PDA

View Full Version : ارسطو دا نش یونان کا آخری تابندہ ستارہ



intelligent086
07-02-2015, 09:41 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13298_95611527.jpg.pagespeed.ic.1J06EwzUEK .jpg

ارسطو دانش یونان کا آخری تابندہ ستارہ ہے!فلسفہ مابعد ارسطو نے رواقیت، ایپی کیوریت، تشکیک اور پھر ایک طویل وقفے کے بعد نوفلاطونیت کی صورت میں کچھ تحریکوں کو جنم دیا، مگر وہ کسی بڑے نظام فکر کو پیدا کرنے میں ناکام رہیں۔ یہ محض فلسفیانہ رحجانات تھے، جو سقراط، افلاطون اور ارسطو کے فلسفے سے قوت پرواز مانگتے تھے۔ اب اگر اس وقت کے عسکری، سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ہماری ملاقات ارسطو کے شاگرد سکندر اعظم سے ہوتی ہے، جس نے اپنے مختصر دور حکومت میں دنیا کو سیاسی اور ثقافتی طور پر بدل کر رکھ دیا۔ سکندر اعظم(وفات 323 ق م) مقدونیہ سے اٹھا اور ایشیائے کوچک، شام، مصر، عراق، ایران، سمر قند اور پنجاب تک مار کرتا چلا گیا۔ مگر معاملہ صرف سیاسی فتوحات کا نہیں ہے۔ اپنے وقت کی سپرپاور ایران کی تباہی و تسخیر کا بھی نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ وہ دنیا کو ثقافتی طور پر بدلنا چاہتا تھا۔ سو، اس نے مصر و ہندوستان تک مشرق کو ایسی تہذیب کے ساتھ جوڑ دیا، جس میں یونانی تہذیب و ثقافت اور زبان نے قائدانہ کردار ادا کرنا تھا۔ یہ ایک نئے عہد کی شروعات تھیں، جسے تاریخ میں’’یونانیت‘‘ یا ’’ہیلنی عہد‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔’’یونانیت‘‘ ایک عہد بھی ہے اور ایک ’’ثقافت‘‘ بھی جو اگلے چار سو سال تک یونان، شام اور مصر میں پوری قوت سے رائج رہی اور اس کے کمزور ہوتے ہوئے اثرات اس وقت تک محسوس کئے جا سکتے ہیں، جب سن400 عیسوی میں قرون وسطیٰ کا آغاز ہو رہا تھا اور وہ یوں کہ اگرچہ 50 ق م پہلے روم کو سیاسی اور عسکری طور پر یونانیوں پر غلبہ حاصل ہوگیا تھا، مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یونانی دنیا کی تسخیر سے پہلے خود روم یونان کا ایک صوبہ تھا۔ سو، مٹتا ہوا یونانی ثقافتی اثرورسوخ اگلی کئی صدیوں تک اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ دنیا کے ایک بڑے حصے کو ایک ثقافتی رنگ میں رنگنا ایک خوش کن خیال لگتا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ مختلف ملکوں اور ان کی ثقافتوں کے مابین حدبندیوں کی دیواریں گر گئیں۔ گویا ان کے تحیر نے گائوں سے ایک بڑے شہر میں قدم رکھ دیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب’’قومی‘‘ سرحدیں ٹوٹتی ہیں اور مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان مکالمہ ہوتا ہے تو نئے تجربے کے ساتھ ساتھ شک اور بے یقینی کا پرندہ بھی سر اٹھاتا ہے اور یہی کچھ ہوا بھی۔ (ظفر سپل کی کتاب’’ورثہ ٔدانش ِیونان‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