PDA

View Full Version : شہر ِنگاراں…



intelligent086
08-18-2015, 09:07 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13618_86040829.jpg.pagespeed.ic.1K0Ojjbhfy .jpg

کوئٹہ شہر سے نکل کر ہم ایک اور طویل سفر کے لئے رواں دواں تھے۔ خشک اور ویران راستوں کا ایک مرتبہ پھر آغاز ہوچکا تھا۔ گھنٹہ بھر کے سفر کے بعد بھی کوئی آبادی نہ آئی تھی۔ایک بڑا شہر خُضدار ہی تھا جو ہمارے راستے میں آیا تھا۔جب تک دن کی روشنی رہی ویرانیاں اور کہیں کہیں آبادیاں آنکھوں میں اُترتی رہیں۔ اندھیراچھاتے ہی گاڑی سے باہر کے سارے منظر ایک جیسے ہوگئے۔ میدانوں اور پہاڑوںکاکوئی فرق نظر نہ آرہا تھا۔ ویسے بھی اماوس کی راتیں تھیں اس لئے کوئی چمک اور کوئی چاندنی ان پر نہ پڑ رہی تھی۔ ہرچیز اندھیرے میں ڈوب کر غائب ہوگئی تھی۔ کبھی کبھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کھڑکی سے باہر اندھیروں کو چیرنے کی کوشش کی بھی تو ناکام ہوا۔ اس لئے یہی بہترسمجھا کہ قریشی سے کہوں ،بھئی تُوکہیں اور جابیٹھ اور مجھے سار ی سیٹ سونے کے لئے عنایت کر دے! اس نے تو پہلے ہی موٹے موٹے شیشوں والی عینک چڑھا رکھی تھی۔ بھلا اسے باہر کیا خاک نظر آتا۔ وہ تو گاڑی کے اندر بھی اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔اس لئے اس نے میری درخواست قبول فرمالی اور چُپکے سے گاڑی کی پچھلی نشستوں پر جابیٹھا۔ میں نے مفلر سے سر اور منہ لپیٹا اور اس کے دونوں کونوں کو جیکٹ میں مضبوطی سے چھپا کر ، کُکڑوںبن کر سیٹ پر لیٹ گیا۔کراچی شہر میں داخل ہو کر ہماری گاڑی سیدھا یوتھ ہوسٹل کے مین گیٹ پر جارُکی۔ یہیں ہمارے قیام کا بندوبست کیا گیا تھا۔ رات بھر کے طویل اور بور سفر نے ہمارے جسموں کو چُو ر چُور کر دیاتھا۔ اپنے بیگ گھسیٹ کر کمروں تک لے جانے کی بھی ہمت نہ رہی تھی۔مگرہمیں یہ ہمت خود ہی کرنا تھی کہ اس وقت ہوسٹل کے چوکیدار کے علاوہ کوئی اور ملازم یہاں دستیاب بھی نہیں تھا۔بیگوں کو خود ہی گھسیٹتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے تو ایک دم گرمی کا سااحساس ہونے لگا۔ لگتا تھا جیسے ساری سردی کوئٹہ میں ہی چھوڑ آئے تھے۔ کراچی کے موسم کے بارے میں ایک دوست کی بات سچ لگنے لگی۔ میں نے اس سے کراچی کے موسم کے بارے میں پوچھاتواس نے کہاتھا کہ ’’جیکب آباد کی گرمی، ملتان کی گرد، مری کی سردی اور کراچی کی سیلن کی آمیزش سے جو معتدل مرکب ظہور میںآئے گا وہ اس شہرِ نگاراں کاموسم ہوگا۔‘‘ مشتاق یوسفی نے بھی سچ ہی کہاتھا کہ ’’کراچی میں موسم ہرلحظہ روئی کے بھائو کی طرح بدلتا ہے۔‘‘ یہاں آپ دسمبر میںململ کاکُرتہ یاجون میں گرم پتلون پہن کر نکل آئیں توکسی کوترس نہیں آئے گا۔ کوئٹہ سے چلتے وقت جتنے بھی گرم او ربھاری کپڑے جسم پر ڈالے تھے اُتار کر واپس بیگ میں ٹھونس ڈالے او رایک پتلاسا سلیپنگ سوٹ پہن کر اپنی ’’چولوں ‘‘ کو اصلی حالت میں واپس لانے کے لئے بستر پرلیٹ گیا۔ جس کے لئے کم از کم چار پانچ گھنٹے تو ضرور درکار تھے۔ مگر ہماری قسمت میں صرف ایک گھنٹہ ہی لکھا تھاکیونکہ ہمیں توروبوٹ کی طرح اسی طرح چلتے جانا تھا جس طرح پہلے سے طے شدہ شیڈول میں لکھا ہواتھااور اس شیڈول کی رُو سے آج یعنی 17مارچ کو 9بجے وفد کو مزار قائد پر حاضری دینی تھی۔ پھر10بجے گورنرسندھ سے ملاقات کے لئے گورنر ہائوس جاناتھا۔ اور پھر پتہ نہیں کیا کیا ابھی اس روز کرنا تھا! اس لئے اپنی قسمت میں لکھا ہواایک گھنٹہ آرام کو ہی غنیمت جانا۔یہ گھنٹہ پورا ہوا تودوبارہ وہی روٹین شروع ہوگئی۔ نہائے،دھوئے ،کپڑے بدلے ،ناشتہ کیا او ر بس میں آسوار ہوئے۔ (اسد سلیم شیخ کے سفرنامہ پاکستان ’’کچھ سفر بھولتے نہیں‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭

UmerAmer
08-18-2015, 02:50 PM
Nice Sharing
Thanks For Sharing

intelligent086
08-23-2015, 09:02 AM
Nice Sharing
Thanks For Sharing


http://www.mobopk.com/images/pasandbohatbohatvyv.gif