PDA

View Full Version : وقت کا پیمانہ



intelligent086
08-18-2015, 09:16 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13616_13188535.jpg.pagespeed.ic.7ow4l0R5hH .jpg

خلا میں کوئی معیار ایسا نہیں ہے جو مطلق ہو، جس کی نسبت سے کسی دوسری چیز کی پیمائش کی جا سکے۔ جہاں تک وقت (زماں) کا تعلق ہے، آئن سٹائن کے مطابق اس کا بھی کوئی پیمانہ نہیں، زمانہ ازل سے ہے، ابد تک رہے گا۔ بقول اقبال ع ’’ازل اس کے پیچھے، ابد اس کے آگے۔‘‘آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کے سمجھنے میں عام آدمی کو جو دشواری ہوتی ہے، اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارا ذہن ایک خاص تربیت سے بنتا ہے۔ رنگ و بُو کو ہم حقیقت میں سمجھتے نہیں، ہم کو اس کا صرف احساس ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ زمانہ یا وقت صرف احساس کا نام ہے۔ اگر آنکھیں نہ ہوں، تو ہمیں رنگ کا احساس نہ ہو، ناک نہ ہو تو بُو محسوس نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح وقت کا احساس بھی تب ہوتا ہے جب کوئی بات، کوئی واقعہ، کوئی حادثہ رونما ہو، جہاں سے ہم اس کا اصل جاننے کا احساس کر سکتے ہوں۔آج، کل، صبح، شام، اسی صورت میں بامعنی الفاظ بنتے ہیں جب ہم سورج کے طلوع یا غروب ہونے کا تصور کرتے ہیں، ورنہ راکٹ میں سفر کرنے والے مسافر کے لیے نہ صبح ہوتی ہے، نہ شام، نہ دن ہے، نہ رات! شاید اقبال کے ذہن میں بھی یہی تصور ہوگا، جب اس نے یہ شعر کہا: تیرے شب و رُوز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رَو، جس میں نہ دن ہے نہ رات راکٹ کے مسافر زیادہ سے زیادہ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ پرواز کرنے سے لے کر اب تک ان کی گھڑی کی سوئی کتنی بار گھوم چکی ہے۔ لیکن ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہمارے ساتھ بھی یہی صورت ہوتی ہے۔ ہم کیا کرتے ہیں؟ یہی نا کہ گھڑی کا وقت یا کیلنڈر کی تاریخ دیکھ کر ایک واقعے کا کسی دوسرے واقعہ سے تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ ’’میں چھ بجے سو کر اٹھا‘‘ ، ’’دس بجے دفتر پہنچا۔‘‘ ’’کل میں بازار گیا تھا۔‘‘ ان جملوں سے یہی بتانا مقصود ہوتا ہے کہ سو کر اٹھنے اور دفتر پہنچنے کے درمیان کتنا وقت گزرا؟ بازار جانے سے لے کر آج تک کتنا عرصہ ہوا؟ اس طرح وقت یا مدت کا تعین ہم اپنے لیے تو کر سکتے ہیں لیکن پوری کائنات کے لیے نہیں کر سکتے۔ لیکن پوری کائنات کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہماری گھڑیاں، جن سے سیکنڈ، منٹ، گھنٹے، دن، مہینے اور سال کا حساب لگایا جاتا ہے، نظامِ شمسی کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں۔ جسے ہم ’’ایک گھنٹہ‘‘ کہتے ہیں، وہ اصل میں ہماری دنیا کا اپنے محور پر 15 ڈگری کا چکر کاٹنے کا دوسرا نام ہے، جسے ہم ایک سال کہتے ہیں۔ وہ ہماری دنیا کے سورج کے چاروں طرف ایک پھیرا لگانے کا نام ہے۔اگر ہم عطارد نامی سیّارہ میں بیٹھ کر اسی اصول کے تحت حساب لگانے بیٹھیں، تو معلوم ہوگا کہ وہ سیّارہ سورج کے گرد ایک چکر 88 دنوں میں لگاتا ہے تو اس طرح وہاں کا سال 88 دنوں کا ہوگا اور ٹھیک اسی مدت میں (یعنی ہمارے 88 دنوں میں) عطارد اپنے محور کے گرد بھی ایک چکر مکمل کر لے گا۔ یعنی اس کا ایک دن ہمارے حساب سے 88 دنوں کا ہوگا۔ اور سال بھی 88 دنوں کا۔ دن اور رات، مہینہ اور سال کا حساب اور بھی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، جب ہم سورج سے پرے ہو کر کائناتِ بسیط کی صورتِ حال پر غور کرنے لگتے ہیں۔ وہاں نہ سورج ہے، نہ چاند!ان حالات میں اضافیت کا یہ اصول طے پایا کہ کسی ایک نظام سے باہر، وقت کا کوئی مقررہ پیمانہ نہیں ہوتا ہے۔ جب کبھی وقت کا درمیانی وقفہ ناپنے کی کوشش کی جائے گی، یہ کسی مخصوص نظام ہی کے تحت ہوگا۔ جب تک اس نظام کا حوالہ نہ ہو، ’’ابھی‘‘، ’’اسی وقت‘‘، ’’فوراً‘‘ جیسے الفاظ کے کوئی معنی نہیں ہوں گے۔ فرض کیجئے کہ سعید نیویارک سے اپنے بھائی حمید کو لندن ٹیلیفون کر رہا ہے۔ نیویارک میں شام کے سات بجے ہیں اور لندن میں رات کے بارہ بج رہے ہیں۔ ان دونوں شہروں کے وقت میں پانچ گھنٹوں کا فرق ہے۔ اس کے باوجود سعید اور حمید یہی کہیں گے کہ وہ ’’ایک ہی وقت‘‘ میں باتیں کر رہے تھے!اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ایک ہی نظام میں بس رہے ہیں۔ ان کی گھڑیاں ایک ہی نظام کے حساب سے کام کر رہی ہیں۔ یعنی ان دونوں کی گھڑیاں اس کرئہ ارض کے اپنے محور پر گھومنے کے حساب سے درست کی ہوئی ہیں۔ اب ہم ایک دوسری مثال پر غور کریں۔ ستاروں کے جھرمٹ میں روشن ترین ستارہ سماک رامح(Arctum) ہے جو 30 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ یعنی وہاں سے جو روشنی چلتی ہے وہ 186282 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر 30 سال گزرنے کے بعد ہماری زمین تک پہنچتی ہے۔ اس ستارے پر ریڈیو کے ذریعہ اشارے (سگنل بھیجے جائیں تو وہاں تک پہنچنے میں انہیں 38 برس اور ان کی واپسی کے لیے اور 38سال لگ جائیں گے۔گویا جو روشنی آج وہاں سے ہم دیکھ رہے ہیں، یہ 30 نوری سال قبل وہاں سے چلی تھی۔ ان 30 نوری برسوں کی مدت میں خدا معلوم، اس ستارے کا وجود باقی بھی ہے یا نہیں، یہ ہم نہیں جانتے۔ عین ممکن ہے کہ اس اثنا میں وہ خوشنما ستارہ ختم ہو چکا ہو اور جو روشنی ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ اس ستارے کا بھوت ہو۔ سچ کہا تھا مرزا غالب نے ؎ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کُھلا (سید شہاب الدین دسنوی کی کتاب ’’ آئن سٹائن:داستان ِ زندگی‘‘ سے اقتباس) ٭…٭…٭ -

