PDA

View Full Version : انسانی زندگی میں غلط فہمیاں کیوں جنم لیتی &



intelligent086
08-21-2015, 02:14 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13635_32945000.jpg.pagespeed.ic.y6J9L3x0CZ .jpg

کلیم فاطمہ

انسان چونکہ خطا کا پُتلاہے اس سے خطا تو سرزد ہو ہی جاتی ہے یہ بات جب اپنی بات سمجھانے یا دوسرے کی بات سمجھنے میں ہو تو تعلقات میں دراڑ کا باعث بنتی ہے ۔ عام زبان میں اسے ہم غلط فہمی کہتے ہیں۔ آخر انسان کی زندگی میں غلط فہمیاں کیوں جنم لیتی ہیں ؟ انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اللہ نے اسے فہم و فراست سے نوازا ہے ۔ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی کے مطابق ردعمل کرتا ہے پھر اسی میں گفتگو کی صلاحیت سونے پہ سہاگہ کے مترادف ہے کیونکہ تبادلہ خیال اور گفت و شنید کے ذریعے صورتحال کی مکمل وضاحت ہو جاتی ہے ۔یہی باتیں یعنی سوچ بچار اور گفت و شنید غلط فہمیوں کو بھی جنم دیتی ہیں۔ جیسا کہ اس اصطلاح سے ظاہر ہے کہ غلط فہمی کسی بات یا ردعمل کے غلط فہم کو کہتے ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ غلط فہمی کی نوبت کن حالات میں آتی ہے ۔ غلط فہمی کی نوبت ان حالات میں ہوتی ہے جب دونوں فرد ایک دوسرے سے الگ سوچ، الگ خیالات اور الگ توقعات رکھتے ہوں گے، تبھی تو غلط فہمی جنم لیتی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ غلط فہمی کی بنیادی وجہ نامکمل اظہار خیال ہوتا ہے، گفتگو کا فن انسانوں کے درمیان روابط دیر پا بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن گفتگو کا واضح اور مکمل ہونا بھی ضروری ہے۔ جب ایک شخص اس فن کو صحیح طرح سے استعمال ہی نہیں کرتا تو غلط فہمی ضروری ہے ۔ غلط فہمی خواہ کتنی بڑی ہی کیوں نہ ہو اس کی بنیاد ہمیشہ چھوٹی ہوتی ہے۔ غلط فہمیوں کو دور نہ کیا جائے تو حالات سنگین اور بہت حد تک بگڑ جاتے ہیں ۔ یہ غلط فہمی ہی ہوتی ہے جو رشتوں میں دوریاں پیدا کر دیتی ہے ۔ میاں بیوی، اولاد اور والدین اور دوستوں کے درمیان غلط فہمیاں نہ مٹیں تو ان کے درمیان آنے والی دوریوں میں تلخیاں جگہ بنالیتی ہیں ۔ غلط فہمیوں کو بڑھانے میں جسمانی ردعمل کا بھی بہت دخل ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ کسی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے ساتھ ساتھ آنکھوں یا جسم کی مختلف حرکات سے اس کے معنی بدل جاتے ہیں ۔ غلط فہمی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی بات ، لہجہ اور جسمانی ردِعمل میں مکمل توازن رکھا جائے ۔ خاص طور پر اس وقت جب کوئی شخص سنجیدگی سے مخاطب ہو ۔ غلط فہمیوں کا انسانی مزاج ، توقعات اور مطالبات سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے کیونکہ حساس لوگ زیادہ جلدی غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح دوسروں سے توقعات رکھنے والے ان توقعات کے پورانہ ہونے کی بنیاد پر غلط فہمی سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔ غلط فہمیوں کو سنگین شکل دینے میں وہ لوگ ایندھن کا کام کرتے ہیں۔ جن کی فطرت دوسروں کے درمیان جھگڑے کراکر مزہ لینا ہوتا ہے وہ صرف ایک چنگاری کا کام کرتے ہیں اور آگ لگا دیتے ہیں ۔ اس لئے کم از کم جتنی بھی بڑی غلط فہمی کیوں نہ ہو کسی تیسرے فرد کے سامنے اس کا اظہار نہیں ہونا چاہئے ۔ غلط فہمیاں تو ہوتی ہیں اور ختم بھی ہو جاتی ہیں، معاملہ اس وقت نازک ہوتا ہے جب ایک شخص بار بار غلط فہمی کا شکار ہوتا رہتا ہے ۔ غلط فہمی ہی انسان کو سکھاتی ہے کہ کبھی کبھی صورتحال اور باتوں کا مطلب غلط بھی ہوسکتا ہے، اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے تو فورا ً اس کا مطلب طلب کرلینا چاہئے، یہ اس غلط فہمی سے بہترہے ۔ یہ خامی کہ بات سمجھ بھی نہ آئے اور پوچھا بھی نہ جائے اعتماد کی کمی اورانحصار کی زیادتی سے ہوتی ہے ۔ بار بار غلط فہمی کا شکار ہونے والا دوسروں پر اعتماد نہیں کرتا ہے ۔ اس لئے وہ دوسروں کی کسی بھی بات کا فوری غلط مطلب نکال لیتا ہے ۔ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ بدگمانی اس کی فطرت کا حصہ ہوتی ہے ۔ دوسروں پر اعتماد نہ کرنیو الا شخص اصل میں خود بھی دوسروں کی طرف منفی رویہ رکھتا ہے ۔ یعنی دوسروں کے ساتھ مخلص نہیں ہوتا ہے اس کی یہ فطرت اسے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ باقی لوگ بھی اس کے ساتھ مخلص نہیں ہیں بلکہ اسے اپنے فائدے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔ اسے دھوکہ دے رہے ہیں ۔ اگر کچھ غلط فہمی ہو بھی جائے تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اس مقصد کیلئے اپنی بات اور ردعمل مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کردینی چاہئے پھر چاہے دوسرا شخص سننا پسند کرے یا نہ کرے اپنی بات کہہ دینی چاہئے ،ہو سکتا ہے اس وضاحت سے اس کی غلط فہمی دور ہو جائے اور حالات معمول پر آجائیں ۔ لیکن ایک بات کا خیال ضرور رکھیں کہ وضاحت کرتے وقت دوسرے کی غلطی کوبار بار فوکس نہ کریں کیونکہ اس سے سامنے والے کی انا مجروح ہو سکتی ہے اور معاملہ سدھر نے کی بجائے بگڑ سکتا ہے ۔ ٭…٭…٭

