PDA

View Full Version : جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ



intelligent086
07-26-2015, 12:28 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/13432_56994243.jpg

سفیان شہزاد

جلال الدین رومی،دنیا بھر میں مولانا روم کے نام سے مشہور ہوئے۔ ۶۱۰ ھ میں اُن کے والد گرامی شیخ بہائوالدین نیشاپور ہجرت کر گئے۔ جلال الدین رومی کی عمر ۶ سال تھی جب ان کے والد انھیں ساتھ لے کر نیشاپور کے مشہور بزرگ شیخ فریدالدین عطار سے ملاقات کرنے گئے۔ فریدالدین نے ننھے محمد کو دیکھ کر شیخ بہائوالدین سے فرمایا ’’مولانا اس کی تربیت میں غفلت نہ برتنا، آگے چل کر یہ مسلمانوں کا بہت بڑا امام بنے گا اور اس کا نام رہتی دنیا تک قائم رہے گا‘‘۔ جلال الدین رومی نے ابتدائی علوم کی منازل اپنے والد سے ہی طے کرلی تھیں۔ اس کے بعد اپنے اتالیق سید برہان الدین کی شاگردی اختیار کی۔ ۶۲۹ھ میں شام تشریف لے گئے۔ وہاں شیخ سعدی اور شیخ محی الدین ابن عربی کے حلقے کے صوفیوں سے کسب فیض کیا۔ پھر حلب کے مدرسے حلاویہ میں رہ کر مولانا کمال الدین کے سامنے زانوئے تلمذ (شاگردی) تہ کیا۔یہاں تک کہ ۶۰۴ھ میں پیدا ہونے والا یہ بچہ محض ۲۶ سال کی عمر میں مرجع خلائق بن گیا اور بڑے بڑے علما اس کی طرف رجوع کرنے لگے۔ اتنی شہرت کے باوجود دل میں ایک کسک سی باقی تھی اور نامعلوم شے کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ اُدھر ایک مردِخدا باباکمال الدین جندی کو جب مولانا کے تمام حالات کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے مریدِخاص حضرت شاہ شمس تبریز کو حکم دیا کہ روم جائو اور ایک سوختہ دل کو گرما آئو۔ سو وہ قونیہ پہنچے اور شکرفرشوں کی سرائے میں قیام فرمایا۔ ایک دن مولانا جلال الدین راستے سے گزر رہے تھے کہ حضرت شمس سے ملاقات ہوگئی۔ حضرت شمس نے سرِراہ دریافت فرمایا کہ مجاہدے اور ریاضت کا کیا مقصد ہے؟ مولانا نے جواب دیا ’’اِتباعِ شریعت۔‘‘شمس تبریز نے کہا، یہ تو سبھی جانتے ہیں لیکن اصل مقصد مجاہدے اور ریاضت کا یہ ہے کہ وہ انسان کو منزل تک پہنچا دے۔ پھر حکیم سنائی کا شعر پڑھا جس کا ترجمہ ہے ’’ایسا علم جو تجھے تجھ سے نہ لے لے، اس سے جہالت بہتر ہے‘‘۔ شمس تبریز سے مولانا کی ملاقات کے متعلق ایک دوسری حکایت بھی ملتی ہے، جس کے مطابق مولانا حوض کے کنارے بیٹھے درس و تدریس میں مشغول تھے کہ حضرت شمس تبریز وہاں پہنچے اور وہاں موجود کتب کی طرف اشار کرکے فرمایا ’’یہ کیا ہے؟‘‘۔ مولانا نے جواب دیا ’’یہ وہ علم ہے جس کا تجھے نہیں پتا (ایں علم است و تو نمی دانی)۔ حضرت شمس تبریز نے ساری کتابیں حوض میں پھینک دیں۔ مولانا نے فرمایا، یہ تو نے کیا کردیا؟ ایسی قیمتی کتب تو بادشاہوں کے خزانوں میں بھی نہ ہوں گی۔ یہ سن کر حضرت شمس تبریز نے ہاتھ ڈال کر حوض میں سے ساری کتب ایک ایک کرکے خشک حالت میں نکال لیں اور ساتھ ساتھ کتابوں پر ہاتھ مار کر گرد جھاڑتے جاتے تھے۔ مولانا نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ تو حضرت شمس تبریز نے جواب دیا کہ یہ وہ علم ہے جس کا تجھے نہیں پتا (ایں علم است و تو نمی دانی)۔