PDA

View Full Version : Part-8



CaLmInG MeLoDy
06-05-2015, 11:46 AM
السلام علیکم

گزشتہ حصوں میں آپ نے شہیر اور اسکے بیٹے شہرم کے درمیان فاصلہ اور ناراضگی کو دیکھا، اور اس ناراضگی کی وجہ سے شہیر کے والدین یعنی شہرم کی پرورش کرنے والے اسکے دادا دادی کو بھی پریشانی میں مبتلا دیکھا. آپ نے پڑھا کہ شہیر اپنے آپ میں شرمندہ ہے، مگر اپنے بیٹے شہرام کو راضی نہیں کر پا رہا ہے ، اور اپنے بیٹے سے یہ درخواست کر رہا ہے کہ وہ اپنے باپ کی بات سن لے ، مگر شہرم بے حسی کا مظاہرہ کر رہا ہے .آئیے اب آگے پڑھتے ہیں .













کچھ سال پہلے


اف ..................یار یہ لائٹ تو آف کر دو .

شہیر یکدم چونک کر بستر پر اٹھ بیٹھا .شہیر کا دل بیٹھ سا گیا ، کیوں کہ آج پہلی صبح تھی شہیر کی نیلم کے بغیر . اور اٹھنے سے لے کر ناشتہ کرنے تک کے خیال نے شہیر کو مزید بوجھل کر دیا . رات پریشانی میں ، اور تھکن میں شہیر کب نیند کی آغوش میں چلا گیا ، اسے خبر ہی نہ ہوئی اور صبح آنکھ کھلی تو لائٹ آف نا ہونے سے اسے خیال آیا کہ لائٹ آف نا ہونے کی وجہ نیلم کا گھر پر نا ہونا ہے، اور ابھی تو اسے آفس کی تیاری کے سارے مراحل سے خود ہی گزرنا ہے. بستر چھوڑنے کو جی بھی نہیں چاہ رہا تھا ، اور بستر چھوڑنا ضروری بھی تھا . آفس کو دیر ہو رہی تھی . بڑی جھنجھلاہٹ سے شہیر نے پیروں میں لپٹی بستر کی سمٹی ہوئی بیڈ شیٹ کو اپنے پیروں سے جدا کیا . اور اوندھے منہ گرتے گرتے بچا . کیا ہے یار .یہ چادر بھی .

آج شہیر نے ناشتہ نہیں کیا. آفس کے کپڑے استری کرتے کرتے اسے اپنے لئے ناشتہ پکانے کا وقت نہیں ملا .اور تیاری مکمل ہونے تک آفس کی وین آنے کا ٹائم ہو چکا تھا . الجھے اور مایوس انداز میں شہیر نے وین میں باقی آفیسرز کو سلام کیا . اور نظریں نیچے کیے ایسے بیٹھ گیا ، جیسے سب سے نظریں چرا رہا ہو . میں نظریں کیوں چرا رہا ہوں، میں نے کیا ہی کیا ہے، اور ویسے بھی میں ان سب کو جواب دہ نہیں ہوں. اور یہ لوگ ہوتے کون ہیں مجھ سے سوال کرنے والے. پر پھر میں ان کے سوالوں سے ڈر کیوں رہا ہوں.

آفس کا آج کا دن سکون سے گزر گیا. کسی نے کوئی سوال نہیں کیا . آفس ٹائمنگ کے بعد فزراء نے شہیر کے سیل فون پر کال کی .آج کا کیا پروگرم ہے ؟
یار آج میں سیدھے گھر جاونگا ،
پر شہیر آج تو ہم نے.

فزراء نے بات مکمل بھی نہ کی کی تھی کہ شہیر نے کال ڈراپ کر دی .
یہ کیا بکواس ہے . فذرا نے اپنا سیل فون اپنے بیگ میں ایسے پھینکا جیسے کوئی بیکار چیز زمین پر اٹھا پھینکی ہو .

----------------------------------------

زیب بیٹا کھانا لگاؤ .
جی بیگم صاحبہ .
اچھا سنو زیب ، ابھی رک جاؤ کیا پتا شہیر کھانا کھا کر آئے .
پر آپ نے تو کہا تھا کہ صاحب آج یہاں کھانا کھایئں گے.
تمہیں معلوم تو ہے زیب ، شہیر کا مزاج .

وہ ہی چیختی ، چلاتی ، اور سب کا دھیان اپنی طرف کرتی دروازے کی گھنٹی بجی .
زیب دروازہ کھولو . یہ شہیر ہوگا . بچپن سے آج تک کبھی صبر سے کام نہیں لیا شہیر نے .

