PDA

View Full Version : SaFaR nAaMa !!!



CaLmInG MeLoDy
08-11-2015, 11:56 PM
کہتے ہیں کے ہر وقت اچھے کلمات منہ سے نکالنا چاہیے. کیوں کے کوئی بھی وقت قبولیت کا ہو سکتا ہے. کچھ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا. کہ ایک دفع ایک پروگرام دیکھتے ہوئے میں نے دعا مانگی کے الله مجھے بھی خانہ کعبہ کی زیارت نصیب فرما. اور الله نے یکدم سن لی ..رات بھی نہیں گزری تھی کے معلوم ہوا کے ہمارے پاس پورٹ بننے کی درخواست دی جا رہی ہے. ویزا بھی پاسپورٹ کی تیاری کے بعد منظوری کے لئے بھیج دیا گیا. اب ہماری تیاریاں اور دل کی خوشی اور جذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا. ان تیاریوں میں سر فہرست خریداری تھی. جس کے لئے ہم نے سب سے پہلے عمرہ کے لیے استعمال ہونے والے سب سے ضروری چیز احرام اور خواتین کے لئے کوٹ نما برقع یا برقع نما کوٹ خریدے ، سعودیہ میں چونکہ گرمی بہت ہوا کرتی ہےتو ہم نے کاٹن کو ترجیح دی . کاٹن کلف سے اکڑی ہوئی تھی. اب ضروری تھا کہ اس کو کلف سے پاک کیا جائے.اس کے لئے ہم نے اس کو پانی سے دھو ڈالا.. اور خوب جوش میں اسکو گیلے ہی پریس کر ڈالا. چونکے جوش بہت تھا ، تو جلد بازی میں جلدی سے پریس کر کے بیگ میں رکھ دیا . باقی کی تیاریاں بھی مکمل کر لی گئی. اور ویزا ملنے سے اور روانگی کے دن تک پیکنگ کو کوئی دس پندرہ دن گزر گئے.
پھر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی، اور ہماری روانگی کا دن آ گیا. دل میں جوش ولولے جذبے لئے ہم ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہوئے . عمرہ کے لئے جانے کے لئے جن جن باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے، یا جو ضروریات ہوتی ہیں،لباس پہناووں یا کوئی بھی ، ہم سب نے وہ تیاریاں مکمل کر لی..ہوائی اڈے پہ مرد حضرات کو اپنے احرام زیب تن کرنے تھے، بیگ میں سے احرام نکالے گئے، مگر بیگ کھولتے ساتھ ہی دل دھک سے رہ گیا. میں نے تو رونا شروع کر دیا. یا الله کیا ہماری حاضری قبول نہیں ، کیوں کے جب ان احرام کو پریس کیا گیا تھا تو جلد بازی میں یہ دیکھنا یاد نہیں رہا کہ یہ احرام سہی سوکھے ہی نہیں ، اور دس پندرہ دن میں ان پہ پھپھوندی حملہ کر چکی تھی، بس دل مچل گیا، کچھ سوجھ نہیں رہا تھا. . بیگ میں جلد بازی میں یہاں وہاں ہاتھ مارے کہ باقی کے اہرام بھی کہیں اس ہی حال میں تو نہیں اسی چکر میں ہاتھ بھی زخمی کر لئے. اور اس حالت کو دیکھ کر دل اور پریشان ہوا. معاملہ چونکہ نازک اور دینی تھا. تو دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہو رہے تھے. مگر الله کا کرم ہمارے ساتھ ہوا کے ہمارے چچا پی آئ اے کے ملازم تھے اور اچھی پوسٹ پہ کام کیا کرتے تھے. وہ ہمیں جہاز تک پوھونچانے آے ہوئے تھے. انہوں نے تسّلی دی. کہا ، میرے لئے یہاں داخلہ اور با ہر جانا آسان ہے، میں بازار سے احرام لے کر آتا ہوں، اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے انہوں نے مارکیٹ کا رخ کیا. ابھی جہاز کی روانگی میں آدھ گھنٹہ باقی تھا، ہمیں عمرہ کی نیت بھی کرنی تھی، جہاز میں بیٹھ جانے کے بعد پاکستان سے سعودیہ سیدھے جدہ روانگی ہوتی ہے، اور نیت کا مقام راستے میں ہی گزر جاتا ہے، لہٰذا ہمیں پاکستان سے ہی نیت کر کے چلنا پڑتا ہے، جیسے تیسے انتظار کا وقت گزرا اور چچا احرام لئے ہمارے پاس آ موجود ہوئے.. دل سے بس دعایئں جاری تھی، اور عجیب روحانیت کا خوف اور روحانیت کی خوشی دل میں طاری تھی. چچا کے آنے کے بعد اہرام باندھے گئے، ہم سب نے نوافل ادا کئے. اور جہاز کی طرف روانہ ہوئے. اب دل کو تھوڑا سکون ملا.











