PDA

View Full Version : موسیقی کی دنیا کا دل : نصرت فتح علی خان



intelligent086
07-03-2015, 10:25 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13304_40478243.jpg.pagespeed.ic.9YWeH8C0hn .jpg

کیرن آئی اولسن
(یہ مضمون کیرن آئی اولسن(Karen I. Olsen) کے ایک خط کا انتخاب ہے جو 24 اگست 1997 کو لکھا گیا) جیسا کہ آپ شاید خبروں میں سُن چکے ہوں گے یا جلد ہی آپ CNNپر دیکھ لیں گے۔1997 کے اگست وسط میں،وہ ہفتہ میرے لیے ایک بڑا ناخوشگوار موقع تھا۔نصرت فتح علی خان میرا پسندیدہ موسیقار،وہ موسیقی کی کوئی بھی صنف ہو اور ایک ایسا آدمی جس کے ساتھ موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔وہ 1997ء کو گیارہ اگست بہ روز سوموار لندن میں بیمار ہو گیا۔جو گردے کی تبدیلی کے لیے لاہور سے لاس اینجلس جا رہا تھا۔وہ دوپہر سے کچھ ہی دیر پہلے 16 اگست کو دل کا اچانک دورہ پڑنے سے وفات پا گیا۔اس وقت وہ لند ن کے کروم ویل ہسپتال میں ہی تھا۔میں نے اگلی صبح پہلی دفعہ یہ خبر سٹیل ٹائمز اور نیویارک ٹائمز دونوں میں پڑھی۔اس کے جسدِ خاکی کو پہلے ہی واپس روانہ کردیا گیا تھا۔جہاں ہزاروں غم گسار لوگوں نے تدفین کی رسومات میں شرکت کی۔ اس ابتدائی صدمے کے کرب میں رہنے کے بعد اگلے چند ہفتے میں نے زیادہ تر وقت حقیقتاً ایک عجیب وغریب سکون محسوس کیا۔جس کی واقعی مجھے سمجھ نہ آئی۔میںقطعاً شدیدپریشان یا جذباتی ہیجان میں مبتلا نہ رہی جیسے کہ مجھے توقع تھی۔تاہم ایسا وقت بھی گزرا ہے جب واقعی مجھے کوئی پروا نہ تھی چاہے میں مر جائوں یا زندہ رہوں۔اُس سال کئی دفعہ میں نے خدا سے شدید غصہ میں یہ تقاضا کیا کہ نصرت کو فوراً واپس بھیج دے اور یہ تقاضا بھی کیا کہ میرے خواب مجھے لُٹا دو جو بلا جواز مجھ سے چھین لیے گئے۔یہ ایک ایسا آدمی تھا جس کو میں کہیں بہتر طور پر جاننا چاہتی تھی جتنا کہ میں اب جانتی ہوں۔ایک ایسا آدمی جس سے میں موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی اور اس کے ساتھ کام کرنا چاہتی تھی۔میرے کئی ایسے عمدہ خواب،اُمیدیںاور زندگی کے مقاصد تھے جن میں نصرت اور دوسرے بین الاقوامی موسیقار شامل تھے۔نصرت دنیائے موسیقی کی روح اور دل تھے۔ایک ایسی دنیا جس کے ساتھ وابستہ رہنا میری ایک عرصے سے خواہش تھی۔ بہت سے لوگ یہ کہہ چکے ہیں۔نصرت اس لیے 48 سال کی عمر میں وفات پا گئے کیوں کہ وہ اپنی صحت اورجسمانی حالت کا مناسب طور پر خیال نہیں رکھتے تھے لیکن میں اپنے مشاہدہ کی بنا پر یہ کہنے میں بالکل حق بہ جانب ہوں کہ وہ اپنی زندگی کے آخری سالوں کے دوران اپنی صحت کا خیال رکھنے کی بہت کوشش کرتے رہے۔اپنے آخری جنوبی امریکہ کے دورہ کے دوران اُن کے ساتھ ان کا ذاتی معالج رہا۔اپنی ذیابیطس کو قابو میں رکھنے کے لیے چکنائی پر مشتمل غذا استعمال کرتے۔جب تک 1996 ء میں، میں نے آخری بار انھیں دیکھا تو اُس سے ایک سال پہلے کی نسبت وہ خاصے بہتر دکھائی دیئے اور ان کے حوصلے جوان تھے۔کنسرٹ کے وقفے کے دوران ان سے ملنے کے لیے جانا میں کبھی نہ بھولوں گی اور ان کا ملنے کے لیے باہر آنا اور میرا ہاتھ پکڑ لینا اور اپنی سیاہ چمک دار آنکھوں سے اس طرح میرے چہرے کی طرف دیکھنا کہ میں تقریباً نابیناسی ہوگئی اور یہ سارا کچھ میںچند لمحے ہی دیکھ سکی۔ ۔۔۔۔۔۔