PDA

View Full Version : روی شنکر شرما…ایک منفرد سنگیت کار



intelligent086
06-27-2015, 08:34 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13259_80114619.jpg.pagespeed.ic.xAkuI6zCnA .jpg

عبدالحفیظ ظفر

کیا باکمال موسیقار تھے روی شنکر شرما۔ بھارتی فلمی صنعت میں انہیں روی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ وہ سنگیت کار تھے جنہوں نے ہندی فلموں کے علاوہ ملیالم فلموں میں بھی شاندار موسیقی دی۔ ذرا تصور کیجیے کہ جب بھارتی فلمی صنعت میں سی رام چندر، کھیم چند پرکاش، انیل بسواس، سجاد حسین، ایس ڈی برمن، نوشاد اور شنکر جے کشن کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا، کیا اس وقت کسی اور موسیقار کیلئے اپنی جگہ بنانا ممکن تھا؟ مشکل، یقیناً بہت مشکل تھا۔ لیکن روی نے یہ چیلنج قبول کیا اور اتنے زبردست موسیقاروں کی موجودگی میں اپنے آپ کومنوایا۔ یہ ان کے فن کی عظمت تھی جس کی بدولت انہوں نے بہت کم عرصے میں اپنی ایک الگ شناخت بنالی۔ اس وقت کے نامور سنگیت کاروں نے روی کی صلاحیتوں کا کھل کر اعتراف کیااور قدم قدم پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ 3مارچ 1926ء کو دہلی میں پیدا ہونے والے روی نے کلاسیکی موسیقی میں رسمی طور پر کوئی تربیت حاصل نہیں کی۔ انہوں نے اپنے والد سے موسیقی سیکھی جو بھجن گاتے تھے اوریہ بڑے شوق سے انہیں سنتے تھے۔ ہارمونیم انہوں نے خود ہی سیکھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کلاسیکی موسیقی میں استعمال ہونے والے آلات سے بھی شناسائی حاصل کی۔ اپنے خاندان کی کفالت کیلئے انہوں نے الیکٹریشن کے طور پر بھی کام کیا۔ 1950ء میںانہوں نے ممبئی میں شفٹ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ پیشہ ور گلوکار بننے کے آرزو مند تھے۔ روی بے گھرتھے اور گلیوں میں رہا کرتے تھے۔ رات کو وہ اسٹیشن پر سو جایا کرتے تھے۔1952ء میں گلوکار و موسیقار ہیمنت کمار نے انہیںدریافت کیا۔ روی نے کئی سپرہٹ فلموں کا سنگیت دیا اورانہیں ان فلموں پر فلم فیئر ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا۔ ان فلموں میں ’’چودھویں کا چاند، ہمراز، دوبدن اور آنکھیں‘‘ شامل ہیں۔ ’’گھرانہ‘‘ اور ’’ خاندان‘‘ میں اعلیٰ درجے کا میوزک دینے پر روی کو فلم فیئر ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا۔ 1965ء میں ریلیز ہونے والی یش چوپڑا کی فلم ’’وقت‘‘ بلاشبہ اپنے دور کی کامیاب ترین فلم تھی۔ اس کی موسیقی بھی روی نے ترتیب دی اور اس کے گیتوں نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ خاص طور پر یہ گیت ’’اے میری زہرہ جبیں‘‘ اور’’ آگے بھی جانے‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ انہوںنے اوپی نیئر کے بعد آشا بھوسلے کے کیریئر کو نئی جہتوں سے روشناس کیا۔ ان کی فلم ’’استادوں کے استاد‘‘ کے نغمات نے بے مثال شہرت حاصل کی۔ محمد رفیع کا گایا ہوا یہ گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے’’سوبار جنم لے لیں گے۔‘‘ فلم ’’ٹاورہائوس‘‘ میں لتا منگیشکر کا گایا ہوا یہ گیت لازوال شہرت کا حامل ہے۔لگتا ہے کہ لتا نے اپنے دل کا سارا سوز اس گیت میں سمو دیا ہے۔ اس گیت کے بول تھے ’’اے میرے دل ناداں‘‘۔ شمی کپور نے اپنے منفرد سٹائل کی وجہ سے بہت شہرت حاصل کی۔ ان کی ایک خوبی گانوں کی عکسبندی کا ان کا انوکھا انداز تھا۔ خاص طوپر کلب سانگز کی عکسبندی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کی فلم ’’چائنہ ٹائون‘‘ میں روی کی موسیقی میں ایک کلب سانگ فلمبند کیا گیا جس کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس کے بول کچھ یوں تھے۔ ’’بار بار دیکھو، ہزار باردیکھو‘‘ اس کلب سانگ میں شمی کپور کے ساتھ اپنے وقت کی معروف ہیروئین شکیلہ تھیں۔ شمی کپور نے اپنی لاجواب اداکاری کی بدولت اس کلب سانگ کو امربنا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روی نے اس گیت کی موسیقی دینے میں حیرت انگیز صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ اس کلب سانگ کا شمار بھارتی فلموں کے بہترین کلب سانگز میں کیا جاتا ہے۔ روی کا ایک اور کمال یہ تھا کہ انہوں نے شادی کے حوالے سے یادگار گیت کمپوز کیے اور ان کے یہ گیت شادی کی تقریبات میں گائے جاتے تھے۔ پھر انہوں نے مہندر کپور کوبالی وڈ میں کامیاب بنانے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ مہندر نے روی کے ترتیب دیئے ہوئے میوزک میںیادگار نغمات گائے جو آج بھی مقبولیت کے حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں۔ انہوں نے جن فلموں کیلئے یہ گیت گائے ان میں ’’ہمراز‘‘ اور ’’گمراہ‘‘ شامل ہیں۔ یہ گیت ملاحظہ کریں۔ -1تم اگر ساتھ دینے کا وعدہ کرو۔ -2 نیلے گگن کے تلے -3 چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں اس حقیقت کا اعتراف مہندر کپور نے بھی اپنی زندگی میں کئی بار کیا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ محمد رفیع سے بہت متاثر تھے ۔ روی نے خود محمد رفیع سے بے شمارگیت گوائے جنہوں نے بہت شہرت حاصل کی۔ لیکن مہندرکپور سے بھی انہوں نے ایسے گیت گوائے جن کا کوئی جواب نہیں۔ یہاں اگر گورودت کی مشہور فلم ’’چودھویں کا چاند‘‘ کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ بڑی ناانصافی ہوگی۔ گورودت اپنی فلموں میں ہمیشہ ایس ڈی برمن کو موسیقار کے طور پر لیتے تھے۔ لیکن ’’چودھویں کا چاند‘‘ میں انہوں نے روی کا انتخاب کیا۔ ’’چودھویں کا چاند‘‘ایک مسلم سوشل فلم تھی اور گورودت کا شاید یہ خیال تھا کہ اس فلم کی موسیقی کیلئے روی مناسب رہیں گے۔ وقت نے ثابت کیا کہ گورودت کا انتخاب درست تھا کیونکہ اس فلم کے گیتوں نے بے مثال شہرت حاصل کی۔ شکیل بدایونی کے لکھے گئے اس گیت کا تو آج بھی کوئی ثانی نہیں۔ ’’چودھویں کاچاند ہو، یا آفتاب ہو‘‘۔ محمد رفیع کو یہ گیت گانے پر فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یوم آزادی کی ایک تقریب میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے محمد رفیع سے یہی گیت گانے کی فرمائش کی تھی۔ روی کی مشہور فلموں میں ’’ٹاور ہائوس، استادوں کے استاد، گھرانہ، نذرانہ، چودھویں کا چاند، دو بدن، ہمراز، آنکھیں، گمراہ، ایک سال، چراغ کہاں روشنی کہاں، گھونگھٹ، سلام میم صاحب، چائنہ ٹائون، بھروسہ، کاجل، دو کلیاں، نیل کمل، ایک پھول دومالی، آج کی آواز، خاندان اور نکاح‘‘ شامل ہیں۔ ایک سال میں انہوں نے طلعت محمود کی آواز میں ایک باکمال گیت کی موسیقی دی۔ یہ گیت لازوال شہرت کا حامل ہے۔ اس کے بول ملاحظہ کیجئے۔ ’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا‘‘ اس کے علاوہ فلم ’’نکاح‘‘ کا میوزک بہت پسند کیا گیا۔ سلمیٰ آغا نے ان کی موسیقی میں جو غزل گائی اس پر انہیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ غزل زبردست مقبولیت سے ہمکنار ہوئی۔ جس کے بول تھے ’’دل کے ارماں آنسوئوں میں بہہ گئے‘‘۔ ذیل میں ان کے کچھ مشہور گیتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو آج بھی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روی کے فن کا سورج آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ -1 چلو اک بار پھر سے …گمراہ -2 نیلے گگن کے تلے … ہمراز -3 آگے بھی جانے نہ تو…وقت -4 اے مری زہرہ جبیں…وقت -5 اے میرے دل ناداں… ٹاورہائوس -6 چودھویں کا چاند ہو…چودھویں کا چاند -7 سو بار جنم لیں گے… استادوں کے استاد -8 ملتی ہے زندگی میں… آنکھیں -9 جب چلی ٹھنڈی ہوا… دو بدن 7 مارچ 2012ء کو یہ بے بدل سنگیت کار اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا۔ ان کا سنگیت ہمیشہ زندہ رہے گا۔

UmerAmer
06-27-2015, 02:41 PM
Nice Sharing

PRINCE SHAAN
06-30-2015, 10:21 AM
بہت ہی اچھی شیئرنگ کی ہے آپ نے . شکریہ