ہماری بکنگ سعودیہ ائیرلایں کی تھی. تو جہاز بھی سعودیہ کا ہی تھا. سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے. اور جہاز رن وے پر ہلکے ہلکے چلنے لگا. میرا دل خوشی سے جھوم رہا تھا، کیوں کہ وہ وقت آ گیا تھا کے ہماری منزل قریب تھی. اسلام آباد سے جدہ کا فاصلہ اندازن چار گھنٹے یا کچھ اور آدھے گھنٹے کا ہوگا. جہاز میں ایر ہوسٹسس کی چہل پہل شروع ہو گئی. سعودیہ کی ائیر ہوسٹسس مکمل پردہ میں تھیں. اور پاکستانی ائیر ہوسٹسس سے نسبتاً مختلف لباس میں ملبوس تھی، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ایک دینی ملک سے تعلّق رکھتی ہیں، سب سے پہلے ہمیں نہایت ذائقے دار اور تازے جوس پیش کئے گئے.پی کر اندازہ ہوا کے ان میں فلیور کم اور اصل پھل کا ذائقہ زیادہ ہے. جوس کے ساتھ کوفی کا بندوبست بھی تھا. مگر میں نے صرف جوس پہ اکتفا کیا. اس کے بعد میں نے جہاز میں یہاں وہاں نظر ڈالی . جہاز چونکہ سعودیہ تھا تو اس میں بے شمار ملکوں کے لوگ جو شاید پہلے سے اس جہاز کے مسافر تھے موجود تھے. اندازہ ہوا کے یہ جہاز پاکستان سے پہلے کسی اور ملک سے بھی مسافر لا رہا تھا.اور اچھا خاص بڑا جہاز ہونے کے باوجود اس میں پی ای اے کے جہاز کی نسبت جگا بڑی تنگ تھی. میں نے اندازہ خود ہی لگا لئے کے یقینن عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے بیشمار مسافر سفر کیا کرتے ہونگے تو بڑے جہاز میں زیادہ مسافروں کا انتظام کر کے اس مقصد کو جلد پورا کرنے کی کوشش میں جہاز میں زیادہ مسافروں کے بیٹھنے کا بندوبست کیا جاتا ہوگا.



جہاز میں ٹیلویزں بھی آن تھا. مگر عربی چینل ہونے کی وجہ سے میرے لئے کوئی پروگرام سمجھ سے با ہر تھا. چونکہ ہم پاکستانی دوران سفر موسیقی کے عادی ہوتے ہیں تو دل میں کچھ ایسی ہی طلب پیدا ہوئی . مگر پھر میں نے دل میں درود پاک اور کچھ اور آیات کو پڑھنا شروع کر دیا. کیوں کے ہمارے سعودیہ جانے کا یہ ہی مقصد تھا. بھوک بھی خوب لگی ہوئی تھی. تھوڑی دیر میں اندازہ ہوا کہ کھانے پینے کے لئے دوبارہ سے جہاز میں چہل پہل شروع ہو گئی ہے. سب کو باری باری انکے لنچ پیش کر دے گئے. بھوک تھی بھی شدید. کھانے پہ نظر ڈالی تو دل خوش ہو گیا.بڑے بڑے کیوبک شکل میں کٹے مرغی کے ٹکرے دل کو سکون دے رہے تھے. مگر ایک بات سمجھ نہیں آ رہی تھی ، کے بھلا یہ کتنی بڑی مرغی تھی کہ جس کے ٹکڑے بھی نہایت بڑے تھے، خیر ہم نے کھانے پہ اکتفا کیا کیوں کے بھوک سے برا حال تھا.