PDA

View Full Version : نولرائے مارکیٹ ٹاور...! حیدرآباد کا خاموش گ&a



intelligent086
09-01-2015, 10:32 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13705_94497150.jpg.pagespeed.ic.I7ALFs_r-X.jpg

ویسے تو ارنسٹ ہیمنگوے کا ناول ’’ For Whom the Bell Tolls‘‘ کی کہانی ایک سرد جنگ کا قصہ ہے،مگر حیدرآباد کی نولرائے مارکیٹ ٹاور میں سالوں سے خاموش گھنٹہ گھر کی بے حرکت سوئیوں کو دیکھ کر من میں ایک ہی سوال ابھرتا ہے کہ اس کی گھنٹی شہریوں کے لیے کیوں نہیں بجتی؟؟؟ آج سے ایک سو برس پرانے گھنٹہ گھر کا راستہ حیدرآباد کے تاریخی علاقے ہیر آباد کی کشادہ گلیوں سے گزر کر جاتا ہے، جو کہ مارکیٹ ٹاور بھی کہلاتا ہے۔ یہ ٹاور ہندوستان کی تقسیم سے قبل 1914 ئمیں تعمیر ہوا۔ نولرائے جو کہ اس وقت حیدرآباد کے کلیکٹر تھے، انگریزوں کے بہت قریب تھے۔ انگریزوں نے ان کی خدمات کے اعتراف میں یہ ٹاور ان کے نام منسوب کیا۔ یہ ٹاور شہر کے داخلی راستوں سے نظر آتا تھا، جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا تھا کہ شہر شروع ہو گیا ہے۔ یہ ٹاور گھنٹہ گھر اور نولرائے مارکیٹ ٹاور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 1980ء کی دہائی کے بعد یہ گھنٹہ گھر آہستہ آہستہ خاموش ہوگیا ،مگر اس کا کلاک پھر بھی کام کرتا رہا۔ اس وقت کی انگریز حکومت نے سٹیزن کمپنی کے کلاک پاکستان میں لگانا شروع کیے تھے، جن کا مقصد ایک تو لوگوں کو وقت کی آگہی دینا تھا اور دوسرا ان جگہوں پر عوام کے لیے کاروباری سہولیات پیدا کرنا تھا۔ اس دور میں لگے ہوئے سارے گھنٹہ گھر شہروں کا مرکز ہوا کرتے تھے۔ حیدرآباد کی اسی مارکیٹ کے آس پاس کسی زمانے میں گھوڑوں کا اصطبل بھی ہوا کرتا تھا، جہاں اکثر و بیشتر جانور وہاں بنے ہوئے حوض سے پانی پیا کرتے تھے۔ وہاں پر مختلف مقامات سے آنے والوں کے لیے سواری کا اہم ترین ذریعہ تانگہ اور وکٹوریا ہوا کرتے تھے، مگر جیسے جیسے جدید آمد و رفت کے ذرائع آتے گئے تو تانگہ اور وکٹوریا ماضی کا قصہ بن گئے۔ حیدرآباد کے پرانے باسی بتاتے ہیں کہ حیدرآباد کی اصل مارکیٹ یہی تھی، اس کے بعد جیسے ہی شہر بڑھتا گیا، کاروباری مراکز بھی تبدیل ہوگئے۔ جب تک یہ ٹاور میونسپل کے حوالے تھا، تب تک اس کی صورتحال کچھ بہتر تھی، پرویز مشرف کے متعارف کروائے گئے شہری حکومتوں کے نظام میں معمر ترین ٹاور زوال کا شکار ہوگیا۔ جیسے جیسے شہر کی آبادی بڑھتی گئی، مارکیٹ ٹاور کی زندگی کے لیے خطرات مزید بڑھ گئے۔ وقت کی دھول میں گھنٹہ گھر کا حسن ماند پڑ گیا۔ کسی زمانے میں اسی گھنٹہ گھر کی روز صفائی ہوا کرتی تھی۔ ہر گھنٹے بعد گھنٹہ گھر کی بجتی گھنٹی نہ صرف وقت کا پتہ دیتی تھی بلکہ لوگوں کو بیدار رکھنے کی علامت بھی تھی، مگر اب وہی گھنٹہ گھر اپنی بے حرکت سوئیوں سے دن میں ایک مرتبہ بھی صحیح وقت نہیں دکھاتا کیونکہ سوئیاں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔ کاروباری علاقہ ہونے کی وجہ سے اب لوگوں کی نگاہیں نہ تو اس گھنٹہ گھر کو دیکھتی ہیں اور نہ ہی اس گوشت مارکیٹ کو جو کہ اس ٹاور کی چھت کے عین نیچے قائم ہے۔ وہ مارکیٹ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ یہ گھنٹہ گھر۔ گھنٹہ گھر کی سوئیاں اس وقت سے رکی ہوئی اور ٹوٹی ہوئی ہیں جب سے اس کی حفاظت کا ذمہ ضلعی حکومت نے اپنے ہاتھ میں لیا۔کسی زمانے میں گوشت مارکیٹ اور مچھلی مارکیٹ شہر کی اہم ترین مارکیٹیں ہوا کرتی تھیں۔ اسی کے ساتھ ایک گائے مارکیٹ بھی تھی، مگر یہاں کی مقامی انتظامیہ نے گائے مارکیٹ کو ختم کر کے وہاں پر عمارات تعمیر کردی ہیں۔ اس مارکیٹ کا اب کوئی بھی نام و نشان نہیں بچا۔ گوشت مارکیٹ کی ساگوان کی لکڑی سے بنی ہوئی چھت کو ختم کر کے ایک سیمنٹ کی چھت بنائی گئی ہے ،جو مخمل میں ٹاٹ کے پیوند کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ کچھ قصاب آج بھی اسی گوشت مارکیٹ میں گوشت بیچتے ہیں ،مگر انہیں بھی یہی شکایت ہے کہ شہر کی انتظامیہ انہیں وہاں سے اٹھا دے گی۔ گوشت مارکیٹ کے شمالی دروازے سے داخل ہوتے ہی آسمان صاف دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس طرف کی چھت کو مقامی انتظامیہ نے اکھاڑ دیا ہے۔ گٹر کی گندی نالیاں، بوسیدہ ذبح خانے، اور ناقص صفائی کی وجہ سے اس گوشت مارکیٹ میں ہر طرف بدبو محسوس ہوتی ہے۔ یہاں موجود قصاب بتاتے ہیں کہ سرکاری خاکروب ہونے کے باوجود انہیں پیسے دے کر صفائی کروانی پڑتی ہے۔ گو کہ منگل اور بدھ کو گوشت کی فراہمی شہر میں عام طور پر نہیں کی جاتی، مگر یہاں ان دنوں میں بھی گوشت ملتا ہے۔ کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی اس مارکیٹ کی حالت بہتر نہیں ہوئی ہے۔ مکڑی کے جالوں سے لپٹی ہوئی چھت انتظامیہ کی عدم دلچسپی کی داستان سناتی ہے۔ اب اس مارکیٹ میں گاہکوں سے زیادہ کتے اور بلیاں گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ویسے تو مارکیٹ میں داخل ہونے کے لیے چاروں اطراف سے دروازے ہیں، مگر ٹاور کے ایک جانب سبزی والے، دوسری جانب پھل فروش، اور باقی دو اطراف سے کنفیکشنری والے بیٹھے ہیں۔ اس لیے خستہ حال دروازوں تک عام لوگوں کی رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔ گھنٹہ گھر پر اب کبوتروں کا بسیرا ہے، اسی گھنٹہ گھر میں سے اب تک ڈیڑھ من تک تانبا چوری ہو چکا ہے، جس کی نہ کوئی رپورٹ درج ہوئی ہے اور نہ ہی انتظامیہ نے کوئی تحرک لیا ہے۔ ٹاور کی دیواریں ایک صدی میں گزرتے ہر لمحے کی گواہ ہیں، مگر آنے والے وقت میں شاید اس کی دیواریں مزید خستہ حال ہوجائیں کیونکہ ٹاور کی اینٹیں اب جگہ جگہ سے اکھڑ رہی ہیں۔ضلعی حکومت نے اس تاریخی ٹاور اور گھنٹہ گھر کی مرمت کا کام تو بہتر طریقے سے نہیں کیا، مگر اس کی موجودہ شکل کو مزید مسخ کر دیا ہے۔ اب شاید ہی اس ٹاور کی بحالی ہو سکے، جس طرح شہروں کو لوگ تعمیر کرتے ہیں، انہیں بحال کرتے ہیں، اسی طرح لوگ اور سماج شہروں کو برباد بھی کرتے ہیں۔ اس وقت حیدرآباد کی تاریخی عمارات کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کسی زمانے میں یہ تاریخی عمارات شہر کا حسن ہوا کرتی تھیں، مگر اب رفتہ رفتہ مسمار ہو رہی ہیں۔ انسانی ارتقاء کی طرح شہر بھی ارتقا کر کے جوان ہوتے ہیں، وہ بوڑھے بھی ہوجاتے ہیں، اگر انہیں سنبھالا نہ جائے تو وہ مر بھی جاتے ہیں۔ اب نہ تو وہ نولرائے رہا ہے اور نہ ہی انگریز، جنہوں نے اس مارکیٹ ٹاور کی بنیاد رکھی تھی،مگر سندھ کے محکمہ آثار قدیمہ کو اس ایک صدی پرانی عمارت کو قائم رکھنے کے لیے کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ میں یہ تو نہیں جانتا کہ اس خاموش گھنٹا گھر کی گھنٹی اب کب ایک بار پھر گونجے گی، مگر اس کی خاموشی ان لوگوں کو ضرور ڈستی ہو گی جن کے کانوں میں برسوں پہلے اس کی آواز گونجتی تھی۔ ٭…٭…٭

UmerAmer
09-01-2015, 03:44 PM
Nice Sharing
Thanks For Sharing

KhUsHi
09-03-2015, 02:38 PM
Thanks for great sharing

intelligent086
09-10-2015, 02:07 AM
Nice Sharing
Thanks For Sharing


Thanks for great sharing


خوب صورت آراء اور پسند کا بہت بہت شکریہ