انہوں نے کینیڈامیں جاکر پرفارم کیا۔جب وہ گا رہی تھیں تو فرط جذبات سے ان کی آواز کانپ گئی۔ لیکن یہ تھوڑی دیر کے لئے تھا۔ جیسے ایک مچھلی کو جب دوبارہ پانی میں چھوڑا جاتا ہے تو وہ ایک دم سے تڑپ کر گہرائی میں اترنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی طرح وہ جذبات میں ڈوب گئیں۔ لیکن سننے والوں نے کہا کہ 21 سال کے بعد واپس آنے والی گوگوش کی آواز پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور تواناتھی۔ اس کے بعد انہوں نے دبئی کا رخ کیا اوروہاں پر دوکنسرٹ کیے۔ افواہ یہ تھی کہ یہ گوگوش کے آخری کنسرٹس ہیں اور اس کے بعد وہ واپس ایران چلی جائیں گی۔ جس کی وجہ سے ان کو آخری بار دیکھنے کیلئے 3 لاکھ سے زائد لوگوں نے کنسرٹ اسٹیڈیم کا رخ کیا۔لیکن بعد میں گوگوش نے اعلان کیا کہ وہ دوبارہ ایران نہیں جائیں گی۔ اب وہ اپنے دوگھروں ٹورنٹو اور لاس اینجلس میں رہتی ہیں اور وہاں سے دنیا کے مختلف ممالک کے دورے کرتی ہیں۔ میوزک کی دنیا میں دوبارہ آنے کے بعد سے اب تک انہوں نے سات میوزک البم ریلیز کیے ہیں۔ یہ وہ اساطیری کردار ہیں جن سے کہا گیا کہ واپس لوٹ جاؤ۔ لیکن وہ واپس نہیں گئیں۔ا گرچہ انہوں نے 21 سال تک اپنے سروں کو قید کئے رکھا لیکن آخر کار وہ اپنے اندر سے پھوٹتے سروں کے سمندر کو قابو نہ رکھ سکیں اور ایک بار پھر اسٹیج کا رخ کرلیا۔ یہ ہوتے ہیں فنکار اور یہ ہوتا ہے کام کرنے کا جذبہ۔ ایسے میں پاکستانی فن کاروں سے گزارش ہے کہ مانگے تانگے کے گیتوں سے اپنی روزی روٹی کمانا بند کردیں۔ اگر کسی کو خراج تحسین پیش کرنا ہے تو ڈھنگ سے کریں اور اگران کے کسی گانے سے انصاف کرنا ممکن نہیں تو بالکل نہ گائیں۔ لیکن یوں کسی کے گانوں کا اچھوتا پن اور الوہی تاثر خراب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (بہ شکریہ: دنیا پاکستان

UmerAmer
09-05-2015, 02:58 PM
Nice Sharing
Thanks for sharing

intelligent086
09-06-2015, 01:35 AM
Nice Sharing
Thanks for sharing


http://www.mobopk.com/images/pasandbohatbohatvyv.gif

Dr Danish
09-15-2015, 09:30 PM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13723_91437111.jpg.pagespeed.ic.MMqfg3p01Y .jpg