کھانے کے لئے دو دش مویسّر تھیں . ایک چکن روسٹ نما ، دوسرا چاول اس میں بھی یہ ہی چکن . میں نے سب سے پہلے روسٹ کھانا پسند کیا. مگر. اس کا ذائقہ دل کو کچھ بھایا نہیں، بلکے کچھ عجیب سا ذائقہ محسوس ہوا. میں نے سوچا چلو چھوڑو چاول ہی کھا لیتے ہیں، مگر چاول میں بھی ذائقہ کچھ مختلف تھا. مگر سمجھ نہیں آیا. کے مرغی اس قدر سخت اور عجیب سے ذائقے کی کیوں ہے، جبکہ مصالحہ نہایت خوش شکل لگا ہوا نظر آ رہا ہے. میں نے اپنے ابو کی طرف نظر ڈالی. انہوں نے تقریبآ اپنا کھانا نوش فرما لیا تھا.. میری سوالیہ نظروں کو انہوں نے اچھے سے بھامپ لیا،،کہنے لگے. کیوں بیٹا کیسا لگا اونٹ کے گوشت کا ذائقہ. تب جا کر میرے سارے سوالوں کا جواب مجھے مل گئے . ابو نے بتایا کے سعودی لوگ مرغی کی بجاے اونٹ کے شوقین ہیں. مگر میرے لئے پہلی دفع اونٹ کا ذائقہ چکھنا کوئی خاص اچھا تجربہ نہیں رہا. تو میں نے بھوکے رہنےکا فیصلہ کیا..

جیسے تیسے سفر مکمل ہونے کو تھا. ائیر ہوسٹس نے جہاز لینڈنگ سے اندازن آدھے گھنٹے پہلے عربی زبان کو فولو کرتے ہوئے اشاروں میں کچھ سمجھانا شروع کر دیا. جو کے میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا. کچھ لوگوں کو میں نے انکی گھڑیوں کی سویاں گھماتے پایا..جس سے اندازہ ہوا کے یہ اشارے در حقیقت وقت تبدیل کرنے کے لئے کئے گئے تھے. چونکے پاکستان اور سعودیہ کے وقت میں دو یا اڑھایی گھنٹے کا فرق ہے. دوسری ائیر ہوسٹس نے انگلش کو فولو کرتے ہوئے پھر سے یہ ہی اشارے کئے. جو مجھے تھوڑے بہت سمجھ آ گئے. مگر کچھ الفاظ روانی سے بولی جانے والی انگریزی کی وجہ سے ابھی بھی میری سمجھ سے با ہر تھے. ..خیر یہ میرا مسلہ نہیں تھا. مجھے تو بس سعودیہ پوھونچنے کی فکر تھی.ساری ضروریات جو جہاز سے اترنے سے پہلے کی ہوا کرتی ہیں، وو پوری کر کے ہم لوگ بل آخر سعودیہ کی سرزمین پہ اترنے کو ہی تھے. جہاز میں چونکہ خوب ٹھنڈک ہوا کرتی ہے، تو جہاز سے با ہر آتے ساتھ ہی گرم ہوا کے تھپڑ ہمارے گالوں پہ رسید ہوئے. گرم ہوا کے یہ جھونکے دل کو نہیں بھا رہے تھے...گرمی سے پل بھر میں برا حال ہو گیا..دل مچل رہا تھا کے یہاں سے جلدی کسی بھی طرح مکہ کی سر زمین پوھنچ جاہیں. عصر کا وقت گزر چکا تھا..سوچا تھا عشا کی نماز مکہ میں مل جائے گی.