زیب کھانا لگا دو ، بہت بھوک لگی ہے، صبح سے بلکہ صبح سے کیا رات سے کچھ نہیں کھایا .
زیب کھانا لگاؤ ، اور سنو آج میں بھی شہیر کے ساتھ کھانا کھاؤں گی . بڑے صاحب جب آیئں تو انکو انکے کمرے میں ہی کھانا دے دینا .
جی بیگم صاحب . زیب یہ کہ کر کھانا لگانے میں مصروف ہو گئی .

زہرہ بیگم یعنی شہیر کی والدہ نے کھانے کی میز پر موجود شہیر کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا .
شہیر نے اپنی ماں کا ہاتھ جھٹک دیا .
زہرہ بیگم نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ سے پکڑ کر ایسا سمبھالا جیسے کوئی کانچ کا برتن گرنے سے بچایا ہو، پر دل تو کانچ کی طرح چٹخا ہی تھا شہیر کی اس حرکت پر .
لیکن ہمیشہ کی طرح پھر سے خود کو پر سکون محسوس کرنے لگیں. کرتی بھی نہ کیسے . آج برسوں پرانی مراد جو بر آئی تھی .
زہرہ بیگم کی پچھلے سات سال سے یہ خواہش انگڑائی لے رہی تھی کے شہیر اور نیلم کی بگڑے .

کیوں بیٹا غصے میں کیوں ہو ؟ زہرہ بیگم نے ایسے سوال کیا جیسے سارے ماجرے سے انجان ہوں .
پوچھ تو آپ ایسے رہی ہیں جیسے آپ کو کچھ معلوم ہی نا ہو .
کیوں بیٹا کیا ہوا . اپنی ماں کو نہیں بتاؤ گے ؟
امی بس کریں آپ . میرے یہاں آنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ آپ کو میں نے آپ کے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہونے دیا ہے، بلکہ ...... اتنا کہ کر شہیر خاموش ہو گیا . اور جلدی جلدی اپنے حلق سے کھانا اتارنے لگا .

آرام سے بیٹا . زہرہ بیگم بولیں.
شہیر نے اس بات پر ذرا سا بھی کوئی احساس ظاہر نا کیا .
اور کھانا ختم کرنے کے بعد سیدھا اس کمرے میں چلا گیا جہاں شادی سے پہلے شہیر رہا کرتا تھا .

دروازہ کھولتے ساتھ ہی شہیر کو ایک مانوس سے مہک اپنے کمرے میں محسوس ہوئی.
یہ مہک شہیر کے کمرے میں آنے سے پہلے ہمیشہ سے کمرے کا ماحول خوشگوار بنانے کے لئے ائیر فریشنرسے بکھیری جاتی تھی. کیوں کے شہیر کو کمرے سے آتی مختلف اشیاء جن میں فرنیچر ، کارپٹ کی مہک کچھ خاص پسند نا تھی. یہ اس بات کا ثبوت تھا کے شہیر کی اس گھر میں آمد کو مستقل سمجھا جا رہا تھا. مگر شہیر کسی اور نیت سے آج اس گھر میں داخل ہوا تھا.

شہیر نے اپنی الماری کھولی ، چابی وہیں مل گئی جہاں ہمیشہ ہوا کرتی تھی. یعنی الماری کے ساتھ رکھی میز کی دراز میں . یہ بھی اس بات کا ثبوت تھا کہ اس گھر کے باسیوں کو آج شہیر کی آمد کی خبر تھی. ورنہ اتنے سالوں تک اس دراز میں چابی کا پڑا رہنا بے معنی اور ان سیکیور تھا . شہیر کی آمد کی وجہ سے اسکی ہر چیز اپنی جگہ موجود تھی. شہیر نے وقت ضایع کیے بغیر اپنی الماری کی تلاشی لینی شروع کر دی. اور کچھ ضروری کاغذات اور پرانی تصاویر نکالی اور اپنے بیگ میں رکھ لیں.

اب شہیر کو بس اپنے والد کا انتظار تھا. اور اس انتظار میں شہیر کو مزید تین گھنٹے اس گھر میں گزارنے تھے. شہیر کے لئے یہ تین گھنٹے گزارنا ایک اور مشکل کام تھا. مگر یہ شہیر کی مجبوری تھی. جو اسے اس انتظار پر مجبور کر رہی تھی.