Admin
08-18-2015, 09:19 AM
Thanks For Sharing

intelligent086
08-18-2015, 10:59 AM
Thanks For Sharing



http://www.mobopk.com/images/hanks4commentsvev.gif

UmerAmer
08-18-2015, 02:50 PM
Nice Sharing
Thanks For Sharing

intelligent086
08-19-2015, 01:48 AM
Nice Sharing
Thanks For Sharing

http://www.mobopk.com/images/pasandbohatbohatvyv.gif

KhUsHi
08-19-2015, 11:07 AM
Thanks for great sharing

intelligent086
08-23-2015, 09:00 AM
Thanks for great sharing


http://www.mobopk.com/images/pasandbohatbohatvyv.gif

Dr Danish
09-15-2015, 10:08 PM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13616_13188535.jpg.pagespeed.ic.7ow4l0R5hH .jpg

خلا میں کوئی معیار ایسا نہیں ہے جو مطلق ہو، جس کی نسبت سے کسی دوسری چیز کی پیمائش کی جا سکے۔ جہاں تک وقت (زماں) کا تعلق ہے، آئن سٹائن کے مطابق اس کا بھی کوئی پیمانہ نہیں، زمانہ ازل سے ہے، ابد تک رہے گا۔ بقول اقبال ع ’’ازل اس کے پیچھے، ابد اس کے آگے۔‘‘آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کے سمجھنے میں عام آدمی کو جو دشواری ہوتی ہے، اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارا ذہن ایک خاص تربیت سے بنتا ہے۔ رنگ و بُو کو ہم حقیقت میں سمجھتے نہیں، ہم کو اس کا صرف احساس ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ زمانہ یا وقت صرف احساس کا نام ہے۔ اگر آنکھیں نہ ہوں، تو ہمیں رنگ کا احساس نہ ہو، ناک نہ ہو تو بُو محسوس نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح وقت کا احساس بھی تب ہوتا ہے جب کوئی بات، کوئی واقعہ، کوئی حادثہ رونما ہو، جہاں سے ہم اس کا اصل جاننے کا احساس کر سکتے ہوں۔آج، کل، صبح، شام، اسی صورت میں بامعنی الفاظ بنتے ہیں جب ہم سورج کے طلوع یا غروب ہونے کا تصور کرتے ہیں، ورنہ راکٹ میں سفر کرنے والے مسافر کے لیے نہ صبح ہوتی ہے، نہ شام، نہ دن ہے، نہ رات! شاید اقبال کے ذہن میں بھی یہی تصور ہوگا، جب اس نے یہ شعر کہا: تیرے شب و رُوز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رَو، جس میں نہ دن ہے نہ رات راکٹ کے مسافر زیادہ سے زیادہ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ پرواز کرنے سے لے کر اب تک ان کی گھڑی کی سوئی کتنی بار گھوم چکی ہے۔ لیکن ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہمارے ساتھ بھی یہی صورت ہوتی ہے۔ ہم کیا کرتے ہیں؟ یہی نا کہ گھڑی کا وقت یا کیلنڈر کی تاریخ دیکھ کر ایک واقعے کا کسی دوسرے واقعہ سے تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ ’’میں چھ بجے سو کر اٹھا‘‘ ، ’’دس بجے دفتر پہنچا۔‘‘ ’’کل میں بازار گیا تھا۔‘‘ ان جملوں سے یہی بتانا مقصود ہوتا ہے کہ سو کر اٹھنے اور دفتر پہنچنے کے درمیان کتنا وقت گزرا؟ بازار جانے سے لے کر آج تک کتنا عرصہ ہوا؟ اس طرح وقت یا مدت کا تعین ہم اپنے لیے تو کر سکتے ہیں لیکن پوری کائنات کے لیے نہیں کر سکتے۔ لیکن پوری کائنات کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہماری گھڑیاں، جن سے سیکنڈ، منٹ، گھنٹے، دن، مہینے اور سال کا حساب لگایا جاتا ہے، نظامِ شمسی کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں۔ جسے ہم ’’ایک گھنٹہ‘‘ کہتے ہیں، وہ اصل میں ہماری دنیا کا اپنے محور پر 15 ڈگری کا چکر کاٹنے کا دوسرا نام ہے، جسے ہم ایک سال کہتے ہیں۔ وہ ہماری دنیا کے سورج کے چاروں طرف ایک پھیرا لگانے کا نام ہے۔اگر ہم عطارد نامی سیّارہ میں بیٹھ کر اسی اصول کے تحت حساب لگانے بیٹھیں، تو معلوم ہوگا کہ وہ سیّارہ سورج کے گرد ایک چکر 88 دنوں میں لگاتا ہے تو اس طرح وہاں کا سال 88 دنوں کا ہوگا اور ٹھیک اسی مدت میں (یعنی ہمارے 88 دنوں میں) عطارد اپنے محور کے گرد بھی ایک چکر مکمل کر لے گا۔ یعنی اس کا ایک دن ہمارے حساب سے 88 دنوں کا ہوگا۔ اور سال بھی 88 دنوں کا۔ دن اور رات، مہینہ اور سال کا حساب اور بھی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، جب ہم سورج سے پرے ہو کر کائناتِ بسیط کی صورتِ حال پر غور کرنے لگتے ہیں۔ وہاں نہ سورج ہے، نہ چاند!ان حالات میں اضافیت کا یہ اصول طے پایا کہ کسی ایک نظام سے باہر، وقت کا کوئی مقررہ پیمانہ نہیں ہوتا ہے۔ جب کبھی وقت کا درمیانی وقفہ ناپنے کی کوشش کی جائے گی، یہ کسی مخصوص نظام ہی کے تحت ہوگا۔ جب تک اس نظام کا حوالہ نہ ہو، ’’ابھی‘‘، ’’اسی وقت‘‘، ’’فوراً‘‘ جیسے الفاظ کے کوئی معنی نہیں ہوں گے۔ فرض کیجئے کہ سعید نیویارک سے اپنے بھائی حمید کو لندن ٹیلیفون کر رہا ہے۔ نیویارک میں شام کے سات بجے ہیں اور لندن میں رات کے بارہ بج رہے ہیں۔ ان دونوں شہروں کے وقت میں پانچ گھنٹوں کا فرق ہے۔ اس کے باوجود سعید اور حمید یہی کہیں گے کہ وہ ’’ایک ہی وقت‘‘ میں باتیں کر رہے تھے!اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ایک ہی نظام میں بس رہے ہیں۔ ان کی گھڑیاں ایک ہی نظام کے حساب سے کام کر رہی ہیں۔ یعنی ان دونوں کی گھڑیاں اس کرئہ ارض کے اپنے محور پر گھومنے کے حساب سے درست کی ہوئی ہیں۔ اب ہم ایک دوسری مثال پر غور کریں۔ ستاروں کے جھرمٹ میں روشن ترین ستارہ سماک رامح(Arctum) ہے جو 30 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ یعنی وہاں سے جو روشنی چلتی ہے وہ 186282 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر 30 سال گزرنے کے بعد ہماری زمین تک پہنچتی ہے۔ اس ستارے پر ریڈیو کے ذریعہ اشارے (سگنل بھیجے جائیں تو وہاں تک پہنچنے میں انہیں 38 برس اور ان کی واپسی کے لیے اور 38سال لگ جائیں گے۔گویا جو روشنی آج وہاں سے ہم دیکھ رہے ہیں، یہ 30 نوری سال قبل وہاں سے چلی تھی۔ ان 30 نوری برسوں کی مدت میں خدا معلوم، اس ستارے کا وجود باقی بھی ہے یا نہیں، یہ ہم نہیں جانتے۔ عین ممکن ہے کہ اس اثنا میں وہ خوشنما ستارہ ختم ہو چکا ہو اور جو روشنی ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ اس ستارے کا بھوت ہو۔ سچ کہا تھا مرزا غالب نے ؎ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کُھلا (سید شہاب الدین دسنوی کی کتاب ’’ آئن سٹائن:داستان ِ زندگی‘‘ سے اقتباس) ٭…٭…٭ -


Umda Intekhab
sharing ka shukariya@};-:Annoucemnet::Annoucemnet:

intelligent086
09-18-2015, 02:56 AM
پسند کرنے کا شکریہ