اب ہمیں جدہ سے مکہ کے لئے روانہ ہونا تھا. ہمارا پیکج پاکستانی تھا. اور پاکستانی ٹیم ہی سب مینج کر رہی تھی. اور کیسے کسی کا آرام چھینا جا سکتا ہے پاکستانی ایجنٹ کے ذریے. یہ کوئی سعودیہ جا کر اچھے سے اندازہ لگا سکتا ہے. پتا لگا کہ ہمیں ابھی جدہ میں ہی دو گھنٹے بیٹھ کر اپنی ہائی ایس کا انتظار کرنا تھا. کیا کرتے .خاموشی سے بیٹھ گئے. بھوک اور پیاس سے برا حال ہو رہا تھا. پانی ڈھونڈھا دور دور تک کہیں موجود نہیں تھا. صبر کیا..سوچا مکہ میں جس ہوٹل میں بندوبست ہمارے لئے کیا گیا ہے، وہاں کھانا پینا مل جائے گا. پر پانی کی طلب ایسے کسے پوری ہو..پوچھتے بھی کس سے..سب ہی عربی لوگ تھے.ہماری بات کون سمجھتا..چپ کر کے بیٹھ گئے. با مشکل تمام وقت گزرا. اور ہم اپنی ہائی ایس میں سوار ہو گئے. تھکاوٹ کا احساس کم ہوا کے خوبصورت مقام آنے کو ہے. راستے میں اپنے ڈرئیور سے کہ جو پاکستانی تھا. پانی کا پوچھا. کہنے لگا بس آپ کے ہوٹل آنے میں تھوڑا وقت ہی رہ گیا ہے. وہاں جا کے پی لینا....وہ تو بھلا ہو پٹرول کا کہ جس کو بھروانے کے لئے ڈرaئیور نے ہائی ایس روکی..ہم سے رہا نہیں گیا. سیدھے پٹرول پمپ پہ لگے واٹر ٹینک پہ ٹوٹ پڑے. مگر پانی تو حلق سے نیچے نہیں اتارا گیا. اس قدر کڑوا پانی تھا کہ پینے کے قابل نہیں تھا..مگر دو گھونٹ حلق گزار کر کے دوبارہ اپنی جگہ جا کر بیٹھ گئی. پوچھنے پہ معلوم ہوا کے اس پیاری سر زمین پہ اب زم زم بہت بڑی نعمت ہے الله کی. جو پورے سعودیہ کو سپلایی کیا جاتا ہے. ورنہ سعودیہ میں سمندر کا کڑوا پانی ہی ملتا ہے.

مغرب کی آذان راستے میں ہی ہو گئی تھی..سوچا مکہ آنے کو ہے، عشاء کی نماز مل جائے گی. مگر کہاں ..ہم ہوٹل میں عشاء کی نماز کے وقت پوھنچ تو گئے مگر ہمارا سامان ابھی نہیں پوھنچا تھا. اور ہمارا پاسپورٹ جو ہم سے جدہ میں لے لیا گیا تھا. وہ بھی ابھی تک ہمیں نہیں ملا تھا واپس. ہمارے پیکیج ایجنٹ کے پاس تھے. آرام کہاں اور نماز کہاں..ہم تو بے یارو مددگار ہوٹل کی لوبی میں بیٹھے صرف تھکاوٹ سے چور ہو رہے تھے. ہمیں ہمارے پاسپورٹ کی وجہ سے اپنے اپنے روم میں جانے کی بھی اجازت نہیں تھی. جسم اور ذہن آرام کی طلب کر رہا تھا. مگر ذہن کو زبردستی جگا کے رکھا ہوا تھا ہم نے. انتظار کی گھڑیاں ایک دیڑھ گھنٹے بعد ختم ہوئی.. اور ہمیں ہمارا سامان اور پاسپورٹ نام پکارے جانے کے بعد ایک ایک کر کے ملتا گیا. اور اندازن رات کے تین بجے یا شاید اس کے قریب ہی کوئی وقت ہوگا..ہمیں ہمارے کمرے میں جانے کے لئے چابی تھما دی گئی. ہم اپنے کمرے میں داخل ہوئے. کمرے میں پاسپورٹ اور افراد کے حساب سے بستر گن کر فراہم کئے جاتے ہیں، ایک بستر کی چھوڑایی بس اتنی ہوگی کہ جس پہ ایک انسان بمشکل تمام کروٹ لے سکے. سوچا کھانے پینے کو اب ہمیں کچھ دیا جائے گا. صبح کا اسلام آباد سے سفر شروع ہوا ہے. پیکج میں یہ سب بھی ہوگا. ظاہر ہے ہم سے یہ ہی کہا گیا تھا. مگر ہمارا یہ انتظار