اس کے بعد مولانا حضرت شمس کے مرید ہوگئے۔ مولانا خود فرماتے ہیں: مولوی ہرگز نہ شُد مولائے روم تا مریدِ پیرِ تبریزی نہ شُد اس کے بعد مولانا روم نے درس و تدریس کی تمام مجالس ترک کردیں اور حضرت شمس کے ہی ہو کر رہ گئے اور خاموشی اختیار کرلی۔ اگر کسی وقت بولتے تو منہ سے خوبصورت اشعار نکلتے جو ان کے ایک مریدِخاص ساتھ ساتھ لکھتے جاتے۔ یہی اشعار آج ہمارے سامنے مثنوی کی صورت میں موجود ہیں۔ سالہا سال تک بنجر دِلوں کو آباد کرنے والے یہ عظیم انسان ۵ جمادی الثانی ۶۷۲ھ بمطابق ۱۷ دسمبر ۱۲۷۳ء کو اس دارِفانی سے کوچ کر گئے۔ قونیہ میں ان کا مزار آج بھی اہلِ دل کے لیے حرم ہے۔ مثنوی روم مولانا جلال الدین رومی کی اور بھی کئی تصانیف ہیں ،لیکن جو شہرت دوام ’’مثنوی‘‘ کو ملی، دوسری کتب اس سے محروم ہی رہیں۔ آج بھی جہاں جہاں مسلمان اور فارسی زبان سے واقفیت رکھنے والے موجود ہیں، ان کی یہ کتاب نہ صرف پڑھی اور سمجھی جاتی ہے بلکہ مختلف زبانوں میں اس کے تراجم بھی ہو چکے ہیں۔ اپنی اس کتاب میں آپ نے حکایات کا سہارا لے کر تصوف کے دقیق سے دقیق مسائل کو بھی انتہائی آسان طریقے سے قاری کو ذہن نشین کروایا ہے جیسے وہ کوئی عام سا مسئلہ ہو۔اس کا ہر ایک شعر سوزوگداز میں گْندھا ہوا اور پڑھنے والے کے دل میں اترتا جاتا ہے۔ اپنی شاعری میں مولانا جگہ جگہ انسانیت سے محبت کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ بدکار سے بدکار شخص سے بھی محبت کریں نہ کہ نفرت۔ نفرت کے لائق تو اس کا عمل ہے نہ کہ وہ خود۔ آپ فرماتے ہیں کہ کسی انسان کے ظاہر کو دیکھ کر اْسے بْرا نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کا مقبول ترین بندہ ہو۔ اس سلسلے میں ۲ حکایات پیشِ خدمت ہیں: حکایت نمبر ا حضرت عمرفاروقؓ کے زمانے میں ایک سارنگی بجانے والا گوّیا تھا۔ اتنا خوشنوا کہ بلبل بھی اس کی آواز سے مست ہو جائے۔ اس کی آواز گویا مْردوں میں جان ڈال دیتی۔ اس کی ساری عمر سارنگی بجاتے گزر گئی۔ یہاں تک کہ ۷۰ سال کا ہوگیا۔ خوشنوائی رخصت ہوگئی، آواز بھدی ہوگئی، ہاتھ کانپنے لگے اور دو وقت کی روٹی سے تنگ آگیا۔ اسے ایک دن خیال آیا کہ ساری عمر لوگوں کے لیے سارنگی بجائی۔ چند کوڑیوں کے لیے لوگوں کو خوش کرتا رہا۔ کیوں نہ آج خالقِ حقیقی کے لیے بھی سارنگی بجائوں اور انعام پائوں۔ یہ سوچ کر وہ مدینہ کے قبرستان چلا گیا اور سارنگی بجانے لگا۔ اس حالت میں اسے نیند آگئی اور وہ سو گیا۔اللہ رب العزت کو اس کی یہ ادا اتنی زیادہ پسند آئی کہ حضرت عمرؓ کو باحالتِ نیند الہام کیا کہ میرا ایک بندہ قبرستان میں پڑا ہے۔ بیت المال سے ۷۰۰ درہم لے کر اسے دے آئو۔ عمرفاروقؓ ۷۰۰ درہم لے کر وہاں پہنچے۔ سارنگی والے کو دیکھ کر اسے فاسق و فاجر سمجھ کر کسی اور بندے کو تلاش کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ انھیں الہام کیا کہ یہی میر اوہ بندہ ہے۔ آپؓ نے اسے جگایا تو وہ آپ کو سامنے دیکھ کر ڈر گیا کہ گناہگار بندہ ہوں اور محتسب سر پر آگیا ہے، لیکن آپ اسے کوئی سزا دینے کے بجائے ۷۰۰ درہم دیتے اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ نے تمھارے لیے بھیجے ہیں۔ وہ بڑا شرمندہ ہوتا ہے اور خدا کے حضور عرض کرتا ہے کہ اے مولیٰ…! تو کتنا رحمان و رحیم ہے۔ میں نے ۷۰ سال تک تیری نافرمانی میں زندگی گزاری اور تو نے پھر بھی مجھے یاد رکھا۔ وہ پھر تائب ہوگیا اور سارنگی توڑ دی۔ قارئین کرام! غور فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کتنا دیالو ہے۔ ایک بندہ جو ۷۰ سال اللہ کی نافرمانی کرتا رہا محض سارنگی بجانے پر اس کو یہ انعام دیا کہ امیرالمومنین کو اس کے پاس بھیجا۔ ۷۰۰ دینار دے کر اس کے ضمیر کو ایسا کچوکا لگایا کہ وہ خودبخود تائب ہوگیا۔ لہٰذا بندہ چاہے جتنا بھی گناہگار ہو جب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ جو اسے ۷۰ مائوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے، اس کی پکار کو ضرور سنتا ہے۔ حکایت نمبر ۲ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک کا ایک بادشاہ تھا۔ اس نے ایک نہایت خوبصورت باز پال رکھا تھا جس سے وہ شکار کا کام لیتا تھا۔ باز اس کا وفادار اور اس کے اشاروں پر چلنے والا تھا۔ ایک دن وہ گم ہوگیا۔ تلاش کے باوجود بھی نہ ملا۔ بادشاہ نے ملک بھر میں ڈھنڈورا پٹوا دیا۔ باز کی تلاش شروع ہوگئی۔ اْدھر باز ایک بْڑھیا کی جھونپڑی میں چلا گیا۔ بْڑھیا ناسمجھ اور جاہل تھی۔ اس نے باز کو دیکھا تو کہا، تو کِن ناسمجھ لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے؟ جنھوں نے تیرے پروں کی تراش خراش کی نہ تیرے ناخن کاٹے اور نہ تیری ٹیڑھی چونچ کو سیدھا کیا۔ سو اس نے باز کی چونچ، پروں اور ناخن کو کاٹ دیا اور اسے بالکل بے کار کردیا۔ بادشاہ کے کارندے باز کو ڈھونڈتے ہوئے بْڑھیا کی جھونپڑی تک پہنچے اور باز کو لے کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کرکے سارا ماجرا بیان کیا۔بادشاہ بہت رویا اور باز سے کہنے لگا تیرا یہی علاج تھا جو بْڑھیا نے کردیا۔ تو نے اپنے مالک سے جو تیری ہر ضرورت کو بہتر سمجھتا اور تیرا خیال رکھتا تھا دغا دیا اور ایسی جگہ گیا جہاں نہ تو کوئی تیری ضرورت کو سمجھتا تھا اور نہ تیرا خیال رکھ سکتا تھا۔ پس ذلت تو تیرا مقدر ہونی ہی تھی سو وہ ہوئی۔ سبق: باز سے مراد انسان اور بڑھیا سے مراد دنیا

@CaLmInG MeLoDy Gorgeous Princess Nimra Rashid; Arosa Hya ayesha intelligent086 Ainee maya BDunc UmerAmer Rania PRINCE SHAAN Roomi Special.Girl (http://www.urdutehzeb.com/member.php?u=672)

Aseer e Wafa
07-26-2015, 03:44 PM
Thanks for sharing

Roomi
07-27-2015, 09:33 AM
thanks for the sharing

its really nice and informative :)

PRINCE SHAAN
07-29-2015, 08:05 PM
Thanks for nice sharing.................

intelligent086
07-31-2015, 02:32 AM
Thanks for nice sharing.................


thanks for the sharing

its really nice and informative :)



Thanks for sharing


http://www.mobopk.com/images/mashaallahjazakajej.gif

ayesha
08-18-2015, 08:43 AM
nice sharing...