حفیظ درویش
خانم گوگوش ایرانی گلوکارہ اور اداکارہ ہیں۔ان کا اصل نام فائقہ آتشین ہے جبکہ دنیائے میوزک میں ان کو گوگوش کے نام سے جانا جاتاہے۔ آج کل ان کا ایک مشہور زمانہ گانا ’من آمدم‘ یعنی ’میں آگئی ہوں‘ کو گل پانڑہ اور عاطف اسلم نے کوک سٹوڈیو کے لئے گایا ہے۔گل پانڑہ کو آج کل ٹی وی پر گل پنرہ کے نام سے پکارا جارہا ہے جو کہ غلط ہے۔ اس کا اصل پشتو نام گل پانڑہ ہے جس کامطلب ہے پھول کی پتی۔ خیر بات ہورہی ہے ’من آمدم‘ کی جو عاطف نے اس کے ساتھ مل کر گایا ہے۔اگر سچی بات کہی جائے تو ان دو سنگرز نے خانم گوگوش کے اس گانے کو دوبارہ گا کراس کی شان میں گستاخی کی ہے۔ کیونکہ ان اس حرکت کی وجہ سے ہمارے ذہن میں اس گانے کا جو سابقہ سریلا، شرمیلا، لچکیلا اور جاودئی تاثر تھا اس کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔کہاں خانم گوگوش کی ادائیں، آواز کا زیروبم اور نزاکت اور کہاں گل پانڑہ اور عاطف اسلم جیسے خانہ پری کرنے والے سنگرز کی جذباتیت سے عاری آوازوں کا بے سرا ملاپ۔ گوگوش ایک ایسی بلبل ہیں کہ جو من سے گاتی ہیں اور یہ پرواہ نہیں کرتیں کہ ساون ہے یا کڑی دھوپ ہے۔ وہ دنیا سے بے پرواہ اپنے من کی گہر ائیوں سے جذبے چن کر سامعین کے حسن سماعت کی نذر کرتی ہیں۔ ان کی آواز میں زمزموں کے مدھر سر سنے جاسکتے ہیں۔ جنگلی پرندوں کی چہکار سنی جاسکتی ہے اور صحرائی پرندوں کی سوز بھری آوازوں کا درد محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اور ا ن کی آواز میں یہ سوز، یہ ادا، یہ ہجرائی کیفیت کسی مادی ترغیب کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس فطری رجحان کی وجہ سے ہے جو وہ لے کر پیدا ہوئی ہیں۔لیکن ہمارے سنگرز نے ان کے گانے کے ساتھ جو کیا ہے اس میں کسی قسم کا جذبہ تو نظر نہیں آیا ہاں یہ واضح طور پر ضرور محسوس ہورہا تھا کہ یہ سب کرکے ان کو کتنا مالی فائدہ ہونے والا ہے۔ گوگوش نے جو سہا اور جس قسم کے حالات کا مقابلہ کیا اس کا تصور ہمارے یہ جلیائی ( بالوں کو جل کی مدد سے کھڑا کرنے والے) سنگرز نہیں کرسکتے۔ اب جبکہ گوگوش کا ذکر چھڑ ہی گیا ہے تو تھوڑی بات ان کے فن اور شخصیت کے حوالے سے بھی ہوجائے۔ یہ ایرانی گلوکارہ 1950ء کے تقریباً وسط میں تہران میں آذربائیجان سے ہجرت کرنے والے ایک خاندان میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اپنے والد کے ساتھ تین سال کی عمر سے اسٹیج پر پرفارم کرنا شروع کیا اور 1970ء میں وہ ایران کی سب سے معروف گلوکارہ بن گئیں۔جبکہ یہ اپنے منی سکرٹس اور بوائے کٹ بالوں کی وجہ سے بھی ایک منفرد پہچان رکھتی تھیں۔ان کی آواز کے جادو نے نہ صرف عام لوگوں کے دلوں کو موہ لیا بلکہ شاہی محل کے افراد بھی ان کی آواز کے سحر سے نہ بچ سکے۔ پھر ان کو شاہی محل میں مدعو کیاگیا جہاں انہوں نے رضا شاہ پہلوی کے بیٹے کی سالگرہ کے موقع پر اپنی آواز سے سامعین کو سحر زدہ کردیا۔ اس کے بعد 1979ء میں اسلامی انقلاب کی وجہ سے فنکاروں اور گلوکاروں کے لئے کڑا وقت شروع ہوگیا۔ گوگوش اس وقت لاس اینجلس میں تھیں۔ لیکن انہوں نے ایران واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح بلبل ایران کی چہکار پابندیوں کی زد میں آگئی۔ اور ان پر یہ پابندی کوئی 21 سال عائد رہی۔ اس دوران وہ اپنے گھر کی دیکھ بھال کرتی رہیں اور کتابیں پڑھتی رہیں۔ گوگوش کی مدھر آواز نے صرف ایرانیوں کو اپنا گرویدہ نہیں کیا بلکہ خطے کے دیگر ممالک آذربائیجان، افغانستان اور پاکستان میں بھی ان کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اس طرح دار سنگرنے 1975ء میں پاکستان آکر پرفارم کیا اور لوگوں کی طرف سے بے تحاشا پذیرائی سمیٹی۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ 1979ء میں دوبارہ پاکستان آئیں گی لیکن انقلاب ایران کے بعد ان پر دیگر ممالک میں جاکے گانے پر پابندی عائد کردی گئی۔ جس کی وجہ سے پاکستانی شائقین کو انہیں دوبارہ دیکھنے اور سننے کا موقع نہ ملا۔ گوگوش نے ایرانی انقلاب سے پہلے 30 کے قریب فلموں میں کام کیا اور 17 میوزک البم ریلیز کیے۔انہوں اپنی پہلی فلم میں 1960ء میں کام کیا جبکہ 1970 ء میں پہلا البم ریلیز کیا۔ اس کے بعد انہوں نے 19 سال کے عرصے میں 30 فلمیں اور 17 میوزک البم ریلیز کیے۔ جس کے بعد 1979ء میں ان کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور اپنا کیریئر چھوڑ کر انہوں نے خود کو گھر تک محدود کرلیا۔ 1975ء میں ان کی شادی ایرانی اداکار بہروزوثوقی سے ہوئی۔ جو بمشکل ایک سال چل پائی اور پھر انہوں نے 1976ء میں طلاق لے لی۔ ان کی دوسری شادی ایرانی فلم ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور سکرین رائٹر مسعود کیمیائی سے 1991 ء میں ہوئی اور اس شادی کا انجام 2003 ء میں ہوا۔ 2000ء میں گوگوش نے میوزک کی دنیا میں واپس آنے کا اعلان کیا جس کے بعد انہوں نے کینیڈامیں جاکر پرفارم کیا۔جب وہ گا رہی تھیں تو فرط جذبات سے ان کی آواز کانپ گئی۔ لیکن یہ تھوڑی دیر کے لئے تھا۔ جیسے ایک مچھلی کو جب دوبارہ پانی میں چھوڑا جاتا ہے تو وہ ایک دم سے تڑپ کر گہرائی میں اترنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی طرح وہ جذبات میں ڈوب گئیں۔ لیکن سننے والوں نے کہا کہ 21 سال کے بعد واپس آنے والی گوگوش کی آواز پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور تواناتھی۔ اس کے بعد انہوں نے دبئی کا رخ کیا اوروہاں پر دوکنسرٹ کیے۔ افواہ یہ تھی کہ یہ گوگوش کے آخری کنسرٹس ہیں اور اس کے بعد وہ واپس ایران چلی جائیں گی۔ جس کی وجہ سے ان کو آخری بار دیکھنے کیلئے 3 لاکھ سے زائد لوگوں نے کنسرٹ اسٹیڈیم کا رخ کیا۔لیکن بعد میں گوگوش نے اعلان کیا کہ وہ دوبارہ ایران نہیں جائیں گی۔ اب وہ اپنے دوگھروں ٹورنٹو اور لاس اینجلس میں رہتی ہیں اور وہاں سے دنیا کے مختلف ممالک کے دورے کرتی ہیں۔ میوزک کی دنیا میں دوبارہ آنے کے بعد سے اب تک انہوں نے سات میوزک البم ریلیز کیے ہیں۔ یہ وہ اساطیری کردار ہیں جن سے کہا گیا کہ واپس لوٹ جاؤ۔ لیکن وہ واپس نہیں گئیں۔ا گرچہ انہوں نے 21 سال تک اپنے سروں کو قید کئے رکھا لیکن آخر کار وہ اپنے اندر سے پھوٹتے سروں کے سمندر کو قابو نہ رکھ سکیں اور ایک بار پھر اسٹیج کا رخ کرلیا۔ یہ ہوتے ہیں فنکار اور یہ ہوتا ہے کام کرنے کا جذبہ۔ ایسے میں پاکستانی فن کاروں سے گزارش ہے کہ مانگے تانگے کے گیتوں سے اپنی روزی روٹی کمانا بند کردیں۔ اگر کسی کو خراج تحسین پیش کرنا ہے تو ڈھنگ سے کریں اور اگران کے کسی گانے سے انصاف کرنا ممکن نہیں تو بالکل نہ گائیں۔ لیکن یوں کسی کے گانوں کا اچھوتا پن اور الوہی تاثر خراب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (بہ شکریہ: دنیا پاکستان


Aham sharing ka shukariya@};-:Annoucemnet::Annoucemnet:

intelligent086
09-18-2015, 02:36 AM
پسندیدگی کا شکریہ

KhUsHi
09-18-2015, 02:35 PM
Nice sharing

Admin
09-18-2015, 02:39 PM
bht umda

intelligent086
09-20-2015, 09:17 AM
Nice sharing


bht umda

http://www.mobopk.com/images/pasandbohatbohatvyv.gif