بھی بیکار تھا. فجر کا وقت ہو گیا. اب تو دل بس بے چین ہو گیا. اور آنکھوں کو خانہ کعبہ کے دیدار کی خواہش جاگ گئی. باقی کی ساری خواہشات مدھم ہو گئی. کمرے سے با ہر نکلتے نکلتے ہزاروں خیالات دل میں آنے لگے. جن میں یہ بھی تھا کے سعودیہ ایک امیر ملک ہے، اس کی سڑکیں امارات سب دیکھنے سے تعلق رکھتی ہونگی. ہوٹل سے با ہر قدم نکالا ہی تھا کہ ہلکی ہلکی پھوار برسنے لگی. آسمان پر دیکھا تو بہت ہی خوبصورت بادل تھے. ایسا لگا کہ جیسے بارش بس برسنے کو ہے. مگر ہمارے ساتھ کے کچھ مسافروں نے کہ جو پہلے بھی اس سعادت کو حاصل کر چکے تھے انہوں نے بتایا کے یہ بادل برسنے والے نہیں ہیں. یہ اگست کا مہینہ یہاں پہ کھجور کی پکآیی کا مہینہ ہوتا ہے. اور اس مہینہ میں یہاں خوب گھٹن اور گرمی ہوتی ہے. اور یہ ہی گرمی اور گھٹن کھجور کو درختوں پہ تیار کرتی ہے.اس دن یہ بات سمجھ آ گئی کے ضروری نہیں کہ جو موسم ہمیں اچھے نہیں لگتے وہ برے ہوتے ہیں. بلکہ ہر وقت کی اپنی ایک ضرورت اور نزاکت ہوا کرتی ہے. وہاں کا یہ موسم کھجوروں کو پکا کر دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے کھجوروں کی خریداری کا بڑا مرکز بنتا ہے.





اپنی منزل کی جانب رواں دواں میں نے ایک نظر یہاں کی سڑکوں پہ دوڑائی میرا خیال تھا کے یہاں کی سڑکیں اور بازار قدرے خوبصورت اور امیر ملک کی عکاسی کرتے ہونگے. مگر یہاں معاملہ میری سوچ سے مختلف نکلا. . سڑک اتنی چکنی تھی کہ جیسے اس پہ ڈھیروں دیگیں پکایی گئی ہوں. مگر پوری ہی سڑک چکنی دیکھ کر یہ سوال میرے ذہن میں سوال ہی رہا کے آخر ایسا کیوں. سڑک کی دونو جانب دکانیں ابھی بند تھیں. چونکہ صبح کا وقت تھا اور تھکاوٹ بھی بہت تھی، تو میں شاید کھلی دکانوں پہ دھیان ہی نہیں دے پایی. دس منٹ چلنے کے بعد تھوڑے فاصلے پر بلیکش گرے رنگ کے پتھر سے بنی مسجد یعنی کہ حرم شریف مجھے بلکل صاف دکھایی دینے لگی. دل میں خوشی نے سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارنی شروع کر دی..اور بس من پسند منزل کی طرف ہمارا سفر ختم ہی ہونے کو تھا. آنکھوں میں خود سے آنسو بھر آے . اور خانہ کعبہ کے دیدار کو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گیئں. مگر مسجد کافی بڑی ہے.تو ابھی ہمیں کافی راستہ طے کرنا تھا. برا سا صحن جو در حقیقت مسجد کے با ہر کا علاقہ تھا . کافی بڑا تھا. پھر وہاں سے مسجد کے اندر جانے والے دروازے نظر آنے لگے. دل مضطرب تھا اندر جانے کو. مگر دروازوں سے با ہر ہمیں اپنے جوتے اتارنے تھے ، جو ہم نے یہاں کے لئے نیے ہی لئے تھے. مگر یہ خبر نہ تھی کے واپسی پہ یہ ہمیں نہیں ملینگے. کیونکہ یہاں روزانہ پتا نہیں کتنے لا تعداد لوگ حاضری دیتے ہیں، اور واپسی پر یہ تک بھول جایا کرتے ہیں کے وہ کس در سے داخل ہوئے تھے. اور جس مرضی جوتے پر انکا ہاتھ پڑے پہن کر چلتے بنتے ہیں. لہٰذا ہم نے بھی اپنے جوتے گنوا دے . خیر اس کا ہم کو افسوس نہیں تھا.


