PDA

View Full Version : ’’تم میرے مہمان ہو‘‘ معروف ادیب گوپال متل کی ت&#



intelligent086
07-16-2015, 08:43 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13387_67083362.jpg.pagespeed.ic.u8zKZ4BU7g .jpg

فسادات نے انتہائی زور پکڑا تو بھی انکارکلی کا علاقہ محفوظ رہا۔ اس لیے نگینہ بیکری کی محفل برہم نہیں ہوئی۔ انارکلی میں فساد نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں کے ہندو اور مسلمان دوکانداروں میں سمجھوتہ ہوگیا تھا کہ بازار کو تباہ نہیں ہونے دیا جائے گا چناں چہ جب باقی شہر جل رہا تھا تب بھی انارکلی پر آنچ نہیں آئی۔ کاروبار البتہ یہاں بھی معطل تھا ور کھانے پینے کی اِکا دُکا دکانوں کو چھوڑ کر کوئی دکان کھلی نظر نہ آتی تھی۔ ایک دن دوپہر کو میں گھر پر بیٹھا تاش کھیل رہا تھا کہ کسی نے اطلاع دی کہ آتش زنی اور لوٹ مار کا سلسلہ انارکلی میں بھی شروع ہوگیا ہے۔ کچھ غنڈے راجہ برادرز کی دکان کا، جو میرے گھر کے قریب ہی تھی‘ تالا توڑ رہے تھے اور آگ لگانے کی کوشش بھی کی جارہی تھی۔ ان دنوں فائر بریگیڈ اور پولیس کی مدد حاصل کرنا ناممکن نہیں تھا، اس لیے یہ یقینی نظر آتا تھا کہ اگر آگ لگ گئی تو سارا بازار جل کر رہ جائے گا لیکن کراکری کی مشہور دکان بیجابل اینڈ سنزکے مالک کے حکام کی رسی آڑے آگئی۔ اس نے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو جو ایک انگریز تھا، براہِ راست ٹیلی فون کر دیا۔ وہ کچھ سپاہیوں کو لے کر جائے واردات پر پہنچا اور اپنے ہاتھ سے مشین گن چلا کر تین فسادیوں کو ہلاک کردیا‘ باقی بھاگ گئے۔ آگ البتہ لگ چکی تھی لیکن یہ بھی پھیلی نہیں اور جو واحد دکان جلی وہ کسی ہندو کی نہیں بلکہ مسلمان کی تھی۔ فسادیوں کی لاشیں اگلے دن بھی بازارہی میں پڑی رہیں‘ شاید لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے۔ تینوں لاشیں نچلے طبقے کے مسلمانوں کی تھیں جو لباس اور وضع قطع سے پیشہ ور غنڈے معلوم ہوتے تھے۔انارکلی کو بچانے میں ایک انگریزی افسر کی تنہا بہادری کو دخل تھا لیکن یہ بات بدستور سنی جاتی رہی کہ فسادات انگریزکرا رہے ہیں۔ انارکلی کے دکانداروں کا سمجھوتہ اس واقعے کے بعد بھی برقرار رہا اور خنجر زنی کے اِکا دُکا واقعات کو چھوڑ کر یہاں فساد نہیں ہوا۔ ہندو بہرحال سہمے ہوئے تھے اور اس سکون کو آنے والے طوفان کاپیش خیمہ سمجھ رہے تھے۔ فسادات کی درپردہ تیاریوں کا شبہ ایک مسلمان رئیس کے بیٹوں پر تھا جس کی انارکلی میں کافی جائداد تھی۔ ان میں سے ایک کبھی کبھی نگینہ بیکری میں بھی آیا کرتا تھا۔ اس واقعے کے دو تین بعد ملا تو کہنے لگا: متل صاحب کیوں نہ آج چائے گھر چل کر ہی پئیں۔ میں ساتھ ہولیا۔ ان لوگوں کی کوٹھی بہت بڑی تھی اور خود کا کمرہ اوپر کی منزل پر تھا جہاں پہنچنے کے لیے کئی زینوں کو پار کرنا پڑتا تھا۔ کمرے میں پہنچتے ہی کہنے لگا: تم جانتے ہو کہ میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں؟ میں نے کہا: قتل کرنے کے لیے۔ میرے جواب پر ہنس پڑا اور یہ ہنسی اس کی دلی مسرت کی آئینہ دار تھی۔ کہنے لگا کہ میں خوش ہوں کہ کم از کم ایک ہندو مجھے قاتل نہیں سمجھتا۔ میں تمہیں یہاں آج اس لیے لایا تھا کہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کروں۔ یہ بتائوں کہ مجھ پر فساد کی درپردہ تیاریوں کا جو الزام ہے وہ غلط ہے۔ انارکلی پرسکون سہی لیکن اندرونِ فصیل قیامت کا عالم تھا اور ہندوئوں کے بازار یکے بعد دیگر جلائے جارہے تھے جب تک ہندوئوں کو یہ خیال رہا کہ لاہور ہندوستان ہی میں رہے گا، وہ وہاں ڈتے رہے لیکن جب لاہور کے بارے میں فیصلہ ہوگیا کہ وہ پاکستان میں جائے گا تو ان کے قدم اکھڑ گئے۔ پھر اونچی سطح پر خواہ مضمر طور پر ہی سہی تبادلۂ آبادی کا فیصلہ بھی ہوگیا اور جانے والوں کے لیے سرکاری ٹرک مہیا کر دیے گئے۔ اب ہندوئوں کے وہاں رہنے کا سوال ہی نہیںتھا۔ میرا اٹھنا بیٹھنا چوں کہ زیادہ تر مسلمانوں میں تھا‘ اس لیے وہ مسلمان جو میرے ذاتی دوست نہیں تھے، مجھے مسلمان ہی سمجھتے تھے جس کے باعث ایک دلچسپ صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ پانچ اگست کو میں نگینہ بیکری میں صبح کا ناشتہ کررہا تھا اور محفل جمی ہوئی تھی کہ یکایک دو تین غنڈہ صورت مسلمان داخل ہوئے اور ہماری میز کے قریب ہی بیٹھ گئے۔ پھر ہماری گفتگو میں بھی شریک ہوگئے اور اپنے قتل و غارت گری کے کارنامے فاتحانہ انداز میں سنانے لگے ۔ ان میں سے ایک خصوصیت سے میری طرف مخاطب تھا اور ایک گردوارے پر حملے کی روداد سُنا رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ گردوارے والوں کے پاس اسلحہ کافی تھی اور وہ اپنے بچائو کے لیے متواتر گولیاں چلاتے رہے لیکن گولیاں آخر ختم ہوگئیں جس کے بعد وہ اور اس کے ساتھی دیوار پھاند کر گردوارے کے اندر گئے اور سکھوں کو ایک ایک کرکے ذبح کر ڈلا۔خدا جانے اس کا باعث میرا اپنے مسلمان دوستوں پر کامل اعتماد تھا یا دیوانگی کی کوئی ترنگ کہ میں نے بتادیا کہ جس شخص کو وہ اپنی روداد سُنا رہا ہے ‘ وہ ایک ہندو ہے۔ اس کا لہجہ فوراً ہی بدل گیا‘ کہنے لگا کہ اگر پرسوں تم سے ملاقات ہوتی تو تمہیں ضرور قتل کردیتا لیکن کل پاکستان قائم ہوگیا ہے۔ اب تم میرے مہمان ہو۔ میرے گھر چلو‘ میں تمہاری تواضع کروں گا اور اگر کوئی تم پر انگلی اٹھائے گا تو اس کا سر کاٹ دوں گا۔ اپنی انٹی سے نکال کر اس نے مجھے کچھ گولیاں بھی دکھائیں‘ کہنے لگا یہ ان میں سے چند گولیاں ہیں جو تمہارے بھائی بند ہم پر چلاتے رہے ہیں۔ (کتاب ’’لاہور کا جو ذکر کیا‘‘ سے مقتبس)

UmerAmer
07-16-2015, 02:54 PM
Nice Sharing
Thanks For Sharing