PDA

View Full Version : دستی کھڈیاں، صدیوں پْرانے آبائی پیشے کا &



intelligent086
06-09-2015, 10:41 AM
http://dunya.com.pk/news/special_feature/specialFeature_img/495x278x13145_51101558.jpg.pagespeed.ic.9GfGGVX7o4 .jpg

رفاقت علی
ضلع فیصل آباد ایک طرف جہاں جدید ٹیکسٹائل انڈسٹری کی مصنوعات کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے وہیں یہاں کی دستی کھڈیوں (ہینڈ لوم) پر بْنے گئے کھیسوں نے بھی اپنی خوبصورتی، نزاکت، نفاست اور مضبوطی کے لیے اندرونِ اور بیرونِ مْلک نام پیدا کیا ہے۔تاہم مشینی کھیسوں کی سستے داموں دستیابی اور حکومتی سطح پر پذیرائی نہ ملنے کے باعث یہ انوکھی گھریلو صنعت اپنی آخری سانسیں بھرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ہمارے ہاں کھیس لگ بھگ تمام ہی طبقات کے لوگ استعمال کرتے ہیں اور دیسی کھڈیوں پر ان کی بْنت کا کام پْشتوں سے چلا آ رہا ہے۔کھیسوں کی مقبولیت اور خوبصورتی میں سب سے اہم کردار ان ہاتھوں کا ہوتا ہے جو اسے تیار کرتے ہیں۔ کھڈی پر کام کرنے والے ایک محنت کش کاریگر کی لگ بھگ تمام عمر دھاگے کے تانے بانوں میں گزر جاتی ہے۔ مشینی کھیسوں کی آمد سے قبل اس فن سے وابستہ افراد کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور یہ لوگ مختلف ڈیزائنوں، رنگ اور سائز کے کھیسوں کی تیاری سے اچھی آمدن حاصل کر لیتے تھے۔گزشتہ کئی سالوں میں کھڈی کے کھیسوں کی جگہ مشینی کھیسوں نے لی تو نسل در نسل اس کام سے وابستہ کاریگروں کو بڑا دھچکا لگا اور وہ اسے خیر آباد کہنے پر مجبور ہو گئے۔ اس فن سے وابستہ بشیر احمد کا شمار اْن چند کاریگروں میں ہوتا ہے جو فیصل آباد میں اس قدیم فن کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان میں کھڈی پر کھیسوں کی تیاری کا کام نسل در نسل چلا آ رہا ہے لیکن اب وہ نہیں چاہتے کہ اْن کی آنے والی نسلیں اس کام سے وابستہ رہیں۔بشیر کا ماننا ہے کہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے لوگوں کی قوتِ خرید کم کر دی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ قدرے کم قیمت پر دستیاب مشینی کھیس خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بشیر کا کہنا تھا کہ اگر دھاگہ گاہک خود لے کر آئے تو وہ ایک کھیس بْننے کے 3 سو روپے لیتے ہیں اور دن بھر کی محنت کے بعد بمشکل ایک کھیس ہی بْن پاتے ہیں۔اگر میں خود دھاگہ خرید کر کھیس تیار کروں تو مجھے فی کھیس پانچ سے چھ سو روپے بچت ہو جاتی ہے تاہم میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ خود دھاگہ خرید کر وسیع پیمانے پر کام شروع کر سکوں۔ گْزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بشیر کہتے ہیں کہ آج سے تقریباً 20 سال پہلے تک ان کے پاس بہت کام ہوتا تھا۔ اْن کے کام میں گھر کی عورتیں بھی اْن کا ہاتھ بٹاتی تھیں اور اچھا گْزر بسر ہو جاتا تھا تاہم اب آمدن اتنی کم ہے کہ گھر کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو گیا ہے۔بشیر بتاتے ہیں کہ کھیس کی تیاری کے دوران عموماً کھڈی کی کلی ٹوٹ جاتی ہے جس کی وجہ سے کاریگر کو کافی زیادہ چوٹ لگتی ہے اور اس کی مرمت میں تین سے چار سو روپے خرچہ آ جاتا ہے۔مقامی رہائشی کلثوم بی بی نے کہا کہ انہیں مشینی کھیسوں کی نسبت کھڈی پر بنے دیسی کھیس زیادہ پسند ہیں اور انہوں نے اپنی بیٹیوں کو بھی یہی کھیس جہیز میں دیئے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ کھڈی پر ہاتھ سے بْنا جانے والا کھیس بلاشبہ مشین کے مقابلے میں زیادہ معیاری اور پائیدار ہوتا ہے لیکن اس کی قیمت مشینی کھیس سے تقریباً دوگنا ہوتی ہے۔بشیر کا کہنا تھا کہ دستی کھڈی کی دم توڑتی صنعت کو اگر حکومتی سطح پر پذیرائی نہ دی گئی تو آئندہ سالوں میں کھڈیاں اصلی زندگی سے نکل کر عجائب گھروں میں ہی رکھی ہوئی نظر آئیں گی۔ (سجاگ، فیصل آباد)