لوگوں کے مختلف طرح کے پہناوے نظر آ رہے تھے. جس سے ہر ملک کے لوگ ، ہر رنگ کے ہر نسل کے لوگ ہماری آنکھوں سے گزر رہے تھے. اتنے ڈھیر سارے لوگوں کو دیکھ کر یہ احساس بہت زیادہ ہوا کے ہم تو کچھ بھی نہیں. الله کی عبادت کرنے والوں کی تو کوئی کمی ہی نہیں ہے. اور ہم انکے سامنے کچھ بھی نہیں. نظریں اب اور بیتاب ہو گیئں. خانہ کعبہ کے دیدار کو. دروازوں پر سیکورٹی ٹیسٹ کے بعد ہم مسجد میں داخل ہو گئے. اور اب ہماری نظریں بس دیدار کی خواہش مند ہو گیئں. چلتے چلتے یکدم کانوں میں پرندوں کی چہچہاہٹ گونجنے لگی جو خانہ کعبہ کے ارد گرد طواف کیا کرتے ہیں جن میں کبوتر، ابابیل اور چڑیا سر فہرست ہیں. . بلکل سامنے مسجد کے بیچوں بیچ سنگ مرمر کے سفید فرش کے بیچ کالے غلاف میں لپٹا خانہ کعبہ ہماری نظروں کے سامنے تھا. اور چاروں طرف سے آتی بجلیوں کی روشنی ، اور صحن کی سفید چمک اس مقام کو ایسی چمک دے رہی تھی ، کہ جیسے نور زمین سے اٹھتا ہوا آسمان کی طرف جا رہا ہو. ایسا خوبصورت اور پر نور نظارہ پہلے کبھی نہ ملا تھا دیکھنے کو.. فجر کا وقت ہو چکا تھا. رونق اور چہل پہل دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی. ہم نے خواتین کی جائے نماز تلاش کی. جو مردوں کی نماز کی جگہ سے کچھ پردے میں پوری مسجد میں الگ الگ بنی ھوئ ہے. ہم وہاں چلے گئے. سپیکر کی آواز کانوں میں لگی. نیت کے بعد جماعت کے ساتھ نماز ادا کی گئی. نماز کے بعد ایسا لگا جیسے دوبارہ نیت باندھی گئی ہو..مگر ایک سوال ذہن میں پیوست ہو گیا. کے بھلا یہ فجر کی نیت کے بعد دوبارہ کس نماز کی نیت باندھی جا رہی ہے. مجھے لگا کے چونکہ میں باجماعت نماز کی عادی نہیں. اپنے گھر پہ نماز ادا کیا کرتی ہوں تو مسجد کے قوانین سے واقف نہیں ہونگی. خیر. نماز کے بعد اب ہم لوگوں نے عمرہ کرنا تھا.کہ جس کی اصل نیت سے ہم لوگ یہاں آے ہوئے تھے. خانہ کعبہ کے طواف کے لئے ہم مسجد کے صحن کی طرف روانہ ہو رہے تھے تو ہماری نظر کچھ جنازوں پڑا. کہ جو نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد مسجد سے با ہر لے جائے جا رہے تھے. تب مجھے اندازہ ہوا کہ جو دوسری نیت کی آواز تھی وہ درحقیقت نماز جنزا تھی. کتنے خوشنصیب تھے یہ لوگ کے مرنے کے بعد بھی یہاں لاے گئے.


