PDA

View Full Version : فلسفیانہ تحریکیں! نوفلاطونیت



intelligent086
08-13-2015, 11:06 AM
فلسفیانہ تحریکیں! نوفلاطونیت
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/13587_50832451.jpg

نوفلاطونیت دانش یونان کا آخری مکتب فکر ہے اور نوفلاطونیت کا بانی فلاطنیوس یا’’پلوٹی نس‘‘ (Plotinus) یونان کا آخری عظیم فلسفی اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ رواقیت، ایپی کیوریت اور تشکیک کے بعد ابھرنے والے اس اس مکتب فکر میں تقریباً پانچ سو سال کا وقفہ ہے… نوفلاطونیت مٹتے ہوئے عظیم یونانی فلسفے کی آخری منزل ہے اس کے بعد مدرسیت (Schoolisticism) کا دور آتا ہے، جس میں فلسفے اور عقلی استدلال کو محض مذہبی عقائد کے جواز کے لیے استعمال کیا گیا۔ خیر، فلاطنیوس 205 عیسوی میں مصر کے شہر ’’لائی کو پولیس‘‘ (Lycopolis) میں پیدا ہوا۔ وہ نسلاً رومی تھا۔ بچپن ہی میں اس کے والدین نے حصول تعلیم کے لئے اسے اسکندریہ بھیج دیا۔ یہاں اس نے’’امونیس ساکاس‘‘ سے فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ ساکاس جوانی میں عیسائی تھا، مگر بعد میں عیسائیت کے خلاف تقریریں کرنے لگا۔ یہی کچھ اس نے اپنے شاگردوں کو ورثہ کیا۔ کچھ مورخین فلسفہ ساکاس ہی کو نوفلاطونیت کا بانی لکھتے ہیں۔ اس لیے کہ ساکاس اپنے نظریات کو قلم بند نہیں کرتا تھا۔ یہ کام اس کے شاگرد فلاطنیوس نے سرانجام دیا اور وہی نوفلاطونیت کے پہلے مبلغ کے طور پر سامنے آیا بعد میں فلاطنیوس نے روما میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ آئے دن بیمار رہنے والے اس فلسفی کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی اور گفتگو میں بے پناہ تاثر۔ اس کی زندگی عملاً سادہ تھی۔ وہ کم گو اور تنہائی پسند شخص تھا۔ اس کا زیادہ وقت عالم استغراق میں گزرتا۔ اسی عالم استغراق نے اس کے فلسفے کو تصوف کا چولا پہنایا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ فلاطونیت کی تشکیل میں فلو یہودی(The Jew Philo) اور سکندر افرو دیسی (Alecander Aphrodite the Jew) کے نظریات نے قابل قدر کردار ادا کیا۔ فلو یہودی30) ق م۔40 عیسوی( تورات کو تمام یونانی فلسفے کا منبع سمجھتا تھا۔ نوفلاطونیت کے مکتب فکر کی بنیاد رکھنے والے فلاطنیوس اور افلاطون میں بڑا فرق ہے۔ افلاطون حکیم ہے جو عقل و حکمت کو خدا تک پہنچنے کا راستہ قرار دیتا ہے، جبکہ فلاطنیوس صوفی ہے، جس کے نزدیک تلاش حقیقت کے سفر میں عقل گرد راہ بن کر بہت پیچھے رہ جاتی ہے اور یہ نورباطن ہے جو ذات حق سے وصال کے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔تو پھر فلاطنیوس کی تعلیمات کو ’’نوفلاطونیت‘‘ کا نام کیوں دیا گیا اور یہ کیوں کہا گیا کہ فلاطنیوس کی صورت میں افلاطون نے دوبارہ جنم لیا؟ یہ بات اس طرح سے سمجھ آنے والی ہے کہ جس طرح رواقیت اور ایپی کیوریت کی جڑیں سقراط کی تعلیمات میں پیوست ہیں، اسی طرح نوفلاطونیت نے افلاطون کے چشمہ علم سے فیضان حاصل کیا، گو اس نے افلاطون کے فلسفے کے صرف انہیں پہلوئوں کو قابل توجہ سمجھا، جن میں تصوف کا رنگ غالب تھا اور فلاطنیوس نے انہیں کو افلاطون کے نظریات کے طور پر پیش کیا اور بات یہ بھی درست ہے کہ خود افلاطون کے آخری ایام کے تصورات میں فیثا غورثی تصوف کے رنگ ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ اور پھر فلاطنیوس کی سوانح اور خیالات کو عربوں تک پہنچانے والے اس کے شاگرد’’فارفریوس‘‘ یا ’’پارفری‘‘(Porphyry) کو نہیں بھولنا چاہیے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ فارفریوس اپنے استاد فلاطنیوس اور افلاطون کی نسبت فیثاغورث کا کہیں زیادہ عاشق تھا۔ اس لیے اس نے فلاطنیوس کے خیالات کی تدوین کرتے ہوئے ان پر فیثاغورثی تصوف کا رنگ چڑھا دیا۔ یہ کہانی بھی بیان کی جاتی ہے کہ خود فلاطنیوس تاریخ فلسفہ یونان میں پہلا شخص ہے، جس کو اپنی زندگی میں کئی مواقع پر ایسا محسوس ہوا، جیسے اس کی روح ذات حق میں مدغم ہوگئی ہو۔ نوفلاطونیت کے ساتھ ہی دانش یونان کا چراغ گل ہوگیا۔ پھر یہ عظیم ورثہ مدتوں تاریخ کے تہہ خانے میں دفن رہا۔ پانچ صدیوں بعد یہ مسلمان تھے، جنہوں نے اس خزانے کو اس کے مدفن سے نکالا، جھاڑا، پھونکا اور اسے اسلام کے زندگی بخش فلسفے کی حرارت اور توانائی عطا کی۔ (ظفر سپل کی کتاب’’ورثہ ٔدانش ِیونان‘‘ سے مقتبس)

UmerAmer
08-13-2015, 02:49 PM
Nice Sharing
Thanks For Sharing

intelligent086
08-14-2015, 01:15 AM
Nice Sharing
Thanks For Sharing



http://www.mobopk.com/images/pasandbohatbohatvyv.gif