Pari
08-21-2015, 06:50 PM
zabardast,,,,,.................

Dr Danish
08-21-2015, 09:04 PM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13635_32945000.jpg.pagespeed.ic.y6J9L3x0CZ .jpg

کلیم فاطمہ

انسان چونکہ خطا کا پُتلاہے اس سے خطا تو سرزد ہو ہی جاتی ہے یہ بات جب اپنی بات سمجھانے یا دوسرے کی بات سمجھنے میں ہو تو تعلقات میں دراڑ کا باعث بنتی ہے ۔ عام زبان میں اسے ہم غلط فہمی کہتے ہیں۔ آخر انسان کی زندگی میں غلط فہمیاں کیوں جنم لیتی ہیں ؟ انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اللہ نے اسے فہم و فراست سے نوازا ہے ۔ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی کے مطابق ردعمل کرتا ہے پھر اسی میں گفتگو کی صلاحیت سونے پہ سہاگہ کے مترادف ہے کیونکہ تبادلہ خیال اور گفت و شنید کے ذریعے صورتحال کی مکمل وضاحت ہو جاتی ہے ۔یہی باتیں یعنی سوچ بچار اور گفت و شنید غلط فہمیوں کو بھی جنم دیتی ہیں۔ جیسا کہ اس اصطلاح سے ظاہر ہے کہ غلط فہمی کسی بات یا ردعمل کے غلط فہم کو کہتے ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ غلط فہمی کی نوبت کن حالات میں آتی ہے ۔ غلط فہمی کی نوبت ان حالات میں ہوتی ہے جب دونوں فرد ایک دوسرے سے الگ سوچ، الگ خیالات اور الگ توقعات رکھتے ہوں گے، تبھی تو غلط فہمی جنم لیتی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ غلط فہمی کی بنیادی وجہ نامکمل اظہار خیال ہوتا ہے، گفتگو کا فن انسانوں کے درمیان روابط دیر پا بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن گفتگو کا واضح اور مکمل ہونا بھی ضروری ہے۔ جب ایک شخص اس فن کو صحیح طرح سے استعمال ہی نہیں کرتا تو غلط فہمی ضروری ہے ۔ غلط فہمی خواہ کتنی بڑی ہی کیوں نہ ہو اس کی بنیاد ہمیشہ چھوٹی ہوتی ہے۔ غلط فہمیوں کو دور نہ کیا جائے تو حالات سنگین اور بہت حد تک بگڑ جاتے ہیں ۔ یہ غلط فہمی ہی ہوتی ہے جو رشتوں میں دوریاں پیدا کر دیتی ہے ۔ میاں بیوی، اولاد اور والدین اور دوستوں کے درمیان غلط فہمیاں نہ مٹیں تو ان کے درمیان آنے والی دوریوں میں تلخیاں جگہ بنالیتی ہیں ۔ غلط فہمیوں کو بڑھانے میں جسمانی ردعمل کا بھی بہت دخل ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ کسی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے ساتھ ساتھ آنکھوں یا جسم کی مختلف حرکات سے اس کے معنی بدل جاتے ہیں ۔ غلط فہمی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی بات ، لہجہ اور جسمانی ردِعمل میں مکمل توازن رکھا جائے ۔ خاص طور پر اس وقت جب کوئی شخص سنجیدگی سے مخاطب ہو ۔ غلط فہمیوں کا انسانی مزاج ، توقعات اور مطالبات سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے کیونکہ حساس لوگ زیادہ جلدی غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح دوسروں سے توقعات رکھنے والے ان توقعات کے پورانہ ہونے کی بنیاد پر غلط فہمی سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔ غلط فہمیوں کو سنگین شکل دینے میں وہ لوگ ایندھن کا کام کرتے ہیں۔ جن کی فطرت دوسروں کے درمیان جھگڑے کراکر مزہ لینا ہوتا ہے وہ صرف ایک چنگاری کا کام کرتے ہیں اور آگ لگا دیتے ہیں ۔ اس لئے کم از کم جتنی بھی بڑی غلط فہمی کیوں نہ ہو کسی تیسرے فرد کے سامنے اس کا اظہار نہیں ہونا چاہئے ۔ غلط فہمیاں تو ہوتی ہیں اور ختم بھی ہو جاتی ہیں، معاملہ اس وقت نازک ہوتا ہے جب ایک شخص بار بار غلط فہمی کا شکار ہوتا رہتا ہے ۔ غلط فہمی ہی انسان کو سکھاتی ہے کہ کبھی کبھی صورتحال اور باتوں کا مطلب غلط بھی ہوسکتا ہے، اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے تو فورا ً اس کا مطلب طلب کرلینا چاہئے، یہ اس غلط فہمی سے بہترہے ۔ یہ خامی کہ بات سمجھ بھی نہ آئے اور پوچھا بھی نہ جائے اعتماد کی کمی اورانحصار کی زیادتی سے ہوتی ہے ۔ بار بار غلط فہمی کا شکار ہونے والا دوسروں پر اعتماد نہیں کرتا ہے ۔ اس لئے وہ دوسروں کی کسی بھی بات کا فوری غلط مطلب نکال لیتا ہے ۔ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ بدگمانی اس کی فطرت کا حصہ ہوتی ہے ۔ دوسروں پر اعتماد نہ کرنیو الا شخص اصل میں خود بھی دوسروں کی طرف منفی رویہ رکھتا ہے ۔ یعنی دوسروں کے ساتھ مخلص نہیں ہوتا ہے اس کی یہ فطرت اسے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ باقی لوگ بھی اس کے ساتھ مخلص نہیں ہیں بلکہ اسے اپنے فائدے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔ اسے دھوکہ دے رہے ہیں ۔ اگر کچھ غلط فہمی ہو بھی جائے تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اس مقصد کیلئے اپنی بات اور ردعمل مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کردینی چاہئے پھر چاہے دوسرا شخص سننا پسند کرے یا نہ کرے اپنی بات کہہ دینی چاہئے ،ہو سکتا ہے اس وضاحت سے اس کی غلط فہمی دور ہو جائے اور حالات معمول پر آجائیں ۔ لیکن ایک بات کا خیال ضرور رکھیں کہ وضاحت کرتے وقت دوسرے کی غلطی کوبار بار فوکس نہ کریں کیونکہ اس سے سامنے والے کی انا مجروح ہو سکتی ہے اور معاملہ سدھر نے کی بجائے بگڑ سکتا ہے ۔ ٭…٭…٭




Nice Thread
Thanks

intelligent086
08-22-2015, 02:20 AM
zabardast,,,,,.................


Nice Thread
Thanks




http://www.mobopk.com/images/pasandbohatbohatvyv.gif