PDA

View Full Version : ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود نیوٹن کے نظریے!



intelligent086
08-03-2015, 03:04 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13501_81740413.jpg.pagespeed.ic.y59FeOhmXD .jpg

سترہویں صدی کے آخر میں انگلستان کا مشہور سائنسدان سر اسحاق نیوٹن حرکت کے ایسے مشاہدوں پر غور کر چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ پُرسکون سمندر میں جہاز کسی بھی رفتار سے چل رہا ہو، مسافروں کی چائے کی پیالی نہیں چھلکتی ہے، اُسترے سے ڈاڑھی مونڈتے ہوئے چہرے پر کوئی خراش نہیں آتی ہے۔ انہیں جہاز کا چلنا محسوس ہی نہیں ہوتا ہے۔ لیکن اگر سمندر میں طوفانی کیفیت پیدا ہو جائے یا جہاز یکلخت سمت بدل دے، تو مسافروں کو فوراً محسوس ہوتا ہے۔ ان مشاہدوں سے نیوٹن نے یہ نتیجہ نکالا کہ کسی خاص جگہ پر جو اشیا موجود ہیں، ان سب کی رفتار ایک ہی ہو گی خواہ وہ جگہ خود بھی سیدھی سمت میں آگے کی طرف حرکت کر رہی ہو، یا ساکن ہو۔ یہ نیوٹن کا کلیۂ اضافیت تھا۔ اس بات کو یوں بھی کہا گیا کہ میکانکی قوانین جو کسی ایک جگہ کے لیے واجب ہوں گے، ان کا اطلاق یکساں طور پر ہر اس جگہ کے لیے بھی ہوگا جو پہلی جگہ سے متحرک ہو۔ فطرت کے قوانین:اس سیدھے سادے فقرے پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ صرف ہماری دنیا کے لیے نہیں بلکہ ساری کائنات کے لیے نہایت اہم ہے۔سائنس کا مقصد یہ ہے کہ جس دنیا میں ہم بس رہے ہیں، اسے جزوی اور کُلی طور سے سمجھنے میں وہ ہماری مدد کرے، اس لیے سائنسدان کو کائناتِ بسیط کے قوانین میں ہم آہنگی پر یقین رکھنا چاہیے۔ اسے اس بات کا بھی یقین ہونا چاہیے کہ سرزمین پر فطرت کے جو قوانین اس مشاہدے میں آتے ہیں، وہی سارے قوانین اس دنیا کے علاوہ پوری کائنات پر بھی عائد ہوتے ہیں۔ چنانچہ اب جو خلائی پرواز کی تیاریاں کی جاتی ہیں، تو وہ سب انہی قوانین کی بنیاد پر ہوتی ہیں جنہیں ہم کرئہ ارضی پر بروئے کار دیکھتے ہیں۔ نیوٹن کی سیب والی کہانی اگر سچ مان لی جائے، توکہا جا سکتا ہے کہ پکّے سیب کو درخت سے زمین پر گرتے دیکھ کر نیوٹن نے جو قانونِ تجاذب مرتب کیا تھا، وہی قانون اجرامِ سماوی (چاند، سیّارے وغیرہ)کی گردش کا حساب لگانے میں بھی کام آیا۔ پانی کے جہاز کی اضافی رفتار کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ چاند اور زمین، دونوں ایک ہی مرکزِ کشش کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ قدرت کے اس مظہر کو آئن سٹائن نے فلسفیانہ رنگ دے کر ایک جگہ یوں لکھا ہے:’’چاند کا اگر اپنا کوئی دماغ ہوتا تو یہی سمجھتا کہ وہ اپنی مرضی سے دنیا کے گرد چکر لگا رہا ہے۔‘‘ تماشا یہ ہے کہ یہ سارا نظامِ شمسی بھی 13 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ایک خصوصی نظامِ انجم کے اندر حرکت میں ہے۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ وہ نظامِ انجم اپنے کہکشاں کے اندر 200 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے بڑھ رہا ہے اور کہکشاں خود بھی 100 میل فی سیکنڈ کے حساب سے کسی دوسری کہکشاں کی جانب کھسک رہا ہے! اس طرح بقول شاعر ع ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود (سید شہاب الدین دسنوی کی کتاب ’’ آئن سٹائن :داستان ِ زندگی‘‘ سے اقتباس) ٭…٭…٭

UmerAmer
08-03-2015, 02:46 PM
Nice Sharing
Thanks For Sharing

intelligent086
08-04-2015, 02:28 AM
Nice Sharing
Thanks For Sharing


http://www.mobopk.com/images/pasandbohatbohatvyv.gif