PDA

View Full Version : کیسی معذرت… کیسی شرمندگی؟



intelligent086
08-29-2015, 10:44 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13688_12484674.jpg.pagespeed.ic.a01VIlknzE .jpg

عبدالستار ہاشمی
اشفاق احمد اپنی معروف کتاب زاویہ کے باب ’’ انسان کو شرمندہ نہ کیا جائے‘‘ میں لکھتے ہیں۔’’ایک لڑکا آیا کرتا تھا گاچو اس کا نام تھا ۔ایک اس کی بہن تھی چھوٹی سی ۔اور وہ گاچو جو تھا سر کے اوپر ٹوکرا رکھ کے چھائیں بیچتا تھا ۔چھائیں تربوز کو کہتے ہیں-صبح بیچارہ لے کر آتا تھا ۔دونوں یتیم تھے ۔جب دھوپ بڑھتی تھی ، دس بجے کے قریب ، تو سر کے اوپر ٹوکرا لے کر آتا تھا ۔میں اس سے (چھائیں ) ایک دو پھیکے تربوز خرید لیتا تھا تو وہ بچہ جب چل کے آتا تھا دھوپ میں تو اس کا جو سایہ پڑتا تھا پیچھے ، تو وہ بھولی سی اس کی بہن وہ پیچھے پیچھے چلتی تھی ۔اور وہ آگے ہوتا تھا -میں کہتا تھا گاچو تو اپنی بہن کو آگے کیوں نہیں چلاتا۔تو کہنے لگا سائیں ، ہم یتیم ہیں ۔ہم جھونپڑے میں رہتے ہیں تو گرمی بہت ہو جاتی ہے ۔میں چھوٹا بچہ ہوں ۔مگر میرا سایا بڑا لمبا ہے ۔میں چاہتا ہوں میری بہن کو گرمی نہ لگے اور وہ میرے سائے میں چلتی رہے۔ تو یہ گاچو تھا جو اپنی بہن کو گرمی نہیں لگنے دینا چاہتا تھا مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں ۔بہت سے لوگ ایسے ہیں آپ کے ملک میں جو تکبر سے دور ہیں اور دوسروں کے لئے بھی زندگی بسر کرتے ہیں اور کسی کو شرمندہ نہیں ہونے دیتے۔‘‘ اگر آپ اپنے آپ سے ایماندار ہیں تو سمجھ لیں کہ زندگی میں آپ کے کیے ہوئے ہر فیصلے کی تائید ہر کوئی نہیں کرے گا۔ لوگ آپ کودیکھیں گے، احتساب کریں گے اور پھر اپنی پسند و ناپسند تھوپتے ہوئے اپنا فیصلہ صادر فرمائیں گے۔ایک تلخ حقیقت ہے کہ آپ ہربات پر معذرت خواہ رہنے کا رویہ اپنائیں گے تو سمجھ لیں کہ زندگی دوزخ ہوگئی۔ یوں تو صرف اس بات پر معافی مانگ لینی چاہیے جہاں آپ غلط ہیں اور آپ کی غلطی سے نقصان یا کسی کی دل آزاری ہوئی ہے لیکن عمومی طورپر معذرت خواہانہ رویہ اپنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ خودی کو ملحوظ خاطررکھنا چاہیے۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیںکہ کن باتوں پر معذرت خواہ ہونے یا شرمندہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ماضی کی غلطی پر:اکثر ہوتا ہے کہ کوئی دوست، جاننے والا یا رشتہ دار ہمہ وقت آپ کو آپ کے ماضی کی کسی غلطی کا یاد دلا کر زچ کرتا رہتا ہے۔ وہ جب بھی اور جہاں بھی ملتا ہے اسی غلطی کا ذکر کرنا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے جس سے شرمندگی کا احتمال رہتا ہے۔ آپ کو اس قسم کی صورتحال میں معذرت خواہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ صرف آپ ہی نہیں ہر کوئی زندگی کے بیتے لمحات میں کسی نہ کسی قسم کی غلطی کا مرتکب ہو چکا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر آپ خود اس غلطی کو تسلیم کرکے تو بہ تائب ہو چکے ہیں تو پھر معذرت کس بات کی۔ ایماندارانہ رائے دیتے ہوئے:فرض کریں آپ کا دوست آپ سے اپنے بالوں کے متعلق رائے لینا چاہتا ہے اور جواب میں آپ یہ کہتے ہیںکہ یہ خشک بال آپ کو بالکل سوٹ نہیں کرتے۔ یہ سٹائل آپ کیلئے قطعی مناسب نہیں اور اس کے جواب میں دوست ناراض ہو جاتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ تم مجھ سے حسد کرتے ہو اس لئے منفی رائے دی اور پھر آپ فوری طور پر اپنے دوست کا موڈ درست کرنے کیلئے پینترا بدلتے ہیں اور بالوں کی تعریف شروع کردیتے ہیں تو یہ غلط ہوگا۔ یاد رکھیے، آپ سے جب بھی جہاں بھی اور کوئی بھی ایماندارانہ رائے کی طلب رکھتا ہے تو ضمیر کے مطابق حقائق پر مبنی جواب دینے کے بعد آپ کو نہ تو رائے بدلنی چاہیے اور نہ ہی معذرت دینی چاہیے۔ امریکی نفسیات ریسرچ سنٹر کے مطابق ایمانداری آپ کی صحت سے جڑی ہوتی ہے۔ آپ کو اپنے خیالات پر مضبوطی سے کھڑا رہنا چاہیے۔ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے: آپ کو روتے دیکھ کر کسی نے کہہ دیا ’’میرا بچہ، کیوں رو رہا ہے‘‘ یا کسی خوشی کے موقع پر آپ کے اظہار پر ناگواری کا اظہار کرتا ہے تو ایک سادہ سی بات کو پلے باندھ لیں کہ کوئی ایسا کرتا ہے تو کرے لیکن آپ کو اپنے جذبات کے اظہار کو قطعی روکنا نہیں چاہیے۔ دل کی بات کہیے اور کھل کر کہیے۔ اس طرح کے مواقع پر معذرت کرنے کی ضرورت نہیں۔ مثلاً کسی دوست کی شادی پر آپ خوش ہیں، قہقہے بکھیر رہے ہیں۔ یا ناچ رہے ہیں اورکوئی آپ کو اوور ہونے کا طعنہ دیتا ہے تو اس پر پیچھے ہٹ کر بیٹھ جانا اور معذرت کرلینا مناسب نہیں۔ اپنے اندر خوشی کی آئی لہر کو روکنا آپ کی صحت کیلئے بھی مناسب نہیں۔ کھلے دل سے جذبات کا اظہار کریں اور ایسے مواقع پر معذرت خواہ ہونے سے گریز کریں پھر دیکھیں چھوٹی چھوٹی خوشیاں کتنی بڑی بڑی دکھائی دیتی ہیں۔ فیس بک کے فرینڈز کو ڈیلیٹ کرتے وقت: سچی بات تو یہ ہے کہ فیس بک پر موجود ہر شخص آپ کا دوست نہیں اور اس لسٹ سے ان لوگوں کا اخراج کوئی بری بات نہیں جو آپ کے لئے درد سر ہوتے ہیں۔ اس پر نہ پریشان ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ڈیلیٹ کرتے وقت ایسے لوگوں سے معافی مانگنے کی ضرورت۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ بس یا ٹرین میں سفر کر رہے ہیں۔ کچھ دیر کیلئے لوگوں کا ساتھ رہتا ہے۔ خوشگوار ہے تو خوشگوار یاد بن جاتا ہے اور اگر ناپسندیدہ ہے تو تکلیف کی چند گھڑیاں گزارنے کے بعد بھول جانا ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں معذرت کرنے سے گریزاں ہی رہیں۔ معافی دیتے وقت: اہل علم میں سے کسی اعلیٰ حضرت کا قول ہے کہ معاف کردینے والا سب سے بہادر ہوتا ہے۔ معاف کر دینے کا مطلب یہ کہ آپ نے اپنا نقصان اور اپنی بے عزتی کو نظر انداز کرکے مخالف کو دل سے معاف کردیا تاکہ وہ شخص اظہار تشکر میں ساری عمر تابع رہے اور آپ کے دل میں یہ بات ہمیشہ آپ کو خوشحال رکھے کہ آپ نے ظرف سے کام لیا اور معاف کردیا۔ اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ کسی کو معافی دیکر پچھتانا نہیں چاہیے اور نہ ہی اس پر معذرت کرنے کی ضرورت ہے۔ معاف کرنے سے آپ کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خوابوں کی تکمیل کی تلاش پر: یہ وہ پہلو ہے جس پر اکثریت شرمندہ اورمعذرت خواہ ہوتی ہے۔ جیسے آپ بہت اچھا لکھاری بننا چاہتے ہیں اور کوئی دوسرا اتنا ہی اچھا ڈانسر بننے کا خواب دیکھتا ہے تو ڈانسر بننے والے کو اپنے اس خواب پرشرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی ایک فن ہے اوراس پر عبور حاصل کرنے کی خواہش کوئی بری بات نہیں اس پر یہ کہنے کی بجائے کہ آئی ایم سوری آپ یہ کہیں کہ مجھے اپنے خوابوں پر فخر ہے جن کی تعبیر کیلئے میں خود کو وقف کردوں گا۔ اپنی آمدنی پر: ہر بندے کا رزق لکھا جا چکا ہے لیکن محنت اور جدوجہدپرپابندی نہیں، بعض بہت قابل پڑھے لکھے لوگ کم کماتے ہیں اور مقابلے میں کم پڑھے لکھے لوگوں کے پاس دولت کے انبار ہوتے ہیں۔ یہ نصیب کی بات ہے اس پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ شرمندگی اور احساس کمتری صحت کے علاوہ کئی طرح کے مسائل کا سبب بنتی ہے۔ جواب نہ آنے پر: اگر آپ کو کسی سوال کا جواب نہ معلوم پڑے تو کہہ دیتے ہیں کہ مجھے اس سوال کاجواب نہیں آتا۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ مجھے اپنی کمزوری کا اندازہ ہوگیا۔ میں مستقبل میں اس طرز کے سوالات کی بابت مطالعہ کرتا رہوں گاتاکہ مجھے دوبارہ جواب نہ آنے کا کہنے کی شرمندگی نہ اٹھانا پڑے اس پورے بیان میں شرمندگی کا لفظ غیر ضروری استعمال ہوا ہے۔ اس لئے کہ اپنی غلطی کو تسلیم کرلینا اور پھر اس کی اصلاح کرنے کا عہد کرنا بڑا کام ہے۔ اس طرح کی غلطیوں پر شرمندہ ہونا غیر ضروری ہوتا ہے۔ مدد مانگنے پر: ضرورت اور مجبوری میں دیوار سے بھی مشورہ اورمدد مانگ لینے میں کوئی ہرج نہیں۔ اس سے چیزیں درست رہتی ہیں اور مزید پیچیدگیاں نہیں بڑھتی۔ ایسی صورتحال سے پریشان ہونے کی بجائے کسی مخلص دوست رشتہ دار کی تلاش کرنی چاہیے۔ جو آپ کی مدد کیلئے آگے آئے۔ یہی موقع ہوتا ہے اپنوں کی پہچان کا، بجائے اس کے کہ اس سے مدد مانگنے پر آپ شرمندہ ہوں بلکہ آپ یہ دیکھیں کہ کوئی مخلص ہے اور مدد کیلئے آگے آیا ہے۔ عقیدہ بدلنے پر:عقیدہ بدلنا آسان نہیں ہوتا لیکن انسان ایک ذہنی اورنفسیاتی جنگ کے بعد فیصلہ کرکے اپنا عقیدہ یا مذہب بدلتا ہے۔ اس جنگ میں انسان کی عقل شعور اس بات کا ادراک کرتا ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے اور ایسے فیصلے کے بعد برادری اور معاشرتی دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مشکل صورتحال میں اپنے نئے عقیدے پر کھڑا رہنا بھی ثابت قدمی ہے اور کسی طرح کا معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ ایک دنیا چھوڑ کر آتے ہیں تو ایک نئی دنیا پورے جوش و خروش سے آپ کی منتظر ہے۔ ٭…٭…٭

UmerAmer
08-29-2015, 03:00 PM
Nice Sharing
Thanks For Sharing

intelligent086
08-30-2015, 01:56 AM
Nice Sharing
Thanks For Sharing

http://www.mobopk.com/images/pasandbohatbohatvyv.gif