مسجد میں جگہ جگہ پینے کے لئے ٹھنڈے آب زم زم کے کولر موجود تھے. ساتھ ہی پی کر ضایع کر دینے والے اور نیے پلاسٹک کے گلاس موجود تھے. عمرہ پر آنے والے لوگ یہاں سے ہی پانی بھر کر ہوٹل میں لے جایا کرتے ہونگے. ہم بھی جتنےدن یہاں رہے. یہ ہی کرتے رہے. عمرہ کے تمام ارکان پورے کرنے کے بعد ہم تھکاوٹ سے چور تھے. کیوں کے خانہ کعبہ کے طواف اور صفا'ا مروا'ا کے سات چکر لگانے میں گھر تک جانے میں اندازن ٨ میل یا اس سے زیادہ کا سفر کرنا پڑا. تھکاوٹ سے جسم اکڑ چکا تھا. اب ہوٹل واپسی لازمی تھی. بھوک بھی شدید تھی. پھر ہم انہی سڑکوں پر واپسی کے لئے رواں دواں تھے. اور جو دکانیں جو فجر کے وقت بند تھیں . اب کھل چکی تھی. جن میں زیادہ دکانیں ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی تھیں. جہاں پر ہمارا دیسی کھانا ناشتہ آرام سے مل رہا تھا. دوپہر کے لئے اور رات کے کھانے کے لئے بھی مختلف پاکستانی کھانے با آسانی مویسّر تھے. ان دکانوں کو دیکھ کر اب میں با آسانی اندازہ لگا سکتی تھی کہ سڑک اتنی چکنی کیوں تھی. ہم نے ناشتہ پیک کروا لیا. اور باقی کے دنوں میں بھی یہ ہی کرتے رہے. مکہ میں دوبارہ سے عمرہ کی نیت کرنے کے لئے ہمیں مکہ میں ہی موجود مسجد جس کا نام مسجد عائشہ ہے وہاں نیت کرنے جانا پڑتا تھا. ایک دفع ہمارے پاس پیسوں کی چینج نہیں تھی. اور ہوٹل سے مسجد عائشہ تک کا سفر کرنے کے لئے ہمیں جو ہائی ایس درکار تھی اسکا کرایہ جو اس وقت ١ سعودی ریال تھا ایک مسافر کے لئے تھا. ہمارے پاس نہیں تھا. عربی بہت غصّے ہوا. ہم اسکی وہ ہماری زبان سمجھ نہیں پا رہا تھا. پانچ دس منٹ ہم چینج ڈھونڈھتے رہے ، ناکام رہے. عربی نے ہمارے پیسے وہیں زمین پر پھینکے اور معاف معاف کے الفاظ بلند کرتا ہوا روانہ ہو گیا. اسلامی ملک میں ہونے کا ہمارا یہ دوسرا بڑا تجربہ تھا. .


باقی کے دن پورے کر کے ہم مدینہ شریف کی طرف روانہ ہوئے. وہاں جانے کے لئے ہم نے اپنے پیسوں سے ایک پاکستانی کی taxi بک کروا لی. راستہ ٤ گھنٹے کا تھا. تو بجاے اس کے کہ ہم اپنے پیکیج والے کی ہائی ایس پہ سفر کر کے خوار ہوتے ہمارے لئے یہ taxi اچھی رہی. وہاں بھی ہم نے اپنا کمرہ اپنے پیسوں سے بک کروایا مدینہ شریف کی سڑکیں خاصی کھلی کھلی اور کافی بڑی بڑی گاڑیوں سے بھر پور نظر آتی ہیں.جس سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سعودیہ میں پٹرول کتنا سستا ہے. اس وقت ایک سعودی ریال ایک لٹر کے لئے تھا. . کیوں کے ہمارے لئے کوئی بندوبست ہی نہیں کیا گیا تھا. پاکستان سے جانے والوں کے ساتھ پاکستانی ایجنٹ ایسا ہی سلوک کیا کرتے ہیں اکثر. وہاں بھی ہم نے مکہ کی طرح کھایا پیا . اور باقی کی عبادت کی .واپسی پر مکہ میں ہمیں دوبارہ ٣ دن گزارنے تھے. اور اب عمرہ کی نیت دوبارہ کرنی تھی. یہ فرض نہیں ہے. مگر جب گئے تھے تو یہ موقع کیوں ہاتھ سے جانے دیتے. مدینہ سے واپسی پر راستے میں ایک مسجد ہے کہ جس کا نام مسجد بیر علی ہے. وہاں تمام مسلمان عمرہ کی نیت کیا کرتے ہیں. ہم نے بھی کی. پھر مکہ آ کر باقی کے ارکان پورے کر کے تین دن میں ہماری واپسی کا دن آ گیا. دل خوش بھی تھا. اداس بھی. ملی جلی کیفیت کے ساتھ ہم نے ائیرپورٹ کا رخ کیا. سعودی ائیرپورٹ پر گرمی کی وجہ سے اے سی کا ایسا کولنگ سیسٹم ہے کہ چاہ کر بھی ہم خود کو سردی لگنے سے نہیں بچا سکتے. ٹھٹھرتے ٹھٹھرتے ٤ گھنٹے ائیرپورٹ پر ہی گزارنے کے بعد بلآخر ہماری پاکستان واپسی ہو گئی. اور پاکستان ائیرپورٹ پر ہمیں خوش آمدید کہنے والوں کے چہرے دیکھ کر میرے دل سے بس یہ ہی دعا نکلی کے یا رب ہر مسلمان کو اس مقام کو دیکھنا نصیب فرما اآمین.