PDA

View Full Version : پھٹا ہوا ڈھول



intelligent086
09-04-2015, 10:38 AM
پھٹا ہوا ڈھول
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13716_43795127.jpg.pagespeed.ic.BliTS3B2Hh .jpg

احمد عدنان طارق
بہت سال گذرے کمپالا شہر کے نزدیک ایک گائوں میں ایک شخص رہتا تھا۔ جس کا نام یوسفو تھا۔ اور اس کی بیوی کا نام لاڈی تھا۔ دونوں میاں بیوی کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام حنافی تھا۔ حنافی اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارہ تھا۔ درحقیقت اس کے والدین اسکی ہرخواہش پوری کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اور وہ جو بھی کرنا چاہتا اسے کرنے سے نہ روکتے۔ جب حنافی جوان ہو گیا تو شکار کا شوق اس کے رگ ویے میں سرایت کر چکا تھا۔ ایک شام وہ اپنے والدین سے کہنے لگا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ رات کو جنگل میں شکار کرنے جا رہا ہے۔ تو اس کی ماں لاڈی نے اسے کہا"بیٹا رات کو نہ جائو۔ مجھے ستاروں نے بتایا ہے کہ آج کی رات منحوس ہے" اس کے والد یوسفو نے اسے سمجھایا" بیٹا رات کو جنگل میں شکار بہت خطرناک ہوتا ہے تم ہمارے اکلوتے بیٹے ہو اور ہم اتنا بڑا خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ خدا نخواستہ جنگل میں تمہیں کوئی حادثہ پیش نہ آ جائے" لیکن حنافی نے ماں باپ کی نصیحتوں پر کوئی کان نہیں دھرا۔ آخر کار اس کی ضد کے آگے اس کی ماں اور باپ مجبورے ہو گئے اور انہوں نے اسے جانے دیا۔ حنافی اپنے کئی دوستوں کے ہمراہ جنگل میں گیا۔ وہ سب تیر کمانوں ۔ چاقوئوں اور بندوقوں سے لیس تھے۔ انہوں نے روشنی کے لے اپنے ساتھ لالٹین بھی لئے تھے جو جانور بھی ان لالٹینوں کی روشنی کی زد میں آیا انہوں نے اسے شکار کر لیا۔ اس رات انہوں نے دو ہرن اور چھ خرگوش شکار کئے۔ شکار کے بعد سب نے حنافی کو اس کا حصہ دیا۔ پھر جیسے ہی سارے شکاری اپنے اپنے گھروں کو واپس جانے کے لئے روانہ ہوئے تو آسمان پر بادل چھا گئے اور بجلی چمکنے لگی۔ آسمان پر بادلوں کے گرجنے اور بجلی کے کڑکنے کی آوازوں سے ایک خوف کا سماں بن گیا۔ پھر یکا یک تیز آندھی چلنے لگی۔ جو اپنے ساتھ موسلا دھار بارش بھی لائی ۔ حنافی نے راستے میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا کچھوا اپنے گھر کے دروازے کے باہر بیٹھا ہوا ہے۔حنافی نے اس سے درخواست کرتے ہوئے پوچھا" کیامیں اس بارش سے بچنے کے لئے کچھ دیر تمہارے گھر میں رک سکتا ہوں" تو چالاک کچھوے کے منہ پر ایک عیارانہ مسکراہٹ چھا گئی ۔ وہ کہنے لگا" ضرور تم کیوں نہیں رک سکتے تمہارا اپنا گھر ہے وہ دیکھو سامنے ایک بڑا ڈھول پڑا ہے تم اس میں گھس جائو تو بارش سے بچ جائو گے"ڈھول ایک طرف سے پھٹا ہوا تھا۔ حنافی نے اند ر دیکھا تو وہ بالکل خشک تھا۔ لہذا اس نے کچھوے کا شکریہ ادا کیا اور ڈھول میں گھس گیا۔ جیسے ہی حنافی پھٹے ہوئے ڈھلو میں گھسا۔ کچھوے نے گھر سے مگر مچھ کی مضبوط جلد سے بنی ایک جھلی نکالی اور ڈھول کی پھٹی ہوئی سمت پر ثبت کر دی۔ اب ڈھول کی چاروں سمتیں مرمت ہو گئیں تو وہ ایک مکمل ڈھول بن گیا جسے بجایا جا سکتا تھا۔ اگلے دن وہ اپنے گائوں کے مکھیا کے پاس اس کی جھونپڑی میں گیا۔ اور اس کے سامنے جھک کر دو زانو ہو گیاور مکھیا کو التجا کرنے لگا۔ اس نے کہا جناب عالی! کیا اچھا ہو اگر آپ گائوں میں ڈھول بجانے کا مقابلہ کروائیں کیونکہ میں اس میں حصہ لینا چاہتا ہوں۔ میرا ڈھول پھٹا ہوا تھا۔ لہذا پچھلے دو مقابلوں میں میں حصہ نہیں لے سکا۔ اب میرا ڈھول ٹھیک ہو گیا ہے"یہ تجویز سن کر مکھیا بھی بہت خوش ہوا اس نے کہا" ڈھول بجانے کا مقابلہ۔ یہ تو بہت اچھی تجویز ہے اچھی رونق لگے گی۔ ویسے بھی ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ گائوں میں سب سے بہترین ڈھول کون بجاتا ہے" تین دن بعد ہی گائوں کے سب لوگ مکھیا کی جھونپڑی والے محل کے سامنے اکٹھے ہوئے۔ تمام ماہر ڈھولچی بھی اپنے اپنے فن کا مظاہر ہ کرنے وہاں پہنچ گئے۔ وہ اپنے اپنے ڈھول ساتھ لیکر آئے تھے۔ یوسفو جس کا بیٹا حنافی ڈھول میں قید تھا۔ وہ بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو ڈھول بجانے کا تماشہ دیکھنے مکھیا کی جھونپڑے کے سامنے آئے تھے۔ پھر جیسے ہی کچھوے کی باری آئی کہ وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرے۔ اس نے جیسے ہی ڈھول بجانا شروع کیا۔ حنافی ڈھول کے قیدی نے بھی ڈھول کے اندر گانا شروع کر دیا۔ یوسفو نے اپنے بیٹے کی آواز سن لی تھی۔ گانے میں بہت جگہ حنافی نے اپنے نام اور اپنے باپ کے نام کو استعمال کیا تھا۔ پھر جب ڈھول بجانے کا مقابلہ ختم ہوا تو مکھیا نے کچھوے کے فن کی بہت تعریف کی۔ اس نے کچھوے کو بتایا کہ گائوں میں اس جیسا ڈھول کوئی نہیں بجا سکتا۔ اور وہ سب سے بہترین فنکار ہے۔ تب یوسفو کچھوے کے پاس گیا اور اس کی تعریفیں کرتے ہوئے اسے کہنے لگا" اے ڈھولچیوں کے شہنشاہ! میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں۔ میں آپ کے اعزاز میں ایک ضیافت کا اہتما م کرنا چاہتا ہوں" کچھوے نے یوسفو کا شکریہ ادا کیا ۔ اور گائوں کے دوسرے کنارے پر واقع اس کے گھر جانے کے لئے اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ کچھوے کے لئے انتہائی عمدہ اور مزے کا کھانا پکایا گیا جو اس نے مزے لیکرکھایا۔ پھر یوسفو نے لاڈی سے کہاکہ پانی کو ابلنے کے لئے آگ پر رکھ دے۔ کھانا کچھوے نے اتنا زیادہ کھایا تھا کہ اسے سخت نیند آنے لگی۔ اسنے ایک بچھی ہوئی چٹا ئی پر ٹانگیں پساریں اور وہیں میٹھی نیند سو گیا۔ یوسفو نے اپنی بیوی کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا" اس دشمن کا ہم سوپ بنائیں گے" پھر جلدی سے انہوں نے اسے اٹھایا اور ابلے ہوئے پانی میں پھینک دیا۔ پھر یوسفو نے چلا کر اپنی بیوی سے کہا" جلدی کرو ہمیں اپنے بیٹے حنافی کی جان بچانی ہے" اس نے جلدی جلدی ڈھول پر چڑھی ہوئی جھلی کاٹی اور عین وقت پر جب حنافی بے حال تھا۔ وہ اس کی جان بچانے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ اس دن کے بعد حنافی اپنے ماں باپ کا ہر حکم ماننے لگا۔ اور اب انکے گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں کیونکہ اب وہ ماں باپ کی ہر نصیحت کا ادب کرتا تھا۔ ٭…٭…٭

KhUsHi
09-19-2015, 12:46 PM
بہت ہے زبردست
ہمارے ساتھ شیئر کرنے کا شکریہ

intelligent086
11-13-2015, 01:18 AM
بہت ہے زبردست
ہمارے ساتھ شیئر کرنے کا شکریہ


http://www.mobopk.com/images/pasandkarnekabohatbo.png